اتوار 29 جون 2025 - 13:27
امریکہ اور مغرب کی دوغلی پالیسیاں: مفادات کے نام پر انصاف کا خون

حوزہ/ مغربی ممالک خصوصاً امریکہ کی خارجہ پالیسیوں میں دوغلا پن واضح طور پر نظر آتا ہے، جو انسانی حقوق، بین الاقوامی قانون، اقتصادی مفادات، ایٹمی توانائی اور دہشت گردی جیسے اہم عالمی مسائل میں کھلے تضاد کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ قومی مفادات کی خاطر اصولی مؤقف کو پس پشت ڈالنا نہ صرف عالمی امن کے لیے خطرہ ہے بلکہ امریکہ کی اخلاقی حیثیت کو بھی مجروح کرتا ہے۔

تحریر: ڈاکٹر سید عباس مہدی حسنی

حوزہ نیوز ایجنسی| مغربی ممالک خصوصاً امریکہ کی خارجہ پالیسیوں میں اکثر دوغلا پن (Double Standards) نظر آتا ہے، جو بین الاقوامی تعلقات میں تنقید کا باعث بنتا ہے۔ اس کے بعض نمونے درج ذیل ہیں:

1- جمہوریت اور انسانی حقوق:

امریکہ اور اسکے ہمنوا ممالک جیسے برٹش؛جرمنی اور فرانس وغیرہ سعودی عرب، بحرین ۔۔جیسے عرب ملک جہاں بادشاہت اور ڈکٹیٹر شپ کی حکمرانی ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی ہوتی رہتی ہیں اسکے باوجود خاموش رہتے ہیں چونکہ انکے مفادات اسی میں ہیں، اسکے بر خلاف ایران پر سخت تنقید کرتے رہتے ہیں جبکہ وہاں ڈیموکریسی بھی ہے اور حتی الامکان انسانی حقوق کا بھی پاس و لحاظ رکھا جاتا ہے۔

۲- بین الاقوامی قانون:

2003 میں عراق پر حملہ اور ایران پر حالیہ حملہ بین الاقوامی قانون کی رعایت کئے بغیر کیا گیا افسوس کا مقام ہے کہ اسرائیل اور امریکہ جیسے انسان دشمن ملک بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور اقوامِ متحدہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

۳- اقتصادی پالیسیاں:

امریکہ "آزاد منڈی" کا علمبردار ہے، لیکن زرعی سبسڈیز جیسے اقدامات سے ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ معاشی تحفظ پسندی (Protectionism) کو قومی مفاد کے تحت جائز قرار دیا دیتا ہے۔

۴- جنگیں اور تنازعات:

غاصب اسرائیل کی ظلم وبربریت کے باوجود ہر قسم کی حمایت کی جاتی ہے اور اپنے اتحادیوں کو تحفظ دینے کے لئے تمام بین الاقوامی اصولوں کو پامال کردیا جاتا ہے۔

فلسطین میں ہزاروں بے گناہ انسانوں کا قتل عام کردیا جاتا ہے جس میں زیادہ تر بچے اور عورتیں تھے۔

۵- معاشی مفادات:

اپنی معیشت کے لئے امریکہ اور بعض دیگر مغربی ممالک کسی بھی حد سے گذر سکتے ہیں جسکی ایک مثال عراق پر ایٹم بم بنانے کا الزام لگا کر حملہ کرنا اور پھر تیل لوٹ لوٹ کر لے جاناہے۔

ہتھیاروں کی فروخت کے لئے جنگیں تک کرائی جاتی ہیں اور اس طرح اپنے اقتصاد کو مضبوط کیا جاتا ہے۔

۶- ایٹمی پاور: ایٹمی پاور رکھنا ہر ملک کا ذاتی:

حق ہے پھر بھی اس سلسلہ میں دوغلی سیاست سے کام لیا جاتا ہے ایران جس کا ایٹمی پلان پر امن ہے اور اس نے npt پر دستخط بھی کر رکھے ہیں-باربار اقوام متحدہ کے انسپیکٹر جانچ کرکے اسے پر امن بتا چکے ہیں پھر بھی ایران پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ایٹم بم بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور امن عالم کے لئے خطرہ ہے جبکہ ایران کے سپریم لیڈر یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ایٹم بم بنانا اسلام کے خلاف اور حرام ہے اسکے باوجود ایران کےخلاف شازشیں رچی جاتی ہیں جبکہ بین الاقوامی دھشتگرد اسرائیل کے پاس ایٹم بم موجود ہے اور اسنے اپنی دھشتگردانہ حرکتوں سے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ امن عالم کے لئے خطرہ ہے لیکن چونکہ اسے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہے تو اس کے خلاف حتی اقوام متحدہ بھی سکوت اختیار کئے رہتی ہے۔

۷- دہشت گرد اور دهشت گردی:مغربی ممالک:

خصوصاً امریکہ نے دهگشت گرد اور دهشت گردی کی اپنے مفادات کے حساب سے تعریف کر رکھی ہے یہ لوگ خود ہی دہشت گردوں کو ٹرینینگ دیتے ہے ان سے جرائم کراتے ہیں اور جب چاہتے ہیں جسے دہشتگردوں کی صف میں شامل کر لیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں صف سے نکال دیتے ہیں-جیسے سیریا کا حاکم جو کہ امریکہ کے مجرموں کی لسٹ میں تھا جس کے پکڑنے کے لئے اس نے انعام رکھا ہوا تھا بعد میں اسے دھشتگردوں کی صف سے نکال دیا اور اب وہ شام کا خودساختہ صدر بنا ہوا ہے۔

ماحصل:

امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں اپنے قومی مفادات، سلامتی اور معاشی غلبے کے لیے اصولی موقف کو ثانوی حیثیت دیتی ہیں۔ یہ دوغلے پن کا احساس بین الاقوامی سطح پر امریکی اخلاقی اختیار (Moral Authority) کو مجروح کرتا ہے، جس کا اعتراف خود مغربی دانشور اور تجزیہ نگار بھی کرتے رہتے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں یکساں اصولوں کا نفاذ ہی مستقل امن کی ضمانت ہے اور اگر جانبدارانہ رویہ اختیار کیا جاتا رہا اور ہمیشہ دوغلی پالیسی سے کام لیا گیا تو حالات کے بد سے بدتر ہونے کا زیادہ اندیشہ پایا جاتا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha