۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
یوکرائن، روس جنگ

حوزہ/ یوکرائن کی جنگ وائٹ ہاوس کے گندے کھیل کا ایک حصہ ہے جس کے ذریعے وہ چاہ رہے ہیں کہ یوکرائن کو نیٹو کا حصہ قرار دیکر روس کے گرد حصار کو مزید تنگ کریں اور ایک بڑی زمین کے مالک روس پر پریشر کو بڑھائیں ایسی صورتحال میں ہر ملک یہ پسند کرے گا کہ اس پریشر کو اپنے اوپر سے کم کرے لہذا روس میں موجود حکمران جماعت نے بھی اپنے اوپر سے پریشر کم کرنے کے لیے اور اس محاصرے سے نجات پانے کے لیے جنگ کا سہارا لیا ہے. بد قسمتی سے اب جنگ شروع ہو چکی ہے اور اس کا نتیجہ بھی ساری دنیا کو پتہ ہے۔

تحلیل: سید ابو مسلم

حوزہ نیوز ایجنسی کسی بھی ملک یا ملت کے لیے ایک بدترین سانحہ جو ممکن ہے وقوع پذیر ہو وہ جنگ ہے اور جنگ فقط تباہی اور ویرانی ہی لے کر آتی ہے جس سے عوام بالخصوص بچوں(جوتازہ پروان چڑھ رہے ہوتے ہیں) کے ذھنوں میں سوائے تلخ اور ناپسندیدہ یادوں کے اور کچھ باقی نہیں چھوڑتی، جنگ بعض لوگوں کے لیے ایک دردناک چیز ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دوسری طرف بعض ایسی قوتیں بھی ہیں جن کے پیٹ انہی جنگوں سے بھرتے ہیں، ایک طرف جنگوں سے کچھ انسانوں کے گھر اور آشیانے ویران ہوتے ہیں تو دوسری جانب بعض اشرافیہ کے محلوں میں اضافہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔

روس اور یوکرائن کی جنگ بھی اس قاعدے اور قانون سے مستثنی نہیں ہے لیکن چند روز پہلے کی خبروں پر نظر دوڑائیں تو ہم ایک نقطے پر آکر اس بات کو سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ امریکہ بہادر اور باقی یورپی ممالک، جنہوں نے یوکرائن کو نیٹو میں شامل ہونے کا جھانسا دے کر اسے روس کے مقابلے میں لاکھڑا کیا اور اس حال تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کرنے کے بعد اب کیوں صرف مدد کا وعدہ کرنے کا ڈرامہ کر رہے ہیں اور میدان میں نہیں آ رہے، اس بات کا اظہار خود مغربی حمایت یافتہ یوکرائنی صدر نے اپنے ویڈیو بیان میں بھی کیا ہے کہ میں نے خود 20 یورپی ممالک کے سربراہان کو فون کر کے پوچھا کہ آیا یوکرائن نیٹو میں شامل ہو پائے گا یا نہیں؟ لیکن سب کے سب ڈر کی وجہ سے جواب دینے سے کترا رہے تھے ایسا کوئی پہلی دفعہ نہیں ہو رہا اس سے پہلے بھی امریکہ نے اپنے اتحادیوں کو تنہا چھوڑتا آیا ہے۔

یوکرائن کی جنگ وائٹ ہاوس کے گندے کھیل کا ایک حصہ ہے جس کے ذریعے وہ چاہ رہے ہیں کہ یوکرائن کو نیٹو کا حصہ قرار دیکر روس کے گرد حصار کو مزید تنگ کریں اور ایک بڑی زمین کے مالک روس پر پریشر کو بڑھائیں ایسی صورتحال میں ہر ملک یہ پسند کرے گا کہ اس پریشر کو اپنے اوپر سے کم کرے لہذا روس میں موجود حکمران جماعت نے بھی اپنے اوپر سے پریشر کم کرنے کے لیے اور اس محاصرے سے نجات پانے کے لیے جنگ کا سہارا لیا ہے. بد قسمتی سے اب جنگ شروع ہو چکی ہے اور اس کا نتیجہ بھی ساری دنیا کو پتہ ہے۔ لیکن اس جنگ کے بعد وجود میں آنے والی دنیا موجودہ دنیا سے بہت مختلف ہو گی جس کا ثبوت جنگ کے پہلے ہی دن عالمی اسٹاک ایکسچنج میں شدید مندی اور تیل کی قیمتوں میں شدید اضافے کی صورت میں دیکھنے کو آیا ہے۔

1991 میں سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یوکرائن میں ایک مستقل حکومت وجود میں آئی لیکن 2014 تک روسی حمایت یافتہ اشخاص ہی حکومت بناتے رہے ہیں کیونکہ یوکرائن کے مشرقی علاقے میں اکثریت روسی نژاد لوگ آباد ہیں۔ لیکن 2014میں اورینج انقلاب(orange revolution)کے بعد مغربی حمایت یافتہ شخص(زلنسکی) کے حکومت سنبھالتے ہی روس نے اپنے آپ کو خطرے میں محسوس کیا اور کریمہ نامی علاقے پر حملے کے بعد وہاں ریفرنڈم کروایا کیونکہ اکثریت روسی نژاد کے لوگوں کی تھی تو یہ علاقہ روس میں شامل ہوگیا، 2014 کے بعد سے اب تک ڈونباس کا علاقہ جس میں بھی اکثریت روسی نژاد کے لوگوں پر مشتمل ہے اور پورے ملک کا 20 فیصد شمار ہوتے ہیں اس علاقے کی صورتحال بھی کریمہ سے ملتی جلتی تھی تو روسی صدر پیوٹن نے تین دن پہلے ڈونباس کے علاقے میں علیحدگی پسند ریاستوں کو الگ ممالک کے طور پر قبول کرنے کے ساتھ ہی اپنی فوجوں کو لوہانسک اور دونتسک نامی دونوں ریاستوں میں اتار دیا ہے۔ جس کے بعد حالات کنٹرول سے باہر ہوگئے ہیں اور ایک خطرناک جنگ شروع ہو چکی ہے جس میں روس نے تینوں جانب سے اپنی فوجیں اتار دی ہیں اور اس وقت روس اپنی سرحدوں اور کریمہ نامی علاقے کے ساتھ ساتھ بیلاروس سے بھی یوکرائن میں داخل ہو چکا ہے ایک ہی دن میں دونوں جانب سے دسیوں افراد قتل اور اسیر ہو چکے ہیں اور بہت سی جنگی مشینری اور حساس تنصیبات بھی تباہ ہو چکی ہیں، جس میں فائٹر جٹ، ہیلیکوپٹر اور ٹینکوں کے ساتھ ساتھ اہم فوجی تنصیبات بھی شامل ہیں۔

تازہ ترین صورتحال کے مطابق روس نے بہت سے اہم یوکرائنی شھروں پر قبضہ کر لیا ہے اور یوکرائن کے دارالحکومت کی طرف پیش قدمی جاری ہے اور حتی دارالحکومت کے شمالی علاقوں میں روسی فوجیں داخل بھی ہو چکی ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .