تحریر: عادل فراز
حوزہ نیوز ایجنسی। ایرانی صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی ۱۹جنوری2022 کو روس کے دوروزہ دورے پر تھے ۔وہ روس کے صدر ولادیمیر پوتین کی دعوت پر ماسکو پہونچے تھے ۔یہ دورہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اہمیت کا حامل رہا،کیونکہ روس اور ایران دو ایسے ملک ہیں جنہوں نے امریکی چودھراہٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے اس کے آمرانہ یک قطبی نظام (unipolar)کی سیاست کو یکسر مسترد کردیا تھا ۔اس وقت امریکی بلاک کے مقابلے میں روس نے چین اور ایران کے ساتھ مل کر نیا بلاک تیار کرلیاہے جس میں دیگر اہم ممالک شامل ہیں ۔یہ تینوں ملک امریکہ کے ایک قطبی سیاسی محور پر گردش نہیں کرتے بلکہ اس سیاسی حکمت عملی کے سخت مخالف ہیں ۔ان کا مانناہے کہ دنیا کو مختلف سیاسی و اقتصادی قطبوں کی ضرورت ہے ۔امریکہ ان کے نظریات کا سخت مخالف ہے اور ایک قطبی نظام کی سیاست کے فروغ کے لیے جی توڑ کوشش کرتا رہتاہے ۔ولادیمیر پوتین کے ساتھ آیت اللہ رئیسی کی ملاقات عالمی سطح پر اہمیت کی حامل رہی ۔دنوں ملکوں کے صدور نے علاقائی نظم و نسق کو برقرار رکھنے کے لیے باہمی اشتراک کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ۔آیت اللہ رئیسی نے ملاقات کے بعد کہاکہ روس کے ساتھ باہمی تعلقات کے فروغ کی کوئی حد نہیں ہے ۔اس بیان سے معلوم ہوتاہے کہ ایران روس کے ساتھ کس قدر باہمی تعاون کے لیے تیار ہے ۔نیویارک ٹائمز نے اس ملاقات کے بعد لکھاکہ ایران اور روس نے امریکہ کے مقابلے میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیاہے ،اس رپورٹ سے ملاقات کی اہمیت کااندازہ ہوجاتاہے ۔صدر رئیسی نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ:’’ اب جبکہ روس اور امریکہ کے درمیان اختلافات کی خلیج گہری ہوچکی ہے، اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ دونوں ممالک زیادہ سے زیادہ باہم تعاون کرکے امریکہ سے اس کی طاقت کو سلب کرلیں ‘‘۔صدر پوتین نے بھی مشترک مفادات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ ایران اور روس نے دہشت گردی کے خلاف باہم محاذ آرائی کی ۔ہم بین الا قوامی سطح پر مشترک کام کرتے ہیں ۔خاص طورپر شام میں دہشت گردی کے سد باب اور خاتمے کے لیے ہم نے مشترک جدوجہد کی ۔پوتین نے کہاکہ ہم افغانستان کی سیاسی صورتحال پر سنجیدہ ہیں اوراس سلسلے میں صدر رئیسی کی رائے جاننے میں مجھے دلچسپی ہے ۔روسی صدر نے کہا کہ عبوری معاہدے کے تحت ایران اور روسی اقتصادی یونین کے درمیان تعلقات کو وسعت دی جائے گی اور ہم ایران اور روسی یونین کے درمیان آزاد تجارتی زون کی شکل میں ایک مستقل بنیاد قائم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
ولادیمیر پوتین کے ساتھ ملاقات کے دوران کریملین ہائوس میں آیت اللہ رئیسی کی نماز کی تصاویر بھی عالمی سطح پر گفتگو کا موضوع رہیں ۔خاص طورپر روسی مسلمانوں کے درمیان اس کا نہایت مثبت اثر رہا ۔روسی مسلمانوں کی کونسل کے سربراہ نے آیت اللہ رئیسی سے ملاقات کے دوران کہاکہ کریملین میں آپ کی نماز ایک بڑا نمونہ ہے اور فن لینڈ سے احباب نے یہ پیغام دیاکہ کریملین میں برکت آچکی ہے ۔روسی مسلمانوں کی کونسل کے سربراہ کا یہ بیان کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے ۔کیونکہ کریملین میں اس سے پہلے کسی مسلمان ملک کے سربراہ نے اپنے مذہبی تشخص کو برقرار نہیں رکھا ۔آیت اللہ رئیسی نے نماز پڑھ کر یہ پیغام دیا کہ ہم اپنا تشخص برقرار رکھتے ہوئے دنیا کی کسی بھی طاقت کے ساتھ حلیف ہوسکتے ہیں ۔ان کا یہ عمل روسی مسلمانوں کے لیے نشاۃ ثانیہ ثابت ہوگا اور مسلمانوں کے تئیں روسی حکمت عملی میں بھی خوشگوار تبدیلی رونما ہوگی ۔روس جس کا یہ نظریہ رہاہے کہ’ کوئی خدا نہیں ہے ‘اس ملک کے کریملین ہائوس میں نماز پڑھ کر آیت اللہ رئیسی نے روس کے ملحدانہ نظریے پر بھی کاری ضرب لگائی ۔ان تصاویر کو ارادی طورپر میڈیا میں شایع کیا گیا تاکہ روس کی کمیونسٹ آئیڈیالوجی اور ملحدانہ افکار کی موت کا اعلان کردیا جائے ۔میڈیا اطلاعات کے مطابق آیت اللہ رئیسی نے نماز کے لیے مذاکرات کو رکوادیا جبکہ مذاکرات میں روسی صدر پوتین بھی شامل تھے ۔اسی مذاکراتی میز سے پوتین کا بیان دنیا کے سامنے آیاکہ’ ہم بین الاقوامی سطح پر ایران کے ساتھ قریبی تعاون کرتے ہیں‘۔یہ بیان دنیا کو چونکانے والا اور نئے سیاسی قطبی نظام کا اعلان تھا ۔صدر پوتین نے اپنے بیان میں بطور مثال شام میں امریکی و صہیونی طاقتوں کے خلاف ایران اور روس کے اشتراک کا ذکر کیا ۔یہ تذکرہ مصلحت سے خالی نہیں تھا ۔اس بیان سے صہیونی طاقتوں کی سیاسی حکمت عملی اور عالمی استکبار کے عزائم کی ناکامی کو چیلینج کیا گیا ہے ۔
قابل ذکر ہے کہ سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد ولادیمیر پوتین پہلے ایسے روسی صدر ہیں جنہوں نے روس کی پرانی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے جدوجہد کی ۔پوتین نے ایک بار پھر روس کی سیاسی ،فوجی اور معاشی طاقت کو تسلیم کروایا اور امریکی بلاک کے مقابلے میں نیا بلاک تیار کیا ۔سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے اور روس کی سیاسی و فوجی حیثیت ختم کرنے میں بورس یلتسین کا بڑا کردار رہاہے ۔بورس یلتسین وہ پہلا شخص ہے جس نے امریکی چودھراہٹ کو تسلیم کرتے ہوئے دنیا کو ایک قطبی (unipolar)نظام کی طرف دھکیل دیا ۔ورنہ سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد بھی روس کا دبدبہ ختم نہیں ہوا تھا مگر اس کے پاس ایسی قیادت کا فقدان تھا جو اس کی طاقت کی شیرازہ بندی کرسکے ۔روس فقط سیاسی طورپر کمزور نہیں ہوا بلکہ اس کی اقتصادی اور انتظامی صورتحال بھی بدتر ہوگئی ۔ایسے ناگفتہ بہ حالات میں ولادیمیر پوتین نے روس کی باگ ڈور سنبھالی ۔پوتین کے سامنے سب سے بڑا چیلینج روس کی فوجی طاقت کی تنظیم،اقتصادی اسٹرکچر کی بحالی اور عوام کے اعتبار کو بحال کرنا تھا ۔ظاہر ہے یہ کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ تمام تر استعماری طاقتیں روس کے خلات متحد تھیں ۔وہ نہیں چاہتی تھیں کہ روس کی عالمی حیثیت دوبارہ بحال ہو۔
اپنے پہلے دور صدارت میں پوتین نےروس کی سیاسی حیثیت کی عالمی سطح پر تجدید کرتے ہوئے دنیا کو ایک قطبی نظام کے خطرات سے آگاہ کیا ۔امریکہ اور نیٹو کی توسیع پسندانہ سیاست کو طشت از بام کرکے روس کو ایک نئی عالمی طاقت کے طورپر دنیا کے سامنے پیش کیا ۔نیٹو افواج کے مقابلے میں ایک نئے فوجی اتحاد کو پیش کرنے کے عزم کا اظہار کیا ،جس سے عالمی استکبار کے خیمے میں ہلچل پیدا ہوگئی ۔پوتین نے اپنے دوسرے دور صدارت میں روس کو نئی عالمی طاقت کے طورپر متعارف کروایا اور پرانی سیاسی حیثیت کو بحال کرکے امریکی پالیسیوں کے مخالف ممالک کے ساتھ نئی بنیادوں پر اشتراک قائم کیا ۔یہ اشتراک شام ،یمن اور عراق کی جنگ میں نظر آیا جس نے امریکہ ،اسرائیل اور اس کے حلیف ممالک کے تمام تر منصوبوں کو خاک میں ملادیا ۔اس اشتراک میں سب سے بڑی طاقت ایران کی تھی جس نے روس کے مردہ منصوبوں میں نئی روح پھونکنے کا کام کیا ۔ البتہ اس سے پہلے 2008ء میں پوتین صدارتی امیدوار نہیں بن سکے اور انہوں نے وزیر اعظم کے طورپر حلف لیا ۔2012ء میں پوتین دوبارہ صدارتی امیدوار ہوئے تو امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے پوری کوشش کی کہ پوتین کی امیدواری منسوخ کروادی جائے مگر ایسا ممکن نہیں ہوسکا ۔2012 میں ایک باپھر ولادیمیر پوتین روس کے صدر منتخب ہوئے اورروس کو امریکہ کے مقابلے میں متبادل طاقت کےطورپر پیش کیا ۔
ایران اور روس کے تعلقات کی کہانی کافی پرانی ہے ۔ان تعلقات میں تلخیاں بھی رہیں اور مٹھاس بھی ۔لیکن2012ء میں ولادیمیر پوتین کے صدر منتخب ہونے کے بعدایران اور روس کے تعلقات نے نئی کروٹ لی ۔ایران جو عالمی استکبار کے مقابلے میں سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑاتھا اور متعدد محاذوں پر عالمی طاقتوں کو شکست دے چکا تھا ،روس کےلیے علاقائی سیاسی ڈھانچے کی تنظیم و ترتیب میں معاون ثابت ہو ا۔شام میں بشار الاسد حکومت کی حمایت ہو یا پھر یمن اور عراق میں داعش کے خلاف محاذ آرائی ہو ،ہر جگہ ایران اپنی پوری توانائی کے ذریعہ روس کے ساتھ شانہ بہ شانہ نظر آیا ۔اس علاقائی اتحاد کی مسلسل کامیابیوں نے دنیا کو حیران کردیا ۔مختلف محازوں پر امریکہ کی پسپائی کے بعد ایران اور روس نے چین کے ساتھ مل کر نیا فوجی ،اقتصادی و ترقیاتی محاذ تیار کیا ۔اس اتحاد میں دیگر ممالک بھی شامل ہیں مگر بنیادی حیثیت انہی تین ملکوں کو حاصل ہے ۔چین اور ایران کے درمیان طویل مدتی اقتصادی معاہدہ اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے جس نے عالمی استکبار کے عزائم کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا ۔اس وقت روس چین اور ایران کے ساتھ مل کر امریکی بلاک کے مقابلے میں نیا بلاک تیار کرچکا ہے جس کے نتائج سامنے آرہے ہیں ۔ایران کثیر قطبی نظام کی پالیسی پر عمل در آمد کررہاہے جس کااعلان متعدد بار اس کی جانب سے کیا جاچکاہے ۔آیت اللہ رئیسی کا دورۂ ماسکو اس راہ میں نئی پیش رفت ہے ۔