۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
محمد بشیر دولتی

حوزہ/ملت  تشیع کو مٹانے کا خواب دیکھنے والے خود مٹ گٸے دبانے والے خود منوں مٹی تلے دب گئے مگر ملت تشیع آج عالمی افق پہ آفتاب کی مانند چمک رہی ہے اور اس سے کئی ماہتاب اور ستارے روشنی حاصل کر رہے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی| انقلاب اسلامی ایران نے اسے مزید روشن اور مستحکم  کر دیا ہے ۔۔لیکن دشمنوں نے اس انقلاب  کی روحانیت ، اور معنویت کو مٹانے کی بہت کوشش کی ۔ ابتدا میں اسے ایک ہفتے کا مہمان قرار دیا ۔پھر امریکہ نے آپریشن عقاب کے زریعے اسے ختم کرنا چاہا تو انکے ہیلی کاپٹر صحراۓ طبس میں تباہ ہوگٸے اور وہ اپنے 52 کے قریب اہلکاروں اور جاسوسوں کو چارسو چوالیس دن تک انقلابیوں کے ہاتھوں سے چھڑوا نہیں سکا۔ اس کے بعد تمام استعماری طاقتوں نے مل کر صدام کے زریعے آٹھ سالہ جنگ سے اس انقلاب کو مٹانے کی کوشش کی ۔ 
72  اسمبلی  ممبران اور صدر و وزیر اعظم کو پے در پے بم دھماکوں میں شہید کرکے اس عظیم انقلاب کو ختم کرنے کی کوشش کی مگر بقول امریکی صدرجمی کارٹر کے "سب کچھ ہمارے حق میں تھا مگر خدا خمینی کے ساتھ تھا"اس لیے یہ انقلاب باقی رہا۔مگر دشمن اس عظیم انقلاب کے خلاف جال بچھاتا رہا ۔سازشیں کرتا رہا۔چاروں طرف سے اس کے گرد گھیرا تنگ کرتا رہا۔۔۔یہاں تک کہ انقلاب اسلامی کو ایرانی سرحد کے اندرہی فنا یا محدود  کرنے کی تگ و دو میں شیطان بزرگ امریکہ  نیٹو اتحاد کے ساتھ ایران کے دائیں بائیں پڑوسی ملکوں میں موجود رہا لیکن اسکی خواہش کے برعکس آج اسلامی انقلاب اپنی سرحدوں سے باہر عراق سے ہوتا ہوا شام و یمن تک جاپہنچا ہے۔ اب نہ صرف سینہ تان کر اسرائیل اور سعودی عرب کی سرحدوں کے سامنے کھڑا ہے بلکہ انکے اہم اتحادی قطر اور ترکی بھی اب ایران سے قریب ہوتے ہوے دکھاٸی دے رہے ہیں اور بات اب بحرین اور ناٸیجیریا سے ہوکر بعض امریکی ریاستوں  تک پہنچ چکی ہے.
دنیا میں تشیع کی یہ کامیابی دراصل لطف الٰہی اور رہبر معظم و دیگر مجتہدین و علماء کرام کی بصیرت و مکتب تشیع کی عاقلانہ ومدبرانہ انسانیت سے لبریز عملی سیاست کانتیجہ ہے۔
اس سیاست کی کچھ جھلکیاں مختلف ممالک میں کچھ یوں ہیں۔

عراق:

دیکھا جائے تو عالم تشیع میں بعد از ایران سب سے زیادہ تنظیمیں، فقہاء اور علماء سرزمین  عراق میں ہیں۔صدام دور کے کٹھن ماحول کے بعد  ان علماء ،فقہاء اور تنظیموں نے انتہائی مدبرانہ انداز میں یوں سیاست اور جمہوری نظام میں حصہ لیا کہ آج استعمار کے نہ چاہنے کے باوجود عراق کی باگ دوڑ شیعیان علی ابن ابی طالب ع کے ہاتھوں میں ہے 
فقہاء و تنظیموں کی کثرت کے باوجود سیاسی نظام میں بھرپور شرکت کی ،کسی بھی گروہ یا فرد  نے جمہوری نظام میں شرکت کو حرام قرار دیا نہ بائیکاٹ کا حکم دیا البتہ ”محمود سرخی“ نے سب سے زیادہ قومی سیٹ جیتنے والے مقتدای صدر اور نوری مالکی کو واجب القتل قرار دیا بعد میں بصرہ و نجف میں شیعہ مقدسات اور مجتھدین اربعہ کے خلاف ان کی  ناکام بغاوت  ، بدتمیزی اور ہنگامہ آراٸی نے اس گروہ کے  مکروہ چہرے کو عیاں کردیا۔ فقہا ٕ کرام کی سرپرستی میں ملکی سیاست و انتخابات میں منظّم شرکت کے نتیجے میں داعش جیسا خونخوار استعماری و یزیدی لشکر  کو نہ صرف نابود کیا بلکہ یہ کارنامہ انجام دینے والے ”حشدشعبی“ کو ”پارلیمنٹ“ سے بھاری اکثریت کے ساتھ قومی فورس میں تبدیل کر دیا۔

لبنان:

ملک  لبنان وہ سرزمین ہے جس میں مٹھی بھر شیعہ  نو آبادیات  کے دور میں فرانس کے وضع کردہ قوانین کے دائرے میں رہتے ہوے الیکشن میں حصہ لیتا رہا اور آج ایک دفاعی و سیاسی قوت بن کر دنیا کے سامنے کھڑا ہے جو تنہا دنیا کی سپر طاقتوں امریکہ اسرائیل و چوالیس ملکی سعودی اتحاد پر بھاری ہے۔ حزب اللہ کا اس مقام تک پہنچنا  کئی عشروں کی محنت و مسلسل سیاسی و عملی جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔دیکھاجائے تو اس حزب اللہ کی داغ بیل حکومت نظام ولایت فقیه سے قبل پڑی تھی اور آج اسی نظام ولایت فقیه سے مربوط رہتے ہوے لبنان کے اندر عیسائیوں، دورزیوں جوکہ سکیولر ہیں ان کے ساتھ اپنی شناخت کے ساتھ اتحاد کرکے جمہوری نظام میں رہتے ہوے الیکشن میں باقاعدہ حصہ لیتی ہے اور آج ایک ناقابل شکست عسکری طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ طاغوت  کو لرزا دینے والی ایک عظیم سیاسی طاقت بھی ہے۔  آیت اللہ حسین فضل اللہ جیسے جیّد اور دیگر عظیم فقہا ٕ نے بھی کبھی اس عمل کی مخالفت کی نہ خود ولی امرمسلمین جہاں نے انہیں ایک سیکیولر ملک کی سیاست میں حصہ لینے سے منع کیا۔جبکہ فرانس کے وضع کردہ قانون کے مطابق شیعہ جتنی قوت میں بھی آئیں فقط اسپیکر شپ ملنا ہے اس سے بڑا عہدہ نہیں ملنا۔اور نہ ہی حزب اللہ کا نظریہ و طرز زندگی شمالی لبنان سے باہر کے مسلمانوں دورزیوں اور عیسائیوں پہ نافذ ہوگا۔

شام:

ملک شام میں بشار الاسد ایک سکیولر بندہ ہونے کے با وجود رہبر معظم نے انکی حمایت و مدد کو ضروری قرار دیا چونکہ بدترین  قوت کو روکنا اور مقدسات کو بچانا مقصود تھا لہذا پوری طاقت کے ساتھ حزب اللہ اور پاسداران شام میں داخل ہوئے۔
الحمدلله آج مشرق وسطی میں شہدا نے اپنے مقدس خون سے استعماری سازشوں کو بےنقاب کرنے کے ساتھ  نابود بھی کیا جا چکا ہے.

فلسطین:

اسی طرح شیعہ نہ ہونے کے باوجود جمہوری طریقے سے الیکشن لڑکر آنے والی فلسطینی حکومت کی حمایت اور ان سے تعاون کو رہبر معظم نماز کی مانند ضروری سمجھتے ہیں۔ایران واحد ملک ہے جو فلسطین کے ساتھ ہرقسم کا تعاون کر رہا ہے۔

بحرین:

ملک بحرین میں اہل تشیع کے قائد آیت اللہ شیخ قاسم کی سرپرستی میں بحرین کے شیعہ  ستر فیصد شیعہ آبادی ہونے کے باوجود وہاں بنیادی انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے بنیادی چارٹر کے عین مطابق اپنی سیاسی جدو جہد کو زندانوں ، داروں اور گولیوں سے ہوکر عوام کی دلوں ، جزبوں ، فکروں،حوصلوں اور خوابوں تک پہنچا دیا ہے۔ اگر چہ اقوام متحدہ آنکھیں بند کر کے بحرینی حکومت اور سعودی افواج کے ظلم و بربریت پہ خاموش تماشہ دیکھ رہا ہے۔ بحرین کے انقلابی  عوام  بنیادی انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں اور یہی انکا منشور ہے۔

ناٸیجیریا:

نائجیریا میں حقیقی فرزند انقلاب ابراھیم زکزکی نے بغیر کسی نعرے کے لاکھوں لوگوں کو شیعہ کیا اور آج انکی محنت و کوششوں کی وجہ سے نائیجیریا شیعہ اکثریتی ملک سمجھا جاتا ہے وہ بھی مومنین کیلیے آزاد دینی ، سیاسی و انسانی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں آج اسی جرم میں اپنے چاربیٹوں کی قربانی دینے کے بعد اپنی زوجہ کے ساتھ پابند سلاسل ہوکر ”شھید بھی ہم اسیر بھی ہم“ کی عملی تصویر بنے ہوے ہیں۔

یمن:

یمن میں تین فیصد شیعہ  زیدی فرقے کے ساتھ مل کر سیاسی نظام میں نہ صرف شریک اور اتحادی ہے بلکہ انصار اللہ کے قیام میں بھی  ساتھ ساتھ ہیں جو یمن کو آل سعود کے اتحادیوں اور غلاموں سے مکمل آزاد کرکے حقیقی اسلامی جمہوری نظام کو رائج کرنا چاہتے ہیں۔
ان تمام حقائق سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پوری دنیا میں تشیع اپنے دینی اقدار و عقائد کی حفاظت کے ساتھ حکم اوّلی کی عدم موجودگی میں حکم ثانوی کے مطابق اپنے فراٸض پر عمل پیرا ہوتے ہوے سیاست کے میدان میں بھی قوت بن کر ابھر رہا ہے۔
ملکی آئین میں رہ کر اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں اور کامیابیوں کی طرف رواں دواں ہیں۔
اسکے برعکس پاکستان میں الٹا روبہ زوال ہے مگر کیوں؟
ہم ایران سے زمینی طور پہ قریب ہونے کے باوجود سیاسی اور فکری میدان میں بہت دور کیوں ہیں؟  ان باتوں کے حقائق تک پہنچنے کے لیے ہمیں ماضی بعید سے حال کی طرف آنا ہوگا تاکہ کچھ بنیادی وجوہات کھل کر سامنے آسکیں۔


تحریر: محمد بشیر دولتی حوزہ علمیہ قم 

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .