حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے روسی خبر رساں ایجنسی اسپوٹنک کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ امریکی حکومت یقینا سرکش اور قانون شکن حکومت بن چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ امریکہ بہت حد تک ناقابل اعتماد فریق ہے۔
ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے کہا کہ آج عالمی نظام کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ قانون کی حکمرانی اور چند قطبی نظام کی حاکمیت ہے تاکہ دنیا کے سبھی ملکوں کے مفادات پورے ہوں۔ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی برادری یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا دنیا کے بینکاری نظام پر امریکہ کے تسلط کو تسلیم کرنا ضروری ہے یا اس میں تبدیلی ناگزیر ہو گئی ہے۔ڈاکٹر ظریف نے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس سلسلے میں کچھ قدم اٹھائے جا رہے ہیں۔
وزیر خارجہ ظریف نے اس سوال کے جواب میں کہ ’’اسلامی جمہوریہ ایران نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرنے کے لئے کیا اقدام کئے ہیں؟‘‘ کہا کہ تہران، ریاض کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی حکام امریکہ کے ساتھ مل کر جنگ و خونریزی کے راستے پر گامزن ہیں۔
ڈاکٹر ظریف نے کہا کہ سعودی حکام کو صیہونی حکومت اور امریکہ کے ساتھ تعاون کے بجائے بیدار ہو جانا چاہئے اور ان ملکوں سے مذاکرات کرنا چاہئیں جو ان کے ساتھ ہمیشہ اس علاقے میں رہیں گے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے اسپوٹنک نیوز ایجنسی کے نمائندے کے اس سوال کے جواب میں کہ ’’ایران کے خلاف امریکہ کی اسلحہ جاتی پابندیوں کی مدت میں توسیع کے لئے امریکی کوششوں کا کیا نتیجہ نکلے گا؟‘‘ کہا کہ امریکہ ایٹمی سمجھوتے کے بارے میں بات کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق اکتوبر کے مہینے میں ایران کے خلاف اسلحہ جاتی پابندیاں ختم ہو جائیں گی تاہم امریکہ ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکلنے کے باوجود ایک سازش کے ذریعے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کے عمل میں موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ روس اور چین نے بارہا ایران کے خلاف اسلحہ جاتی پابندیوں کی مدت بڑھائے جانے کی مخالفت کی ہے۔