۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
News ID: 361333
8 جولائی 2020 - 12:44
اختلاف نظر یا پھر تعصب

حوزه/یہ تحریر لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی جب ہم نے سوشل میڈیا اور دیگر جگھوں پر اختلافات نظر کو توھین اور تعصب کے ہاتھوں اسیر ہوتا دیکھا یہ تحریر اختلاف نظر کو توھین اور تعصب کے ہاتھوں سے رہا کرنے کی کی ایک حتی الامکان کوشش ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی | یہ تحریر لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی جب ہم نے سوشل میڈیا اور دیگر جگھوں پر اختلافات نظر کو توھین اور تعصب کے ہاتھوں اسیر ہوتا دیکھا یہ تحریر اختلاف نظر کو توھین اور تعصب کے ہاتھوں سے رہا کرنے کی کی ایک حتی الامکان کوشش ہے۔

خدا گواہ ہے کہ انتھائی افسوس ہوتا ہے جب ہم اپنے ہی مومن بھائی کے خلاف وہ زبان استعمال کرتے ہیں جو ایک دشمن بھی نہیں کرسکتا۔ اس وقت آپ اگر سوشل میڈیا پر ملاحظہ کریں تو آپ کو نظر آئیگا کہ اختلاف رائے بیان کرنے کے بجائے  ناسزا،تحقیر،تذلیل،شخصیت کشی ،ذاتیات پر حملہ اور ان جیسی دیگر اخلاقیات سے گری ہوئی روش سے ایک فرد دوسرے افراد یا مجموعے کو مخاطب قرار دے رہا ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم کیسے ان تمام مسائل کو حل کریں کس طرح سے معاشرے کی یہ رزیلت فضیلت میں تبدیل ہوسکتی ہے  آئیے پہلے قرآن کے محضر میں چلتے قرآن سے پوچھتے اے قرآن کریم ہم اگرآپس میں کسی ایک بات پر متفق نہ ہوں ایک دوسرے سے اختلاف رائے رکھتے ہوں تو ہم کیسے ایک دوسرے سے بات کریں کیسے ایک دوسرے کو مخاطب قرار دیں قرآن اس موضوع پر جواب دیتا ہے: 

وَ قُلۡ لِّعِبَادِیۡ یَقُوۡلُوا الَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ یَنۡزَغُ بَیۡنَہُمۡ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ کَانَ لِلۡاِنۡسَانِ عَدُوًّا مُّبِیۡنً (اسراء: 53)
اے رسول میرے  بندوں سے کہدیجئے: وہ بات کرو جو بہترین ہو کیونکہ شیطان ان میں فساد ڈلواتا ہے، بتحقیق شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

یَقُوۡلُوا الَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ سے مراد یہاں پر یہ ہے کہ مومنین کو چاہیے کہ آُپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے بہترین انداز سخن اپنائیں وہ انداز نہ اپنائیں جس میں خشونت ہو جس میں مخاطب  کی توھین و تذلیل ہو  وہ انداز نہ ہو جس میں تعصب اور بد تمیزی ہو۔

اگر قرآن کی اس نصیحت کو آج ہمارے درمیان سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے تناظر میں تطبیق دیناچاہیں تو ہم یہ کہہ سکتے قرآن ہمارے معاشرے کے تمام تر طبقات کو، تمام لوگوں کو چاہے وہ عالم دین ہو یا استاد،طالب علم ہو یا محقق ،تنظیمی زمہ دار ہو یا پیروکار،چاہے وہ سوشل میڈیا کا ایک ایکٹو ممبر ہو یا واٹس اپ پر اسٹیٹس لگانے والا ہر فرد سے قرآن مخاطب ہے جب ایک دوسرے سے بات کروتو احسن انداز میں بات کرو یعنی  ادب سے بات کرو، ناسزا کا استعمال نہ کرو، تھمت اور بھتان نہ لگاؤ، تحقیروتوھین نہ کرو، کیونکہ اگر تم نے اچھے انداز میں بات نہ کی تو یاد رکھو تمھارے درمیان شیطان موجود ہے جو فساد ڈالنے والا ہے۔

پس جب ہم ایک دوسرے سے بات کرہے ہوتے ہیں تو ہمیں شیطان کو کوئی موقع نہیں دینا چاہیے جس سے وہ ہمارے درمیان اختلاف نظر کو نزاع اور جھگڑے میں تبدیل کرے عموما ہمارے معاشرے میں ہماری ایک بہت بڑی مشکل یہی ہے نہ ہم انتقاد اور اشکال کے درست راستے کو اپناتے اور نہ ہی اختلاف رائے کو تحمل کرتے ہیں جب ہم خیال نہیں رکھتے تو پھر ہمارے اختلافات تعصب کے ہاتھوں اسیر ہوتے چلے جاتے ہیں پھر ہم تھمت بھی لگاتے ہیں الزام بھی پھر ہم تحقیر بھی کرتے ہیں تذلیل بھی۔

 زبان اور اسی طرح آج کے دور میں سوشل میڈیا ایک ذریعہ ہے جس سے ہم اپنے افکار،احساسات اور جذبات کو دوسروں تک  منتقل کررہے ہوتے ہیں معاشرے میں موجود ہرفرد کسی نہ کسی طرح سے اثرگذار بھی ہے اور اثر پذیر بھی اجتماعی معاملات کو سمجھنے اور فیصلہ کی صلاحیت رکھتا ہے ، اپنی نظر کو بیان کرنے اور دوسرے کی نظر کو رد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اپنے ما فی الضمیر کو بیان کرنے کی پوری سقط رکھتا ہے لیکن کیا ہمیں اپنے احساسات،جذبات،اجتماعی معاملات میں نظر کو بغیر تعقل اورتدبر کے ہوس،تعصب اور کردار کشی کے بھینٹ چھڑنے دینا چاہے، ہم ایسا کیا کریں جس سے ہمارا مخاطب ہماری باتوں سے غافل کے بجائے قائل ہوجائے جاھل کے بجائے مائل ہوجائے اس بات کا بھی جواب قرآن کریم اس طرح سے دے رہا ہے کہ پرورگار قراں کریم میں حضرت ھارون اور حضرت موسی علیہما السلام کو فرعون سے بات کرنے کا طریقہ کار بتا رہا ہے :

 فَقُوۡلَا لَہٗ قَوۡلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوۡ یَخۡشٰی (طه: 44)
 پس تم دونوں اس سے نرم لہجے میں بات کرنا شاید وہ نصیحت مان لے یا ڈر جائے۔

قرآن کریم میں پروردگار حتی اپنے دشمن سے بھی بات کا سلیقہ و ادب سکھا رہا ہے چہ جائے کہ مومن بھائی ،اس آیت سے بطریق اولی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب ہم تبلیغ کرنا چاہتے ہیں امر بالمعروف کرنا چاہتے ہیں اپنی بات منوانا چاہتے ہیں تو (قول لین) استعمال کریں یعنی نرم لہجہ، اخلاق سے مزین لہجہ استعمال کریں تاکہ لوگ ہماری نصیحت قبول کریں۔ کسی کو نا حق طور پر مشرک اور منکر قرار دینا یہ دینی و قرآنی طریقہ کار نہیں  بغیر دلیل کے طاغوت کا اور دشمن کا آلہ کار قرار دینا یہ الھی روش نہیں اختلافات کی بنیاد پر شخصیت کشی الھی طریقہ کار نہیں اگر ہم ان تمام باتوں کا خیال نہیں رکھیں تو ہماری گفتگو معاشرے میں تعمیری کردار کے بجائے تخریبی صورت حال کو جنم دیگی جس سے مؤمنین ہی کے درمیان پھر  فساد تعصب اور حسد اور کینہ جیسی بیماریاں پروان چھڑینگی اور ایک مومن  بھائی دوسرے مومن بھائی کے ساتھ دست و گریباں ہوتا ہوا نظر آئیگا جس کا عملی مظاہرہ ہمیں نظر آرہا ہے۔
خداوند متعال سے دعا ہے کہ خداوند متعال ہمیں اپنے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھ ایک دوسرے کے ساتھ محبت و برادرانہ سلوک اختیار کرنے کی توفیق دے۔

تحریر: محمد یاسین مجلسی،قم المقدس
قم المقدس 16 ذی القعد1441 ھ۔ق

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .