۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
علامہ شبیر میثمی

حوزہ/ عزاداری کو اُسی سادگی سے منائیں جس سادگی سے ہم 25-30 سال پہلے مناتے تھے تاکہ عزاداری کی روح ہمارے دل پر اثر کرے، ہم گناہوں سے نکلیں، ہم شوبازی اور سیلفی بازی سے نکلیں اور صرف اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور اہل بیتؑ کی خوشنودی کے لئے عزاداری کریں تاکہ جب قیامت میں پہنچیں تو ہمیں ان کی شفاعت نصیب ہو۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امام جمعہ مسجد بقیۃ اللہ ڈیفنس کراچی و شیعہ علماء کونسل پاکستان کے رہنما علامہ شبیر میثمی نے خطبہ جمعہ میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے ایرپورٹ پر دھماکے نے وہ پہلا قدم اٹھا لیا جس کا ڈر تھا۔ دیکھیں کہانی کہاں سے شروع ہوئی؟ روس افغانستان میں آیا، افغانی ان کو نہیں نکال سکے۔ امریکہ نے ہمارے مدرسہ کے بچوں کو تیار کیا اور جوش خروش سے انہیں وہاں پر بھیج دیا۔ انہوں نے بھی جوش و جذبہ سے کام کیا اور روس کو وہاں سے نکال دیا۔ امریکہ نے انہیں اسلحہ دیا۔ اس زمانے کی امریکہ کی وزیر خارجہ کہتی ہے کہ ہم نے ان کو ٹریننگ اور اسلحہ تو دیا لیکن جب ہمارا کام پورا ہوا تو ان سے اسلحہ لینا بھول گئے۔ اس پر ایک مووی بھی بنی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ روس کو نکالنے کے لئے کس نے کہاں سے کیا کیا ؟ روس کے نکل جانے پر امریکیوں نے خوشیاں منائی۔ پاکستان کی طرف سے بھی غلطیاں ہوئیں۔ نتیجہ وہ نکلا کہ افغانستان پھر کسی کے ہاتھ چلا گیا۔ پھر نائن الیون کا ڈراما رچایا گیا۔ یہ بات سب کے لئے ثابت ہے لیکن کوئی بولنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ واقعہ وہاں کرایا گیا اور اس کے اثرات افغانستان میں دکھائی دئیے۔ تورا بورا پر بمباری وغیرہ۔ پھر اسامہ بن لادن کا مسئلہ کھڑا کیا گیا۔ امریکہ خود کھڑا ہوگیا کہ ہم اپنے تین ہزار لوگوں کو بدلہ لیں گے۔ غاروں میں بیٹھ کر امریکہ کی جدید ترین ٹیکنالوجی کو شکست دینے والے۔ عراق کی جنگ کی دستاویزات کو آپ پڑھیں جس میں لکھا تھا کہ عراق میں وسیع تباہی پھیلانے والا اسلحہ موجود ہے۔ گوشت لے جانے والے کنٹینرز کی ویڈیوز دکھا کر لوگوں کو بے وقوف بنایا گیا۔اور عراق پر حملہ کرایا گیا۔ آج عراق کی حالت دیکھیں کیا سے کیا ہوگئی ہے۔ 

میں نے ایک جملہ باربار کہا ہے کہ اگر وہاں کہیں لڑائی ہو رہی ہو اور میڈیا دکھا رہا ہوتو آپ یہاں دیکھیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ امریکہ عراق سے بغیر میٹر لگائے کتنا تیل نکال کر لے گیا ؟ افغانستان سے کیا لے گئے، میں یہاں سے نہیں بولوں گا۔ ڈائریکٹ فلائٹس جاتی تھیں۔ مزے کا مال جاتا تھا۔ 

نائن الیون کے بعد امریکہ بہادر افغانستان آگئے۔ بیس سال میں نہ فوج کی تربیت کر سکے، نہ لوگوں کے مسائل حل کرسکے۔ بیس سال بعد جب اچانک وہاں سے نکلے ہیں تو وہاں کی صورتحال کسے سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ بھاگتے جا رہے ہیں اور پیچھے سے پانی آتا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ کابل بھی قبضہ میں آگیا۔ پھر ہمارے کچھ دوست احباب ذرا جلدی میں بول گئے کہ یوں ہے اور یوں ہے۔ کل جب دھماکہ ہوا تو کہا جا رہا تھا کہ تیرہ لوگ مرگئے۔ آج اخبار نے کہا ہے کہ ۱۰۰ سے اوپر لوگ مرے ہیں۔ امریکی فوجی اتنے مرے، افغانی اتنے مرے۔ 

میرا سوال یہ ہے کہ بیس سال میں تم نے اپنے نائن الیون میں مرنے والوں کا کیا بدلہ لیا؟ تم نے کل بھی اپنے تیرہ فوجی مروا دئیے۔ مت کہیں کہ مولانا امریکی ہیں تو ہمیں کیا افسوس۔ بالآخر انسانی جان کا ضیاع ہے۔ چیونٹی پر بھی پیر آجائے تو افسوس ہونا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ کون جوابدہ ہے؟ اتنی بڑی مشکل آگئی ہے۔ مجھے نہیں معلوم طالبان میں افغانستان چلانے کی طاقت آگئی ہے یا نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اب یہ پرانے والے طالبان نہیں ہیں۔ عراق میں صدام کو ہٹانے کے بعد جس حکومت کو لایا گیا وہ حکومت چل ہی نہیں سکی۔ آپ دیکھ لیں کہ ہمارے اپنے ملک میں پرانی بیوروکریسی اور پرانے ججوں نے عمران خان کے ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ الیکشن میں جیت کر آنے والے کے ساتھ یہ حشر کر رہے ہیں تو صدام کے زمانے والے کیسے حکومت چلانے دیتے۔ بیوروکریسی کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ اچھی ہو تو ملک کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ میں بھی تو بیوروکریسی ہے ناں، لیکن وہ اپنی حدود میں کام کر رہے ہیں۔ طالبان کے آتے ہی توقع کرنا کہ سب اچھا ہوجائے گا، یہ غلط فہمی ہے۔ ہمیں انتظار کرنا ہوگا۔ 

اللہ کرے کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہ غلط ہے، اب ایک وہاں ہوگا تو ایک یہاں ہوگا۔ کیونکہ کرنے والے معلوم ہیں کہ کون ہیں؟ داعش کو کس نےبنایا ؟ داعش کو کس نے اسلحہ دیا؟ چیک کیجئے گا کہ اسرائیل کا اس میں کیا کردار ہے؟ چیک کیجئے گا کہ مسلمانوں کے جو بڑے بنتے ہیں، وہ مائنس ہوگئے ہیں افغانستان سے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ انڈیا کہ جس کی اربوں ڈالرز کی انوسٹمنٹ تباہ و برباد ہوگئی، کیا وہ خاموش بیٹھا رہے گا کہ افغانستان میں امن قائم ہوجائے۔ اس وقت اگر حکومت، سیاستدان، بیوروکریٹس، فوج، ایجنسیز اور عوام اگر ایک ہو کر پاکستان کے لئے نہیں سوچتے ہیں تو یقین کیجئے اب پاکستان کے لئے اس سے کہیں زیادہ مشکل وقت آنے والا ہے جو آچکے ہیں۔ سب سے آسان ٹارگٹ ہم شیعہ ہوتے ہیں۔ اس لئے مسلسل دعا پڑھئے، زیارت وارثہ پڑھئے، زیارت عاشورا پڑھئے، کہ ہمارے پیارے ملک پر آنچ نہ آئے۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ جہاں سے امریکہ کی ایجنسیز کی سوچ ختم ہوتی ہے، وہاں سے ہماری ایجنسیز کی سوچ شروع ہوتی ہے۔ اللہ نے ماشاء اللہ بہت ٹیلنٹ دیا ہے۔ اللہ نے اس پیارے ملک کو بنایا ہے تو اس کی حفاظت کا بھی سامان کیا ہے۔ ہمارے ایجنسیز سے لاکھ اختلافات ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کے ساتھ نہیں ہیں۔

میں میڈیا پرسنز سے بھی کہوں گا کہ کھیل تمہارے ہاتھ میں ہے۔ افغانستان کے حالات بگڑے اور اس کے اثرات پاکستان تک پہنچے اور تم نے مثبت اپروچ نہیں لی تو اس ملک کے لئے وہ ہونے والا ہے جس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس لئے کہ اس دفعہ میری نظر میں صحیح اسٹینڈ لیا گیا ہے۔ اور محسوس ہوتا ہےکہ صحیح آدمی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوا ہے۔ اگر پچھلے کوئی ہوتے تو آج کی صورتحال الگ ہوتے۔ کیونکہ وہ تو اپنی بلٹ پروف گاڑیوں میں جاتے، فرق تو مجھے، آپ کو اور عوام کو پڑتا۔ 

کوئٹہ میں کیا ہوا تھا؟ چھوٹا سا دھماکہ ہوا۔ وکلاء برادری نے محبت میں جنازے اٹھائے، زخمیوں کو اٹھایا اور ہاسپٹل پہنچ گئے۔ جب بڑے بڑے وکیل ایک جگہ جمع ہوگئے تو ایک بڑا دھماکہ کردیا۔ یہ ہمارے لئے ایک درس ہے۔ ٹیکنیک بدل گئی ہے۔ امام بارگاہوں میں اسکاؤٹس سیکورٹی ٹائٹ کریں۔ اللہ ہماری مدد کرے۔ لیکن رش نہ ہونے دیں۔ امریکی فوج نے ابھی تک افغانستان ائیرپورٹ کا کنٹرول سنبھالا ہوا ہے۔ ا گر وہ رش کرنے کی بجائے لائن لگوا دیتے تو کچھ بھی ہوجاتا پانچ دس افراد سے زیادہ لوگ نہیں مرتے۔ اتنی انسانی جانوں کا ضیاع! کسی کی انگلی کٹ جائے تو ہمیں افسوس ہوتا ہے۔ یہاں تو انسانی جسموں کے پرخچے اُڑے ہیں۔ امریکہ غلطیوں پر غلطیاں کر رہا ہے۔ اللہ کرے یورپی یونین اوردوسرے ملکوں کو عقل آئے۔ اللہ کرے چین اور روس غلط فیصلے نہ کریں۔ اور ترکی ہوشیاری نہ دکھائے۔ اس تمام معاملے میں ترکی 2023 کا انتظار کر رہا ہے کہ 100 سالہ کنٹریکٹ ختم ہوجائے۔ بہت خطرناک صورتحال ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ظہور سے قبل زمانہ ظلم سے بھر جائے گا تو ہمیں وہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ وصیت نامے لکھ کر رکھ لیں۔ ہم شہادت کی موت مریں تو کم از کم گھر والوں کو بزنس اور دوسرے مسائل میں مشکلات کا سامنا نہ ہو۔

آخری نکتہ یہ ہے کہ خدارا عزاداری کو اُسی سادگی سے منائیں جس سادگی سے ہم 25-30 سال پہلے مناتے تھے تاکہ عزاداری کی روح ہمارے دل پر اثر کرے، ہم گناہوں سے نکلیں، ہم شوبازی اور سیلفی بازی سے نکلیں اور صرف اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور اہل بیتؑ کی خوشنودی کے لئے عزاداری کریں تاکہ جب قیامت میں پہنچیں تو ہمیں ان کی شفاعت نصیب ہو۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .