۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
عادل فراز

حوزہ/ کرونا وائرس کے عوامل اور عواقب پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ وبا استعماری منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی| بظاہر چین میں جنم لینے والاکورونا وائرس اس وقت پوری دنیا پر مسلط ہوچکاہے ۔دنیا کے اکثر ممالک اس مہلک وائرس کی زد میں ہیں ۔سرکاری ذرائع کے مطابق چین میں مرنے والوں کی تعدادتین ہزار سے تجاوز کرچکی ہے ۔چینی حکام کے مطابق ’ووہان ‘ شہر سے اس وائرس کے پھیلائو کا آغاز ہوا جہاں چینی فوج کے ساتھ امریکی فوجیں جنگی مشقیںکررہی تھیں۔ان کے مطابق یہ وائرس امریکی فوجیوں کے ذریعہ چین میں داخل کیا گیا اور دھیرے دھیرے اس وائرس نے وبائی صورت اختیار کرلی ۔چین کے ساتھ یہ وبا دنیا کے مختلف ملکوں تک پہونچ چکی ہے اور مرنے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہاہے۔چین کے بعد سب سے زیادہ اٹلی اور ایران میں اس وائرس کا اثر دیکھا گیا ۔ہندوستان بھی اس وبا کی زد میں ہے اور اس مہلک وائرس کے اثرات دھیرے دھیرے یہاں بھی پھیل رہے ہیں ۔اس وائرس سے محفوظ رہنے کے لئے ڈاکٹروں کی دی ہوئی ہدایات پر عمل نہایت ضروری ہے تاکہ اس وبا پر قابو پایا جاسکے ۔
اگر اس وائرس کے عوامل اور عواقب پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ وبا استعماری منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے ۔امریکہ جو دنیا کے الگ الگ ملکوں میں ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوچکاہے اور اس کی فوجیں جنگ زدہ ملکوں سے انخلاء پر مجبور ہوچکی ہیں ،اپنی اس ناکامی اور رسوائی کی پردہ پوشی اور دنیا پر نئے سرے سے حکمرانی کے لئے اس نے استعمار کے ساتھ مل کر اس مہلک وائرس کی منصوبہ بندی کی ہے ۔چین جو عالمی سطح پر معاشی اور عسکری قوت بن کر ابھراتھا،امریکہ اور اس کے حلیف ممالک اُسے اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھتے رہے ہیں ۔چین نے پوری دنیا کے بازار پر تسلط جماکر امریکی معیشت اور داداگیری کو زبردست نقصان پہونچایا تھا ۔حالیہ کچھ سالوں میں امریکی معیشت تزلزل کا شکار رہی ہے اور اسکی عسکری طاقت کی پول بھی کھل چکی ہے ،اس لئے دنیا کی نظروں میں اس کی ساکھ دائوں پر لگی ہوئی تھی ۔چین نے معاشی میدان میں امریکی اقتصاد کو متزلزل کردیا تھا اور ایران نے اس کی عسکری طاقت کے غبارے کی ساری ہوا نکال دی تھی ۔افغانستان میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات اور عراق سے فوجی انخلاء نے اس کی رہی سہی طاقت کو بھی تباہ و برباد کردیا ۔شام اور دیگر علاقائی ممالک میں اس کے فوجیوں کی تعداد دن بہ دن کم ہورہی ہے ۔اس کے فوجی جنگ کے میدان میں آنے سے ڈررہے ہیں اور جنگ کے شیدائی امریکی پالیسی میکر اپنی شکست سے بوکھلائے ہوئے ہیں ۔ان کے پاس دنیا پر حکومت قائم رکھنے کے لئے کوئی نئی جنگی حکمت عملی نہیں تھی ۔لہذا انہوں نے اس وائرس کا سہارا لیکر دنیا کو ایک بار پھر اپنے دام فریب میں گرفتار کرلیاہے ۔اس وقت دنیا کی بڑی آبادی امریکی کمک کی منتظر ہے اور اس وائرس کے اسباب و علل پر غوروخوض کی ضرورت محسوس نہیں کررہی ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ نم اور سرد علاقوں میں اس وائرس نے زبردست قہر برپایاہے ۔سائنس دانوں کے مطابق یہ وائرس گرم علاقوں میں اثرانداز نہیں ہوتا یا اس کا اثر کم ہوجاتاہے ۔برفیلے علاقوں میں جہاں کی آب وہوا میں حد سے زیادہ نمی ہوتی ہے ،یہ وائرس تیزی کے ساتھ پھیلتاہے ۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ روس،ترکی دبئی ،سعودی عرب،افغانستان،اور امریکہ و اسرائیل کے دیگر حلیف ممالک میں اس وائرس کا اثرنہیں ہے یا بہت کم دیکھاگیاہے ۔ایران کے پڑوسی ممالک جن کی آب و ہوا ایران کی طرح ہے وہاں بھی اس وائرس کا اثر نہیں ہے ۔تو پھر کیا وجہ ہے کہ چین کے بعد ایران ،پاکستان اور ہندوستان جیسے ملکوں میں اس وائرس کا زیادہ اثر دیکھا جارہاہے ۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کی معیشت کا سارا دارومدار ایران،پاکستان ،ہندوستان اور ان تمام ممالک پر ٹکا ہوا تھا جہاں اس وائرس کا اثر دیکھاجارہاہے ۔چینی برآمدات نے مشرق وسطیٰ سمیت یوروپی ممالک میں بھی اپنا زبردست بازار قائم کیا تھا ۔چین دنیا کے تقریباََ ۱۲۴ ملکوں کو اپنا سامان فروخت کررہا تھااور امریکہ اسکے مقابلے میں فقط ۵۶ ملکوں کے ساتھ تجارتی طورپر منسلک تھا ۔چین کی یومیہ آمدنی ،امریکی یومیہ آمدنی کے باالمقابل کئی گنازیادہ تھی جو اس کے معاشی سُپر پاور بننے کی راہ میں بری رکاوٹ بن رہی تھی۔اس لئے چین کو معاشی طورپر کمزور کرنے کے لئے کورونا وائرس کا سہارالیا گیا۔اس وائرس کو ان ملکوں تک اس لئے پہونچایا گیا تاکہ یہ ملک چین کے ساتھ اپنے اقتصادی معاملات کو یا تو یکسر ختم کردیں یا پھر اپنے کاروبار کو امریکہ اور اسرائیل کے مقابلے میں چین کے ساتھ محدود کردیں ۔ایران پر امریکی پابندیاں عائد ہیں جس کے زیر اثر ایران سب سے زیادہ چین کے ساتھ اقتصادی معاملات بڑھا رہاتھا ۔ایران کو دنیا سے الگ تھلگ کردینے کے لئے اس وائرس کو وہاں کی عوام پر مسلط کردیا گیا ۔اس وقت چین کے ساتھ کاروبار کرنے والی آدھی سے بھی زیادہ دنیا اس کے ساتھ اپنے کاروبار کو برقرار رکھنے پر غور کررہی ہے ۔امریکہ اس وائرس سے متاثرہ ملکوں کو اربوں ڈالر کی مدد کی پیشکش کرکے انہیں اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کررہاہے تاکہ آئندہ وہ چین کے مقابلے میں امریکہ کے ساتھ کاروبار کو ترجیح دیں ۔دراصل یہ وائرس دنیا پر حکومت کرنے کا ایک ذریعہ ہے ۔جس کے بعد اب پوری دنیا چین کے ساتھ اپنے کاروباری تعلقات پر ازسرنو غور کررہی ہے۔دوسرے اربوں ڈالر کی امریکی کمک انہیں استعمار کے دام فریب تک لے آئی ہے جس سے باہر نکلنا آسان نہیں ہوگا۔امریکی مدد کی حرص میں بعض وہ ممالک جہاں اس وائرس کا اثر نہیں تھا انہوں نے بھی فرضی کیس رجسٹرڈ کرنے شروع کردیے ہیں ۔اس کمک کے بھاری نقصانات انہیں مستقبل قریب میں چکانا ہونگے۔
ہندوستان،پاکستان اور ایران سمیت کئی ملک ایسے ہیں جن کی معیشت کا انحصار چینی مصنوعات پر تھا ۔اب یہ ملک چینی سامان کی درآمدات پروقتی طورپر پابندی عائد کرچکے ہیں ۔ایران ہمیشہ برے وقت میں اپنے دوستوں کا ساتھ نبھاتاہے،اس لئے ایران نے چین کے ساتھ کاروبار کو ملتوی ضرور کیاہے مگر وہ کبھی چین کے ساتھ تجارتی تعلقات کو منقطع نہیں کرے گا ۔اگر اس وائرس کے اثرسے چین جلدی نجات حاصل کرکے عالمی بازار میں دوبارہ اپنی پوزیشن حاصل کرلیتاہے تو پھر امریکہ کے لئے بڑی مشکلات کھڑی ہوجائیں گی ۔اس کا فائدہ چین کے دوستوں کو حاصل ہوگا جن میں ایران پیش پیش ہے ۔ہندوستان جو گزشتہ کچھ سالوں میں امریکہ اور اسرائیل کی گود میں جا بیٹھاہے ،چین کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات پر از سر نو غور کررہاہے ۔اگر ہندوستان چین کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال رکھتاہے تو یہ مستقبل میں ہمارے ملک کے لئے بہتر ثابت ہوگا ۔بالآخر چین ہمارا پڑوسی ملک ہے ۔امریکہ اور اسرائیل کی دوستی سے زیادہ ہمیں اپنے علاقائی مفادات اور عوامی فلاح کو مد نظر رکھنا ضروری ہے ۔اس نازک وقت میں ہماری سرکار کوچین ،اٹلی اور ایران کا کھل کر ساتھ دینا چاہئے ۔اگر ہندوستان اس برے وقت میں چین کے ساتھ مسلسل اظہار ہمدردی کرتا رہے گا تو اس کے فائدے مستقبل میں دونوں ملکوں کو حاصل ہوں گے۔

تحریر: عادل فراز 

نوٹ: حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .