۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
منبر

حوزہ/ منبر،محراب سے افضل ہے۔ جبکہ معاشرے میں محراب میں کھڑے ہونے والےکی شرائط کو سامنے رکھ کر بال کی کھال اتاری جاتی ہے۔ لیکن منبر کو بلا شرط مکمل آزاد رکھا ہوا ہےجو مرضی آئے اور جو مرضی کہے۔

تحریر: شیخ فرمان علی نجفی

حوزہ نیوز ایجنسی | رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ جہاں امت کی ہدایت کے لئے قرآن واہل بیت چھوڑ گئے ہیں وہاں اصلاح و عمل کے لئے محراب و منبر بھی چھوڑ گئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم منبر کو منبر رسول کہتے ہیں اور محراب بھی رسول اللہ کاہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ آج امام کاظہور ہوجائے تو محراب و منبر پر وہی جاسکتا ہے جس کو امام نصب فرمائے۔کیونکہ دونوں کا وارث امام ہے۔

کم علمی کے اعتراف کے ساتھ یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جو شرائط محراب کے لئے فقہی کتابوں میں مذکور ہیں۔وہی شرائط منبر کے لئے بطریق اولیٰ ہونا چاہئیے۔ کیونکہ منبر سے مکمل دین بیان ہوتا ہے اور محراب میں ایک رکن دین پر عمل ہوتاہے۔اس بنا پر منبر،محراب سے افضل ہے۔ جبکہ معاشرے میں محراب میں کھڑے ہونے والےکی شرائط کو سامنے رکھ کر بال کی کھال اتاری جاتی ہے۔ لیکن منبر کو بلا شرط مکمل آزاد رکھا ہوا ہےجو مرضی آئے اور جو مرضی کہے۔

محراب کی شرائط

1۔بالغ ہو:
نابالغ محراب میں کھڑا ہو کر امامت نہیں کراسکتا۔
جبکہ منبر پر غیر ممیز بچہ بھی آکر جو مرضی کہے واہ واہ ہوتی ہے۔

2۔عاقل ہو:
بے عقل،نشئی،مست اور مدہوش آدمی محراب میں کھڑا نہیں ہو سکتا۔
منبر کے لئے اس کا لحاظ نہیں کیا جاتا۔

3۔اثنا عشری ہو:
جبکہ منبر پر غالی نصیری بھی بیٹھ جائے تو روکنے والا کوئی نہیں۔

4.عادل ہو:
لیکن منبر بےنماز،ریش تراش،جھوٹا، بدعقیدہ اور من پسند باتیں کرنے والا بھی آجائے تو کوئی بات نہیں۔

5۔عالم ہو:
جبکہ منبر پر جاہل،
قرآن واحادیث غلط پڑھنے والا،
تفسیر بالرائے بلکہ ترجمہ بھی غلط کرنے والا آجائے کوئی مسلئہ ہی نہیں۔

6۔قرآت درست ہو:
جبکہ منبر پر آنے والا قرآت اور تجوید سے بالکل جاہل ہوتاہے۔

7۔بااخلاق اور با مروت انسان ہوتاکہ محراب میں کھڑا اونے کا لائق ہو۔

جبکہ منبر پر ایسے بداخلاق اور غیر مہذب لوگ آتے ہیں،لعن طعن،مذاق،گالی گلوج اور لڑائیوں تک کرکے منبر کے تقدس کو پامال کرتے ہیں۔

ہمارا منبر ٹھیک ہوجائے تو اصلاح معاشرہ مشکل نہ ہوگی۔
منبر کی اصلاح سے پہلے بانیان مجالس کی اصلاح بہت ضروری ہے۔

منبر پر آنے والے اللہ تعالیٰ اور اہلبیت علیہم السلام کی رضایت سے زیادہ بانی اور سامعین کو خوش کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں تاکہ اچھی فیس ملےاور آئندہ کے لئے بکنگ ہوجائے۔یہ رجحان آہستہ آہستہ ہر جگہ بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔

اگر کوئی دین کا درد رکھنے والا کسی غلط بات ہر اعتراض کرے تو سارا مجمع اس کے پیچھے پڑجاتا ہے کہ اس نے مجلس خراب کردی جبکہ منبر سے کوئی جاہل اور غالی عوام کے عقائد اور ایمان کوخراب کرتا ہے تو ٹوکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔جبکہ امام سجاد علیہ السلام نے قاتلوں کےدربار میں ننگی تلواروں کے سائےمیں یزیدی خطیب کو روک کر خود اسی منبر پربلندہوکر حق کو ایسے بیان فرمایا کہ اسی دربار میں یزید پر لعنتیں پڑیں۔

جب تک دوستداران اہلبیت علیہم السلام اور پیروکاران امام سجاد، سنت امام زین العابدین پر عمل نہیں کریں گے ہمارا منبر ٹھیک نہیں ہوسکےگا۔منبر ٹھیک ہوجائے تو اصلاح معاشرہ بہت آسان ہوجائے گی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .