۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
یوکرین کی جنگ

حوزہ/ روس اور امریکہ دونوں کی سیاسی رسہ کشی اور حکمرانوں کی اخلاق سے پرے مفادات پرستی کی بڑھتی ہوئی حالیہ سیاست نے اب یوکرین کو میدان جنگ میں تبدیل کر دیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان میں معروف مبلغ و خطیب حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید مشاہد عالم رضوی جنکا شمار انقلابی، فعال اور متحرک علمائے کرام میں ہوتا ہے۔آپ ملکی و بین الاقوامی حالات پر بھی اچھی نظر رکھتے ہیں۔ مولانا موصوف نے یوکرین پر روسی حملہ کے تعلق سے حوزہ نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کہا کہ روس اور امریکہ دونوں کی سیاسی رسہ کشی اور حکمرانوں کی اخلاق سے پرے مفادات پرستی کی بڑھتی ہوئی حالیہ سیاست نے اب یوکرین کو میدان جنگ میں تبدیل کر دیا ہے۔

امریکہ اور مغربی ممالک ناقابل اعتماد ہیں

آپ یوکرین پر روسی حملہ کے بعد برابر اس ملک کی بڑھتی پریشانیوں کو میڈیا میں دیکھ رہے ہیں عام لوگ آوارہ ہیں جای پناہ کی تلاش میں سرحدوں کی طرف بھاگ رہے ہیں گولہ بارود اور دھماکے کی آوازیں ہیں عورتیں بچے بوڑھے جوان ڈرے سہمے بنکروں میں دبکے جارہے ہیں اور یورپ وامریکہ سے امداد کی اپیل کررہے ہیں عالمی برادری سے رو رو کرروس کی جارحیت کی شکایت کر رہے ہیں مدد مانگ رہے ہیں اورحد ہے یوکرین کے صدر جو کل تک امریکہ اور یورپی ممالک پر اعتماد کرتے تھے آج اس بحران میں ان سے مدد طلب کررہے ہیں مگر دنیا نے دیکھ لیا کہ صدرِ یوکرین کو مایوسی کے سوا ان مغربی ملکوں سے کچھ نہیں ملا یہ وہی امریکہ اور ان کے اتحادی ہیں جو کل تک یوکرین صدر کے ساتھ کھڑے تھے اور وقت مصیبت لاپتہ ہیں۔ یہ متمدن دنیا کی انسان دوستی کی ایک اور مثال ہے۔

سیاست سے اخلاق کی جلا وطنی

بحث اس سے نہیں کہ یوکرین صدر کی پالیسیوں کی ناکامی سبب جنگ ہے یا روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی تاناشاہی اور یاپھر امریکی مفادات جسے امریکی سیاست بازغیرملکوں میں بحران پیدا کرکے حاصل کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں اور عرصہ دراز سے مختلف ملکوں میں اسے آزماتے آئیں ہیں ؟

لائق توجہ یہ ہے کہ اس جنگ نے مغربی ملکوں کی انسانی حقوق کی قلعی پھر کھول دی ہے اور اب صاف کردیا ہے کہ امریکہ ہویا یورپی ممالک کسی پر بھروسہ کرنا اپنے سابقہ تجربات سے آنکھیں بند کرنا ہے عراق شام افغانستان یا پھر یمن امریکہ ان تمام ممالک میں جگہ جگہ تباہ وبرباد کرنے والوں میں پیش پیش رہا ہے اورکہیں نیابتی جنگ کرنے والوں کا پشت پناہ ہے بلکہ یہی تمام تخریبی عناصر کا آقا اور دادا نظر آئیگا۔

دور حاضر کی پڑھی لکھی نسل نو بلکہ کوئی عقلمند انسان کسی بھی طرح کسی بھی جگہ جنگ کی حمایت نہیں کرسکتا جنگ ہو یا کوئی بھی بحران ہو اور یہ ملکی سیاست دانوں کی وجہ سے ہو یا عالمی برادری کی جانب سے اسے کون پسند کرسکتا ہے؟لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی دنیا پھر جنگ وتشدد کے دہانے پر کھڑی ہے۔

جنگ سے بال بال بچ جانے والے

جبکہ ان تمام حالیہ منظر نامہ میں کچھ چالاک ممالک دوسروں کے یہاں آگ لگا کر خود بال بال بچ جاتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے لوگ جو ملکی ترقی کی ابھی صحیح تصویر تک نہیں سوچ سکے ہیں اس میں الجھ جاتے یا الجھا دے جاتے ہیں اور آخر کار ترقی کے دھارے سے باہر ہوجاتے ہیں تعریف کی بات تو یہ ہے کہ اس پر خوب خوب پردہ بھی ڈالا جاتا ہے یہ بجکر نکل جانے والے آگ بڑھ کانے والے کہیں امریکہ اور اسکے چٹے بٹے تو نہیں جسے میڈیا میں کھل کر نہیں بتایا جاتا اور پوری دنیا کو گمراہ کردیا جاتا ہے؟
حالیہ بگڑتے ہوئے حالات نے دنیا والوں پر ثابت کردیا ہے کہ مفاد پرستانہ سیاست اھل عالم کے حق میں نہیں ہے جبتکہ انسانی حقوق کی عملی رعایت اور سیاست میں اخلاقی قدروں کو تسلیم نہ کیا جائے سیاست سے اخلاقی قدروں کو خارج کردینا عالمی بحران کا ایک اوراہم سبب ہے جس کی طرف کوئی نہیں آنا چاہتا

نیٹو کا کارنامہ

۔اور دنیا جانتی ہے کہ نیٹو نے جہاں کہیں بھی قدم رکھا ہےوہاں فسادات وخرابکاری کے علاوہ کوئی اور تحفہ نہیں دیا ہے اور وہاں کےمقامی لوگوں کو ذلت آمیز زندگی میں ڈھکیلا ہے جسکی تازہ ترین مثال افغانستان بھی ہے
دہراکردار

یوکرین کی صورتحال بری ہے دنیا میں اس کاغلغلہ ہے اظہار ہمدردی بھی ہورہی ہےجبکہ آٹھ سال سے یمن کے نہتے غریب وفقیر عوام امریکہ کی پشت پناہی میں محمد بن سلمان اور بعض عرب شیوخ کے تابڑ توڑ حملوں سےقتل عام ہورہے ہیں عمارتیں کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہیں اور بچے بوڑھے غذا دوا اور طبی سہولیات سے محروم ہیں مگر یہی عالمی دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ان کے لئے کوئی جنگ بندی کی آواز ہے نہ اقدام کیا اس لئے کہ یہ گوروں میں شمار نہیں ہوتے یا اس لئے کہ یہ مسلمان ہیں یا یا یا۔۔۔
اسرائیل ہر بحران سے فائدہ اٹھا تا ہے
ادھر اسرائیل فلسطینی عوام پر نشانہ سادھے نوجوانوں اورجوانوں کو قتل کر رہا ہے مگر یہی عالمی برادری خاموش ہے ۔حد ہے یوکرین میں پھنسے ہوئے ہندوستانی طلباء وطالبات خود یوکرین پولیس کے تشدد کا نشا نہ بنتے ہیں یہاں تک اس جنگی بحران میں بھی کالوں پریہی یوکرائن گوروں کی زیادتیاں جیسے کوئی عام سی بات ہوجس کی تصویر جنگ زدہ یوکرین میں بھی جگہ جگہ نظر آرہی ہے

چھوٹے یا بڑے پیمانے پر ایک ہی نظارہ

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہر طرف ایک ہی نظارہ کیوں؟کہیں کوئی ملک کسی پر زیادتی کررہا تو کہیں افراد ایک دوسرے پر ظلم وتشدد سے نہیں چوکتے ؟ جو طاقت رکھتا ہے وہ کمزور پر چڑھائی کررہا ہے امریکہ ایشائی ممالک پر کبھی حملہ کرتاہے تومشرق وسطی میں اسرائیل فلسطین پر اور اب روس یوکرین پر آخر کیوں؟اورہرقوت وطاقت والا اپنے سے کمزور پر ؟اس کا جواب اور اس کا سبب آج ہر ملک کو تلاش کرنا ہے اور ہر آدمی کو ڈھونڈ نا ہے اور حل بھی ۔پوری عالمی برادری سیاسی مار میں مبتلا ہے۔

آخر اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟؟اگرہر ملک۔ طے کرلے کہ کمزور ملک کو ستانے کے بجائے اسکی مدد کریگا اور ہر طاقتور آدمی کمزور کو سہارا دے گا اور جیو اور جینے دو کا نعرہ ہرطرف سے بلند ہوگا ۔۔۔اورہم اپنے ملک میں کسی پر زیادتی کریں نہ ہی کسی ملک کو کسی کے ساتھ زیادتی میں ساتھ دیں بس ترقی کام اور انسانی ہمدردی کی سیاست جسمیں ہر چیز سے پہلےانسانی ہمدردی بنیاد ہو اور اسی کی حمایت کریں تو امید قوی ہے کہ ڈر اور خوف کا ماحول امن و صلح میں تبدیل ہو جاے گا یہ اپیل سب سے ہے اور کوئی سنے یا نہ سنے مسلمان تو سنے گا ہی کیوںکہ اسلام نام ہی صلح وسلامتی کا ہے اور یہاں ایک حقیقت بھی سامنے رکھئے پھر صورتحال کا جائزہ لیجئے اوروہ حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا اللہ کو چھوڑ کر صاحبان اقتدار پر بھروسہ کرہی ہے۔طاقت پر یقین کربیٹھی ہے دولت اور اقتدار کو خدا مان لیا ہےایمان رخصت ہو چکا ہےبندگی کا تصور زندگی میں دور دورتک نہیں۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
علامہ اقبال
اور یہی وہ کمزوری ہےجو انسان کی مشکلات کو بڑھارہا ہے زیادہ تر لوگ اپنی خواہش نفس پر ڈٹے ہوئے ہیں جو انسانی زندگی کو مفاد پرستی کے خطرناک کگر پر لے آیا ہے اور اس سے چھٹکارا حاصل کر ناضروری ہے۔

انکا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
اپنا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
جگر مرادآبادی

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .