تحریر: یوشع ظفر حیاتی
حوزہ نیوز ایجنسی । اسوقت پاکستان ایک انتہائی نازک دور سے گذر رہا ہے۔ شاید یہ بھٹو صاحب کے بعد تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی پاکستانی وزیراعظم نے اس طرح کھل کر امریکہ بہادر پر الزامات عائد کئے ہیں۔
مستقبل میں پاکستان کے ممکنہ اتحادی روس نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکا کی جانب سے ’شرمناک مداخلت کی ایک اور مبینہ کوشش‘ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا نے ’نافرمان‘ عمران خان کو سزا دینے کی کوشش کی ہے۔ ایک بیان میں روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے کہا کہ رواں سال 24-23 فروری کو عمران خان کے ماسکو کے ورکنگ وزٹ کے اعلان کے فوراً بعد امریکیوں اور ان کے مغربی ساتھیوں نے وزیر اعظم پر غیر مہذبانہ انداز میں دباؤ ڈالنا شروع کر دیا اور اس دورے کو منسوخ کرنے کے لیے الٹی میٹم کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جب وہ اس کے باوجود ہمارے پاس آئے تو ڈونلڈ لُو نے واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کو فون کیا اور اس دورے کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا جسے مسترد کر دیا گیا۔
ماریا زاخارووا نے کہا کہ پاکستانی میڈیا کے مطابق اس سال 7 مارچ کو پاکستانی سفیر اسد مجید کے ساتھ بات چیت میں ایک اعلیٰ امریکی اہلکار (غالباً ڈونلڈ لُو) نے یوکرین میں ہونے والے واقعات پر پاکستانی قیادت کے متوازن ردعمل کی شدید مذمت کی اور واضح کیا کہ امریکا کے ساتھ شراکت داری اسی صورت میں ممکن ہے جب عمران خان کو اقتدار سے ہٹا دیا جائے۔ روسی عہدیدار نے کہا کہ پارلیمنٹ میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد جس طرح پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی اپوزیشن کے ساتھ مل گئے، اس پیش رفت سے اس حوالے سے کوئی شک کی گنجائش نہیں رہی کہ امریکا نے 'نافرمان' عمران خان کو سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ ماریا زاخارووا نے کہا کہ یہ ایک آزاد ریاست کے اندرونی معاملات میں اپنے ذاتی مقاصد کے لیے شرمناک امریکی مداخلت کی ایک اور کوشش ہے۔ ان کا کہنا تھ کہ پاکستانی وزیراعظم خود بارہا کہہ چکے ہیں کہ ان کے خلاف سازش کے لیے بیرون ملک سے حوصلہ افزائی اور مالی اعانت فراہم کی گئی، ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستانی ووٹرز کو انتخابات کے وقت ان حالات کے بارے میں آگاہ کیا جائے گا جو کہ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دنوں کے اندر ہونا طے ہیں۔
روس کی وزارت خارجہ کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب وزیر اعظم عمران نے سازش کا ذکر کرتے ہوئے امریکی معاون وزیر خارجہ برائے وسطی اور جنوبی ایشیا ڈونلڈ لُو کا نام لیا جنہوں نے ایک خط میں ان کی حکومت کے بارے میں ’دھمکی آمیز ریمارکس‘ دیے، جسے وزیر اعظم نے پچھلے مہینے اسلام آباد میں ایک عوامی ریلی کے دوران لہرایا تھا۔
امریکہ بہادر کی سازشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں پہنچ کر جس انداز سے جمہوری حکومتوں کے خلاف اسکی سازشیں زباں زد عام ہیں شاید ہی کسی اور ملک کی ہوں۔
چاہے وہ افریقہ کا کوئی ملک ہو یا پھر مشرق وسطی ہر جگہ ہی امریکہ بہادر نے ڈنڈے کے زور پر یا سازشیں کرکے اپنی رٹ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ افغانستان میں دہشتگردی کا بہانہ بنا کر جمہوری حکومت کا تختہ الٹا گیا تو عراق کی صورتحال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں رہی، لیبیا، تیونس، مصر غرض دنیا کے تقریبا تمام مسلمان ملکوں میں امریکہ بہادر نے کسی نہ کسی طرح دخل اندازی کی ضرور ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جہاں جہاں امریکہ پر اندھا اعتماد کیا گیا وہاں وہاں اس نے پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے اور اپنے اوپر اندھا اعتماد کرنے والوں کو کہیں کا بھی نہیں چھوڑا۔ اگر چاہیں تو لیبیا کے معمر قذافی، عراق کے صدام حسین، مصر اور تیونس کے سابقی حکمرانوں یا تھوڑا سا پیچھے جائیں تو اسلامی جمہوریہ ایران میںانقلاب سے پہلے کے ڈکٹیٹر رضا شاہ کے حالات زندگی پڑھ لیں آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ امریکہ بہادر ہو حیوان ہے جو وقت پڑنے پر اپنے ہی مالک پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔
حالیہ کچھ عرصے کے دوران شام اور عراق میں مقاومتی اوت استقامتی گروہوں کی جانب سے ہر مھاذ پر شکست فاش کھانے کے بعد عالمی سطح پر امریکہ بہادر کی سازشیں بہت زیادہ عیاں ہوگئی ہیں۔ جس کی وجہ سے اسکی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ دنیا کے اہم ممالک نے امریکہ پر اعتبار کنا چھوڑ دیا ہے اور اب دنیا ایک نئے عالمی اتحاد کا منظر نامہ پیش کررہی ہے۔
سابقہ ادوار میں وقت بے وقت دھوکہ دے جانے والے سوویت یونین کا اعتبار بحال کرنے میں موجودہ صدر پیوٹن کا نہایت اہم کردار ہے۔ انہوں نے اپنی ذہانت اور درایت کے بل بوتے پر عالمی سطح پر روس کا اعتبار دوبارہ بحال کیا ہے۔ پیوٹن نے چین کو اپنے اعتماد میں لے کر دراصل دنیا پر سے امریکی حکمرانی کے خاتمے کے لئے انتہائی قدم اٹھایا ہے اور انکی کوشش ہے کہ امریکہ اور اسکے حامیوں کے خلاف دنیا میں جہاں کہیں بھی استقامتی محاذ کار فرما ہے اسے تقویت پہنچائی جائے اور دنیا نے اس کا مشاہدہ بھی کیا ہے کہ روس نے کس طرح شام اور عراق کی جنگ میں مالی اور اسلحہ جاتی اور مشاورتی مدد فراہم کی ہے۔
یہ تو ہم سب کو ہی معلوم ہے کہ خطے میں پاکستان کی اہمیت دوسرے ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ ایک طرف جغرافیائی محل وقوع تو دوسری طرف واحد اسلامی ایٹمی طاقت کے عنوان نے اس کو بہت زیادہ اہم ملک میں تبدیل کردیا ہے۔ ایسے میں امریکہ بہادر کی جانب سے اس طرح کی سازشوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا غور طلب ہے۔ پاکستان کے جمہوری منتخب وزیراعظم کے خلاف انکے دورہ روس کے بعد اچانک تحریک عدم اعتماد کا پیش کیا جانا اور اتنی بڑی تعداد میں سیاسی شخصیات کا انکے خلاف متحد ہوجانا یہ بتلاتا ہے دال میں کچھ کالا ہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ صحافت کا شعبہ جو ہمیشہ ہی نیوٹرل ہونے کا دعوی کرتا ہے اس نے اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے کہ کسی طرح عمران خان کو نا اہل قرار دے دیا جائے یا ان پر آئین سے داری کا مقدمہ ہی چلایا جائے۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انہوں نے امریکہ بہادر کو ملاء عام میں للکارا تھا تب دنیا نے دیکھا تھا کہ امریکہ بہادر نے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لئے کس طرح پاکستانی سیاسی اور مذہبی شخصیات پر تجوریوں کے منہ کھول دیئے تھے اور صرف اسی پراکتفا نہیں کیا تھا بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا کر سکھ کا سانس لیا تھا۔
لیکن اس بار بظاہر ایسا لگتا ہے معاملات یکسر مختلف ہیں۔ آج ملک کا مقتدر حلقہ، فوج، اسٹبلشمنٹ، اعلی عدالتیں اور قوم کے بہی خواہ ایک پیج پر ہیں اور وہ ہے امریکہ بہادر کے چنگل سے نجات حاصل کرنا۔ ملکی تاریخ میں ایسا کبھی دیکھنے کو نہیں ملا کہ پارلیمنٹ میں حکومتی بینچوں سے امریکہ مردہ باد کے نعرے لگائے گئے ہوں۔ اگر ہم اس ایک پیشرفت پر ہی توجہ مرکوز رکھیں تو یہ ملکی تاریخ میں امریکہ مخالف دھڑوں کی ایک اہم کامیابی ہے۔ ہمیں چاہئیے کہ ہم پارلیمنٹ میں لگائے جانے والے اس نعرے کو ضائع نہ ہونے دیں اور ملک میں موجود اس امریکہ مخالف فضا سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کو امریکی سازشوں اور فتنوں سے آشنا کرنے کی ایک مکمل منظم تحریک چلائیں تاکہ ہمارے حکام عوامی طاقت کے بل بوتے پر مکمل آگاہی کے ساتھ امریکی غلامی سے نجات حاصل کرسکیں۔ یاد رکھیں اگر یہ منتقلی کا عمل مکمل آگاہی کے ساتھ نہیں ہوگا تو ہمارا حال بھی لیبیا اور تیونس سے اچھا نہیں ہوگا۔