۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 388161
10 فروری 2023 - 13:05
مولانا سکندر علی ناصری

حوزہ/ جب یہ انقلاب کامیابی سے ہم کنار ہوا تو اسلام مخالف قوتوں کو شدت سے احساس ہونے لگا کہ اگر اس کو آزاد چھوڑ دیا تو یہ حکومت مستقبل میں تمام استکباری قوتوں کے لیے خطرہ ثابت ہوگی اور دنیا پر ان کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی، ان کے تسلط کا خاتمہ ہوگا اس لیے ان دشمن طاقتوں نے ملکر انقلاب اسلامی کو شروع سے ختم کرنے کے لیے اس کے خلاف مذموم سازشیں تیار کیں۔

تحریر: مولانا سکندر علی ناصری

حوزہ نیوز ایجنسی | سید روح اللہ خمینی موسوی(ر) اپنے صدی کے بہت ہی لائق، فائق، با صلاحیت، زمان شناس، سیاستدان ،فلاسفر،عارف کامل تخلیقی، تبینی ،تفسیری، تحقیقی اور تطبیقی میدان میں غیر معمولی شخصیت کے حامل ایک ممتاز فقیہ، جامع الشرائط مجتھد، بلندافکار کے مالک اور صاحب تدبر و تفکر انسان تھے جس دور میں لوگ دین اور سیاست کو ایک دوسرے سے جدا سمجھتے تھے ایک دوسرے کے لیے مضر اور،متضاد سمجھتے تھے اپر سے دین پر ستم ظریفی یہ بھی تھی کہ دین اسلام کو انسان کی ترقی اور پیش رفت کے لیے افیون قرار دیتے تھے ایسے کم علم اور کم ظرف دور میں انہوں نے دین اسلام کو عین سیاست کے طور پر پوری دنیا میں معرفی کیا اور اسلامی حکومت کے مبانی اور نظریے کو اسلام کے آیین کے اساس اور بنیاد پر آیات قرآنی اور احادیث نبوی کی روشنی میں نہ صرف بیان کیا بلکہ جمھوری اسلامی ایران کے نام پر ایک طویل جد و جہد، استکباری اور دنیا کی ظالم قوتوں کے خلاف مبارزہ کرنے کے بعد عملی طور پر ایک حکومت اسلامی کی تاسیس بھی کی جب یہ انقلاب کامیابی سے ہم کنار ہوا تو اسلام مخالف قوتوں کو شدت سے احساس ہونے لگا کہ اگر اس کو آزاد چھوڑ دیا تو یہ حکومت مستقبل میں تمام استکباری قوتوں کے لیے خطرہ ثابت ہوگی اور دنیا پر ان کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی، ان کے تسلط کا خاتمہ ہوگا اس لیے ان دشمن طاقتوں نے ملکر انقلاب اسلامی کو شروع سے ختم کرنے کے لیے اس کے خلاف مذموم سازشیں تیار کیں جس کا پہلا ثبوت ایران عراق جنگ ہے استعماری طاقتوں نے انقلاب کو مٹانے کی خاطر صدام سے ایران پر حملہ کروایا یہ جنگ تقریبا آٹھ سال جاری رہی جو ایک جہت سے زیان بار تھی لیکن اس جنگ سے حاصل ہونے والے فوائد کی نسبت میں اس کے نقصانات نہ ہونے کے برابر ہیں ٹھیک ہے ایران نے مالی ،مادی نقصانات اٹھائے ہیں اور سب سے ذیادہ تین لاکھ کے لگ بگ قیمتی جانوں کا نزرانہ پیش کیا اب تک بہت سے جوان لاپتہ ہیں بہت سے سپاہیوں کا کچھ اتہ پتہ نہیں اور چھوالیس سال گزرنے کے باوجود شھداء کی لاشوں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری ہے یہ جنگ بھی صرف ایک دو عالمی طاقتوں کی پشت پناہی اور حمایت سے نہیں بلکہ اس جنگ کی ایک طرف دنیا کی ساری بڑی طاقتوں کے علاوہ آسی ممالک اکھٹے تھے جب کہ دوسری طرف بےسرو سامانی میں ایران اکیلا تھا اس وقت کی حالات ہی کچھ اس طرح تھیں کہ اگر کوئی ایران کے ساتھ تعاون کرنا بھی چاہتا تو بھی ایسے کرنے سے عاجز تھا۔

وہ حالات کم و پیش اس وقت بھی ہیں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اج بھی انہی کی بات چلتی ہے آج بھی وہی اقا بنے ہوے ہیں اس وقت بھی ایران سخت ترین اقتصادی سیاسی اور انسانی محاصرے میں ہے ان 44 سالوں میں ہر ممکن پابندی ایران پر لگا چکی ہے ہر قسم کی تحریم کا ایران کو سامنے ہے ان تمام سختیون اور مشکلات میں ایرانی قوم کی ثابت قدمی اور ترقی کے عوامل اللہ تعالی پر توکل کرنے کے ساتھ شھداء کی قربانی ، ملت کی بیداری اور قیادت اسلامی ہیں اور امام خمینی (ر) کی سب سے بڑی خوبی اللہ تعالی پر توکل تھا اسی بناء پر ایک صحافی نے جب ان سے پوچھا کہ آپ عمر رسیدہ ہو چکے ہیں اس عمر میں انقلاب لاکر کیا کرو گے تو اس کے جواب میں کہا کہ میں اس کو اپنا وظیفہ سمجھ کر انجام دیتاہوں اس صفت کو ایرانی قوم نے اسلام کی تعلیمات سے حاصل کرنے کے ساتھ سید روح اللہ خمینی(ر) کی ذات میں جلوہ افروز دیکھی اور اس پر انہیں یقین ہو گیا آج اگر دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتاہے تو اس بے مثال خوبی کی بناء پر ہے۔ان چار دہایوں میں پوری دنیا نے ہر ممکن تلاش کی کہ جمھوری اسلامی ایران کو گھٹنے تیکنے پر مجبور کیا جائے لیکن ایران نے ان تمام طاقتوں کے ساتھ دلیری ، عقلمندی اور درست پالیسی سے مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں کمر ٹور پابندی انسانیت دشمن تحریم کے باوجود ایران نے دینی، مادی، ٹیکنالوجی تعلیمی سماجی اور سیاسی اعتبار سے پوری دنیا میں اس وقت اپنا ایک مقام بنانے میں کامیاب ہوا آج دنیا کی سپر طاقتیں کوئی غلطی کرنا بھی چاہیں تو سو مرتبہ اس کے متعلق سوچنا پرتا ہے اصفہان میں وزارت دفاع پر ہونے والے حالیہ حملے منظم انداز میں ہوے ہیں اور اسکے بیک گرونڈ میں کون ملوث ہے اور کس کی ایماء پر یہ ہوا اور کس علاقہ سے یہ ڈرون جہاز اڑا خاص کر اصفہان نصف جہان کو کیوں نشانہ بنایا؟ یہ سب کچھ ایران کو معلوم ہے لیکن اس واقعہ میں ملوث عناصر کو کھل کر اعتراف کرنے کی جرئت نہیں ہے صوبہ اصفہان کو نشانہ بنایا ہے اس لیے کہ اس کاشمار ملک کے مرکزی صوبوں میں ہوتا ہے اس کے علاوہ بھی یہاں ایران اور روس باہمی تعاون سے ڈرونز اور سپر سونگ میزائل بنانے کی فیکٹریاں موجود ہیں یہی وجہ تھی جب دسمبر اور جنوری میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران تقریبا 12 افراد کو گم نام امام زمان فورس نے خفیہ ٹھکانوں پر چھاپہ مارکر حراست میں لیا گرفتار افراد کے اعتراف کے مطابق انہوں نے اپنے کو موساد کا ایک ونگ ہونے کا اعتراف کیا اور وزارت دفاع کے محکمہ پر منظم انداز میں حملہ کرنے کی تیاری میں ہونے کا اعتراف بھی کیا۔ اطلاعات پر سپاہ نے چھاپا مارا اور ان کو گرفتار کیا ۔ دوسرا اس صوبے کا انتخاب سوچ سمجھ کر اس لیے کیا ہے کہ یہاں جوہری تنصیبات خاص طور پر" نازنز" ری ایکٹر کا کام ہونے کی اطلاعات ہیں اور اسرائیلی اطلاعات کے مطابق اس فیکٹری میں ایران نے چار ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کی ہے گذاشتہ مہینوں میں ہونے والے مظاھروں کے دوران اور یوم دفاع پر ساتھ ہی اسرائلی امریکی باہمی جنگی مشقوں کے جواب میں ایران نے مختلف جدید اسلحوں کی نمائش کی اس میں سے جدید اور پیش رفتہ تریں خطرناک اسلحہ،جس کی نمائش پر اسرائیل اور امریکہ غصب ناک ہوے ،وہ سپر سونگ مزائل کا کامیاب تجربہ تھا ایران اس کا تجربہ کرنے کے موقع کی تلاش میں تھا اور اگر آپ دیکھیں تو پتہ چل جائےگا کہ مظاھرے ان دنوں میں بہت شدت کے ساتھ عروج پر تھے ایران نے اس کا کامیاب تجربہ کر کے دشمن عناصر کو یہ پیغام دیا کہ کچھ کرایہ دار جمع کرنے سے جمھوری اسلامی ایران کا کچھ نہیں بگرتا ہے۔ یہ تجربہ خود ایران کے بیدار عوام کے دلوں کو حکومت کی جانب مزید جذب کرنے کا سبب بنا اور جو طاقتیں منطقے میں جنگی مشقیں کر رہی تھیں انہیں بھی بتایا کہ ایران کے پاس پیش رفتہ ترین اسلحے موجود ہیں جن کے زریعے دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا سکتے ہیں اس مزائل کی بہت سے خصوصیات ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ خود اس کی رفتار کی سرعت اس کی آواز کی رفتار سے نو گنا تیز ہے اس کی یہی خوبی دشمن کے لیے خطرہ کی گھنٹی ہے لہذا اسرائیلی دفاعی نظام اس کو نشانہ بنانے سے عاجز ہے اور اس کا خود اسرائیلی ماہرین نے بھی اعتراف کیا ہے اسی بناء پر اسرائیل کا اس اسلحے کے خلاف منصوبہ یہ ہے کہ یہ اسلحہ جہاں بن رہا ہے اس فیکٹری کو ہی نشانہ بنایا جائے تا کہ تولیدی مراحل سے باہر نہ آسکے یہ حملہ اسرائیل کی جانب سے انجام ہوا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ نتن یاھو نےحامی جذب کرنے کے لیے یہ حملہ کروایا ہو بہر حال حملہ تو ہوا ہے اس کا ایران کی جانب سے رد عمل کیسا ہوگا؟ لیکن حملہ کرنے کے بعد یہ ممالک اندر سے خوف و ھراس کا شکار ہیں اس لیے اس حملے کے فورا بعد امریکی قومی سلامتی کے مشیر جنرل جیک سلیوان ، سی آئی اے کے سر براہ ولیم برنز اور انتھونی بلنکن ، سیکریٹری آف اسٹیٹ نے خفیہ طور پر اسرائیل کا دورہ کیا ہے اس دورہ کا مقصد بھی یہی ہے کہ ایران کا جوابی حملے کو ناکام بنانے کے لیے منصوبہ بنانا ہے اور مرکزی صوبہ پر حملے کا جواب دیتے ہوے سپاہ پاسدران کے کمانڈر ان چیف جنرل سلامی نے کہا کہ ہم دشمن کے گھر میں گھس کر مار سکتے ہیں درحقیقت ایران کے سامنے جوابی حملہ کے لیے کئی آپشنز ہیں ایک آپشن ایران کا براہ راست اسرائیل پر حملہ ہے اس آپشن کا دس در صد بھی احتمال نہیں چونکہ علاقے کے سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگار حضرات اس احتمال کو رد کرتے ہیں اور جہان تک ممکن ہو سکے علاقے کے اثر رسوخ دونوں کو اس نوبت تک پہنچنے نہیں دینگے اس کا ثبوت یہ ہے کہ کچھ ایام پہلے قطر کے وزیر اعظم اور اس کے سابق وزیر خارجہ شیخ حماد بن جاسم کی وہ تحریر ہے جس میں اس نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایران کے خلاف "ممکنہ اسرائیلی -امریکی فوجی کاروائی "کی وارننگ دی کہ یہ ممکنہ حملہ خلیجی ممالک کی سلامتی اور استحکام کو متزلزل کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں "خطرناک معاشی، سیاسی اور سماجی برے نتائج بر آمد ہوں گے " خصوصا قطر کو دوسرے خلیجی ممالک کی نسبت میں ذیادہ خطرہ لاحق ہے کیونکہ وہاں پر سب سے بڑا امریکی فوجی آڈہ ہے اگر جنگ چھڑگئی تو اس پر حملہ ہونا بھی یقینی ہے اور اس جنگ کے سب سے ذیادہ نقصانات خلیجی ممالک کو پہنچیں گے اسی کے تناظر میں اس نے ان اہم نکات کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا" ان کی ایران سے جنگ منطقہ کے مفاد میں بلکل نہیں" اور ایران براہ راست اسرئیل پر حملہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ یہ خطہ میں ایک جنگ کا باعث بنتا ہے جس کا خود ایران مخالف ہے۔

لیکن ایران جواب دئے بغیر نہیں بیٹھےگا وہ اپنے علاقے میں مزاحمتی اور مقاومتی تحریکوں کے ذریعے منہ ٹور جواب ضرور دیگا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .