۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
ڈاکٹر فرمان علی سعیدی شگری 

حوزہ/ انقلاب کے عالمی اثرات کو ایران کی جیوپولیٹک اور جیو اسٹراٹیجک حیثیت نے اور زیادہ شدت بخشی۔  یہ انقلاب لیبرلزم اور سوشلزم کے مقابلے میں، تیسری دنیا کے مستعضف  اور پسے ہوے عوام لیے ایک رول ماڈل اورآرمان میں بدل ہو گیا۔ جس کے  نتیجہ میں عالمی سیاست میں  اسلامی انقلاب ایک  تیسری نئی قوت اور نظریہ کی صورت میں ابھر کے سامنے آیا ۔

تحریر: ڈاکٹر فرمان علی سعیدی شگری

حوزہ نیوز ایجنسی | بیسویں عیسوی صدی کے آخر میں اسلامی انقلاب ایران کا وقوع پذیر ہونا، بہت ہی اہمیت کا حامل ہے ،جسکی مختلف زاویوں سے دقت کے ساتھ مطالعہ کی ضرورت تو پہلے سے ہی تھی۔ بعض مکانی اور زمانی خصوصیات اور خطے میں اسکے بڑھتے ہوے اثرات کی وجہ سے اسکی اہمیت اب اور بھی بڑھ گئی ہے، ایران اس وقت عالمی تجزیہ نگاروں اور سیاست دانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے ۔

ایران کا اسلامی انقلاب ایسے وقت میں کامیاب ہوا جب دنیا بھر میں دین کا سماجی اور سیاسی چہرا عالمی منظر سے ناپید ہوتا جارہا تھا اور اسلامی حکومت کا تصور ایک قصہ پارینہ ہوچکا تھا-اگرچہ آج جبکہ انقلاب کو برٍپا ہوۓ 40 برس ہوچکے ہیں اور سامراجی طاقتوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود نہ صرف خطے کی سب سے مضبوط فوجی اور سیاسی لحاظ سے بانفوذ قدرت بن چکا ہے، جسکو معروف برطانوی تجزیہ نگار رابرٹ فکس اسطرح تحلیل کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں" ایران کے ہاتھوں عراق اور شام میں داعش کی شکست کے بعد مشرق وسطی میں امریکہ کی خارجہ پالیسی عملا ناکام ہوچکی ہے" ،مغربی استعماری طاقتوں سے مرعوب کچھ اہل قلم کیلیے اب بھی اسلامی سیاسی نظریہ کانفاذ غیر ممکن نظر آتے ہے۔

انقلاب ایران ایسے وقت میں کامیاب ہوا جب شاہ کی حکومت کو امریکہ اور مغربی طاقتوں کی پھر پور حمایت حاصل تھی۔ ایران اور اسکے ہمسایہ ممالک انرجی کے مرکز تھے، یہ علاقہ عالمی اقتصاد کے لئے ریڑہ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔ جس کا کنٹرول امریکہ کے ہاتھ سے نکل کر انقلابی قیادت کے ہاتھ میں آگیا تھا۔ جن کی اولین ترجیحات استکباری نظام اور استعماری سیاست کا خاتمہ اور اسلامی قوانین کا نفاذ تھا، یہ وہ مقاصد تھے جن کیلیے اسلامی تنظیمیں اور خطے کے مسلمان اپنے اپنے طور پر گذشتہ ایک صدی سے کوشش کررہے تھے ۔

اس لیے انقلاب نے اسلامی دنیا کے مسلمانوں کے دل میں اپنے ممالک میں بھی اسلامی حکومت کے قیام کی آرزو اور اسکے لیے کوششں کرنے والوں میں امید کی تازہ روح پھونک دی۔ البتہ دوسری طرف سے ایران خطے کی استبدادی اور شہنشاہی حکومتوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے جو ایک طبیعی عکس العمل تھا کیوں کہ عرب حکمران بخوبی آگاہ تھے کے یہ انقلاب ایران تک محدود نہیں رہے گا،عنقریب انکی عوام بھی آزادی اور اسلامی حکومت کا مطالبہ کرینگے ۔ دوسری طرف سے ایک ایسی آزاد اسلامی حکومت کا قیام، جس کا نعرہ نہ شرقی و نہ غربی تھا ،مغربی دنیا سے بھی اس کے تعلقات پر اثر پڑا کیونکہ اس انقلاب سے یورپی خاص کر امریکی معاشی اور سیاسی منصوبوں کو شدید دھچکا لگا اور ان کے مفادات خطرے میں پڑ گئے۔ اس لیے انقلاب کے فورا بعد صدام حسین نے ایران عراق سے امن معاہدہ کی یک سر خلاف ورزی کرتے ہوے،امریکہ،یورٍپ اور خطے کی بعض حکومتوں کی مالی،تسلیحاتی اور فوجی مدد کے ساتھ ایران پر حملہ کیا گیا،اور یورپی حکومتوں کی طرف سے فراہم کردہ کیمیکل ہتیاروں سے بے گناہ شہریوں پر حملے کر کے ہزاروں بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا گیا۔ اور ان ہی انسانی حقوق اور جمہوریت کے دعوے دار طاقتوں نے اپنی نا حق ویٹو پاور کو استعمال کرکے ہوۓ صدام جیسے ڈکٹیٹر کے خلاف پیش ہونے والی کسی بھی مزمتی قرارداد کو کامیاب نہ ہونے دیا۔

انقلاب کے عالمی اثرات کو ایران کی جیوپولیٹک اور جیو اسٹراٹیجک حیثیت نے اور زیادہ شدت بخشی۔ یہ انقلاب لیبرلزم اور سوشلزم کے مقابلے میں، تیسری دنیا کے مستعضف اور پسے ہوے عوام لیے ایک رول ماڈل اورآرمان میں بدل ہو گیا۔ جس کے نتیجہ میں عالمی سیاست میں اسلامی انقلاب ایک تیسری نئی قوت اور نظریہ کی صورت میں ابھر کے سامنے آیا ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .