تحریر: جناب ضیاء زیدی
حوزہ نیوز ایجنسی | عزاداری میں منبر کا مقام وہی ہے جو انسان کے بدن میں سر کا مقام ہے۔ بدن کے تمام اعضاء دماغ کے تابع ہوتے ہیں۔ اگر کسی عضو کا رابطہ دماغ سے منقطع ہو جائے تو وہ عضو صحیح طریقے سے کام نہیں کرتا۔ اسی طرح عزاداری میں بانیانِ مجالس، سوز خوانوں، نوحہ خوانوں، ماتم داروں، شعراء و سامعین اور انجمنوں کو منظم کرنے کے لئے اور تحریکِ عزا کو صحیح رخ پر رواں دواں رکھنے کے لئے منبر سے ہدایت اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح سے انسان کا سر اس کے جسم کے بلند و بالا مقام پر ہوتا ہے اسی طرح منبر اُس بلند و بالا مقام کو کہتے ہیں جہاں سے وعظ و نصیحت کا کام انجام دیا جائے۔
جہاں تک منبر کی شکل و صورت اور بناوٹ کا سوال ہے رسولؐ اللہ کے زمانے سے آج تک یہی دیکھا گیا ہے کہ یہ عام طور سے لکڑی، پتھر یا اینٹوں کا بنا ہوا زینے کی طرح ایک ڈھانچا ہوتا ہے جس پر چھڑھ کر خطیب خطبہ دے سکے۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر منبر کی بناوٹ زینے جیسی ہو اور نہ یہ ضروری ہے کہ منبر کی شکل کے ہر ڈھانچے کو منبر کہا جائے۔ مثلاً تاریخ میں ملتا ہے کہ رسولؐ اللہ کا پہلا منبر کھجور کے پیڑ کا وہ تنا تھا جس سے ٹیک لگا کر آپ خطبہ دیتے تھے۔ اونٹوں کے کجاؤں کے ڈھیر پر کھڑے ہو کر اعلانِ حق کیا گیا تو اسے غدیر کا منبر کہا گیا اس کے برعکس شام میں منبر کی شکل و صورت کے ڈھانچے کو امام نے لکڑیوں کا ڈھیر کہا منبر نہیں کہا کیوں کہ اس سے باطل نظریے کی اشاعت ہوتی تھی۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تعلیماتِ اہلبیتؑ کی تبلیغ کے لئے یا پیغام کربلا کی نشرو اشاعت کے لئے یا قرآن و احادیث و دینِ حق کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے چاہے کرسی رکھی جائے یا وہ کوئی ٹیلہ ہو، stage ہو، podium ہو، تخت ہو سب کو منبر ہی سمجھا جائے گا۔ بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ اگرایسی بات کرنا چاہتے ہیں جسے وہ تعلیماتِ دین کے خلاف سمجھ رہے ہیں تو وہ منبر پر نہیں جاتے بلکہ منبر کے بغل میں کھڑے ہو کر اپنی بات کہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو یہ جان لینا چاہیئے کہ غلط نظریات کو کسی جگہ سے بھی نشر کرنا صحیح نہیں ہے۔ اسلامی اور حسینی platform سے ایسا کرنا تو اس سے بھی بڑا جرم ہے۔
خلاصہ یہ کہ تحریکِ عزاداری میں منبرکا بہت اہم رول ہے۔ اس کے مقام اور تقدس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اس بات کا ہر وقت خیال رکھنا ہے کہ منبر سے مقصدِ امام حسینؑ کے لئے کام ہو رہا ہے یا نہیں۔ کیا امّت کی اصلاح کے لئے قدم اُٹھائے جا رہے ہیں؟ کہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو نظر انداز تو نہیں کیا جا رہا ہے؟ کہیں سیرت رسولؐ و آل رسولؑ کو رائج کرنے کی کوششوں میں تساہلی تونہیں ہو رہی ہے؟۔ اس تحریک سے جڑا ہر شخص اپنی اپنی ذمہ داری پوری کرے تو ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن جائے۔
آئیے منبر سے تعلق رکھنے والی کچھ مشکلات پر غور کریں اور اُن کا حل تلاش کریں۔
(1) اصلاحِ اُمّت سے کیا مراد ہے؟:
(الف) کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ اُمّت کی اصلاح سے امام حسینؑ کی مراد اُمۤت کے عمل کی اصلاح نہیں ہے بلکہ اُن کے عقیدۂ امامت و ولایت کی اصلاح ہے۔ معلوم نہیں بعض لوگوں نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ امام حسینؑ لوگوں کے عمل کی اصلاح کے لئے نہیں اٹھے تھے بلکہ وہ صرف عقیدۂ امامت و ولایت کے تحفظ کے لئے اٹھے تھے۔ جبکہ امام حسینؑ کے بہت سے اقوال ایسے ملتے ہیں جس میں عمل کی اصلاح بھی شامل ہے۔ مثلاً مولا نے مقام بیضہ میں جو خطبہ دیا اس میں فرمایا : لوگو! خبردار ہوجاؤ یہ لوگ (یعنی بنی امیّہ) شیطان کی اطاعت قبول کر چکے ہیں۔ اور رحمان کی اطاعت سے آزاد ہوگئے ہیں۔ ان لوگوں نے خدا کی زمین کو فساد سے بھر دیا ہے حدود و احکام الٰہی کو پامال کردیا ہے۔ مال غنیمت میں سے اپنے لئے زیادہ وصول کرنے لگے ہیں ، خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کر لیا ہے اور حلال چیزوں کو حرام کر دیا ہے۔ اس لئے میں حق بجانب ہوں کہ مجھے غیرت آئے۔ (تاریخ طبری ج:5، ص: 403)
اسی طرح امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے متعلق ایک خطبے کے آخر میں دعا کرتے ہؤے امام نے فرمایا: بارالٰہا! تو خود جانتا ہے کہ ہمارا قیام بادشاہوں سے دنیاوی رقابت اور دنیا داری کے بنا پر نہیں ہے بلکہ صرف اس وجہ سے ہے کہ دنیا میں تیرے دین کی نشانیاں دکھائیں، تیری زمین پر اصلاح و خوشبختی کو رواج دیں اور تیرے مظلوم بندے آسودگی کے ساتھ زندگی بسر کریں اور تیرے فرائض و واجبات اور اسلامی سنّتوں پرعمل ہو۔ (تحف العقول: ص 237)
(ب) دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اصلاح امّت میں عقیدے کی اصلاح سرِ فہرست ہے۔ اور عقیدے میں امامت و ولایت کا عقیدہ وہ ہے جسے اُمّت نے بھلا دیا۔ غیر تو غیراپنوں میں بھی بہت سے ایسے ہیں جنھوں نے امامت و ولایت کے عقیدے کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ولایت کا مفہوم نوجوانوں کے لئے اس طرح واضح کریں اور انھیں اس طرحmotivate کریں کہ وہ مولا کو اپنا حاکم مانتے ہوئے ان کے احکام معلوم کرنے، انھیں سمجھنے اور انھیں اپنی زندگی میں اتارنے کی دل و جان سے کوشش کرنے لگیں۔
(ج) تیسری بات یہ ہے کہ کیا امامؑ زمانہ ظہور کے بعد صرف عقیدے کی اصلاح کریں گے؟ یا معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرتے ہوئے زندگی کے ہر شعبے کی اصلاح کریں گے؟
(2) کیا مسجد کے منبر اور امام بارگاہوں کے منبر میں فرق ہے؟:
بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ مسجدوں میں منبروں کا کام وعظ و نصیحت ہے اور امام بارگاہوں میں منبروں کا کام فضائلِ اہلبیتؑ بیان کرنا ہے۔ معلوم نہیں لوگوں نے منبروں کو کس بنا پر تقسیم کردیا۔ جبکہ رسولؐ اسلام
نے مسجد کے منبر سے اہلبیتؑ کو پہچنوایا بھی ہے اور شریعت کے احکام بھی سمجھائے ہیں۔ اور غدیر کے منبر سے ولایت علیؑ کا اعلان بھی کیا ہے اورنماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم بھی دیا ہے، مناسک حج بھی بیان کیۓ ہیں، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے کی تاکید بھی کی ہے غرض کہ اس طویل خطبے میں حرام و حلال، واجبات و محرمات سے لے کر تقویٰ الٰہی اختیار کرنے تک سب کچھ تو بیان کردیا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح ایک سازش کے تحت دین اور سیاست کو الگ کرنے کی کوشش کی گئی اسی طرح کہیں ایسا تو نہیں کہ منبر کو بھی تقسیم کرنے کے پیچھے بھی کوئی سازش ہو تاکہ معاشرے کے ایک بڑے طبقے کو معصومینؑ کی تعلیمات اور اُن کے احکام سے دور کیا جا سکے۔
(3) ذاکری تبلیغی ہو یا فضائلی؟:
بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ فلاں صاحب تبلیغی مجلس پڑھتے ہیں یا فلاں صاحب فضائلی مجلس پڑھتے ہیں۔ یہ بھی عجیب تقسیم ہے۔ لوگوں کے ذہن میں جو فضائلی مجلس کا تصور ہے وہ یہ کہ ایسی مجلس جس میں معصومینؑ کے صرف اور صرف فضائل و مصائب بیان کئے جایئں اور بس، لیکن اگر معصومینؑ کے فضائل و مصائب سے سبق لینے کے لئے اُن کا تجزیہ کریں اور نصیحت حاصل کریں تو اسے فضائلی مجلس نہیں کہتے۔ اس کو لوگ تبلیغی مجلس کہتے ہیں بلکہ اس طرح کی مجلسوں کے لئے تو بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ مجلس کہاں ہے یہ تو درس ہے۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ کبھی کبھی تجزیہ و تحلیل کرنے میں مجلس خشک ہو جاتی ہے اس لئے ذاکرین کو چاہئے کہ اپنی خطابت میں کچھ باتیں جذباتی انداز میں بھی بیان کریں تاکہ سامعین کو یہ محسوس ہو کہ اُن کے جذبئہ محبت میں اضافہ ہوا ہے۔
(4) کیا منبر سے تبرّا کرنا صحیح ہے؟:
تبرّا یعنی خدا، رسولؐ اور اٰلِ رسولؑ کے دشمنوں سے برأت اور بیزاری۔ تبرّا فروعِ دین میں ہے اور کوئی شیعہ اس کا انکار نہیں کر سکتا۔ دشمنوں سے بیزاری کا مطلب دشمنانِ دین کے عمل اور طور طریقے کے خلاف ہونا۔ یا یہ ظاہر کرنا کہ ہمارا اُن ظالموں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ظالموں پرلعنت بھی اظہارِبرأت کا ایک طریقہ ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم منبروں سے کسی کے مقدسات کی توہین کریں اور اظہارِ برأت کے لئے برے الفاظ، غیرمہذّب اورنا شائستہ طریقے ایجاد کریں۔ اِس کی اجازت نہ قرآن نے دی ہے، نہ معصومینؑ نے دی ہے اور نہ مراجع کرام دیتے ہیں۔ ہاں! اعمالِ عاشورہ میں اوراُنّیسویں رمضان المبارک کی شب کے اعمال میں لعن کی تسبیح پڑھی جاتی ہے، زیارتِ عاشورہ میں امام مظلوم کے قاتلوں پرلعنت ہے۔ ظالموں پرلعنت یعنی اُن کے لئے بد دعا کرنا۔ لیکن اِس میں بھی احتیاط کی ضرورت ہے کہ اِس کی وجہ سے سماج میں انتشارنہ پیدا ہو۔ شائد اسی لئے زیارتِ عاشورہ کے لئے لکھا ہے کہ صحرا میں پڑھے یا گھرکی چھت پر پڑھے۔
یہ تھا ایک رُخ۔ اب آیئے منبروں سے تبرّا کرنے کا دوسرا رُخ دیکھتے ہیں۔ منبر کا مقصد تعلیماتِ معصومینؑ، پیغام کربلا اورحقائق کو لوگوں تک پنہچانا ہے۔ فرش عزا وہ platform ہے جہاں ہمیں چاہئے کہ ہر مکتبِ فکر، ہر مذہب و ملّت اور ہر مسلک کے لوگوں کو دعوت دیں تاکہ جو لوگ اب تک دشمنوں کی سازشوں اور جھوٹے پروپیگنڈوں کی وجہ سے غافل تھے وہ بیدار ہوں۔ اگر ہم حقائق کو مہذّب اور شائستہ انداز سے پیش کریں گے تو بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھلیں گی۔ نہ جانیں کتنے ' حُر' معاشرے میں موجود ہیں جنہیں ہدایت کی ضرورت ہے۔ افسوس ہے کہ ہماری نادانی اور غلط روِش نے انہیں فرش عزا سے دور کر دیا ہے۔ ہمیں پھر سے ایسا ماحول بنانا ہوگا کہ دوسری قومیں آئیں تو اچھے تاثرات لے کر جائیں۔ اس فرش پر ان کے بہت سے شبہات کا اِزالہ ہو سکے۔
(5) منبر سے معاشرے کی اصلاح کس طرح کریں؟:
(الف) معاشرے کی اصلاح کسی ایک آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اِس کے لئے سماج کے ہر شعبے سے لوگوں کو اُٹھنا ہوگا۔ ہر شعبے کے لوگوں کو جوڑنے کے لئے ایک تحریک کی ضرورت ہو گی اور تحریک شروع کرنے کے لئے ایک یا چند با صلاحیت، با عمل، با بصیرت اور مخلص علما و دانشوروں کو اُٹھنا ہوگا۔ سماج کی مشکالات پرغور کرنا، معاشرے میں پھیلی ہوئی خرابیوں کو سمجھنا، ان کا حل تلاش کرنا، حکمتِ عملی کے ساتھ لائِحَۂ عمل تیار کرنا اورپھراس منصوبے پر متحد ہو کر منظم طریقے سے کام کرنا۔ یہ سب بغیر منبرکے ممکن نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر منبر سے ہم صرف زبانی رہنمائی کرتے رہیں گے تو شائد ہی اس کا کوئی مثبت اثر دکھائی دے۔ منبر سے لوگوں کو guide اور motivate بھی کرنا ہوگا اور زمین پر اتر کے لوگوں کے ساتھ کام بھی کرنا ہوگا۔
(ب) معاشرے میں مشکلات کی فہرست لمبی ہے اس لئے سب پر ایک ساتھ کام نہیں ہو سکتا۔ ہمیں مسائل کی اہمیت کو سمجھ کراورurgency کو دیکھ کر priority fix کرتے ہوئے کام کرنا ہوگا۔ اس تحریک سے جڑے تمام علماء اور ذاکرین مل کر جس مسئلے کو سب سے اہم قرار دیں اسی موضوع پرپورے سال مجلسیں بھی پڑھیں۔ اور اسے ایک تحریک کی شکل دیں۔
(6) نوجوانوں کو منبر کے قریب کیسے لائیں؟:
عام طور سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ مجلسوں میں اکثرنوجوان امام بارگاہوں کے باہر کھڑے ہوئے باتیں کرتے رہتے ہیں۔ اور جب نوحہ شروع ہوتا ہے تب اندر جاتے ہیں۔ بعض بزرگ حضرات اس بات پر نوجوانوں کو نصیحت بھی کرتے ہیں اوراس بری عادت کا ذمہ دار بھی انہیں کو سمجھتے ہیں۔ اگر ہم اس مسئلے کی تہ تک پہنچ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کچھ بنیادی مشکلیں ایسی ہیں جن کا نتیجہ یہ ہے کہ آج نوجوان منبر سے دور ہوتے جا رہے۔ چند بنیادی مشکلیں یہ ہو سکتی ہیں، مثلاً:
(الف) ماحول کا اثر۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ گھریا محلے یا اسکول یا حلقئہ احباب کے طور طریقے کا گہرا اثرنوجوانوں کی سوچ پر پڑتا ہے جوانہیں غیر سنجیدہ بنا دیتا ہے۔
(ب) احباب کا دباؤ : کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک نوجوان ذاتی طور پر سنجیدہ ہوتا ہے لیکن احباب کے دباؤ یا بہکاوے میں آکر فرش پر نہیں بیٹھتا۔
(ج) دینی تعلیم کی کمی: ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ آج نو جوان دینی تعلیم سے دور ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ذاکر کی خطابت اسے ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آتی۔ ظاہر ہے کہ جب آدھی باتیں سمجھ میں نہیں آئیں گی تودلچسپی کیسے پیدا ہو گی؟ پہلی تین مشکلوں کو دور کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہر شہر اور ہر گاؤں میں اسلامی کلاسز چلائی جائیں اور منبروں سے ان کلاسز کوpromote کیا جائے۔
(د) ذاکری کا موضوع، زبان اوراندازِبیان: اگرذاکراپنی مجلس کے موضوع کا انتخاب اس طرح سے کرے کہ نوجوانوں کی زندگی کے مسائل پر بات ہو اور اُن کا حل قرآن اور سیرتِ معصومین کی روشنی میں بتایا جائے تو یقین ہے کہ نوجوانوں میں دلچسپی پیدا ہوگی۔ بشرطیکہ عربی اور فارسی کے الفاظ اور اصطلاحوں سے بچتے ہوئے آسان بول چال کی زبان میں بات کی جائے۔ اور انہیں اشاروں، کنایوں، استعاروں اور الفاظ میں الجھائے بغیرمفاہیم کو صاف صاف بیان کیا جائے تاکہ بات دو اور دو چار کی طرح واضح ہو جائے۔ نوجوانوں کوmotivate کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اچھی کار کردگی پرانہیں سراہتے ہوئے اصلاح کی جائے تو اس کا اثراچھا ہوگا۔ اندازِ بیان اچھا اور زبان میں مٹھاس ہوتو نوجوان ضرور قریب آئیں گے ۔ زبان کی تلخی اور اعتراضات کی زیادتی سے وہ دور بھاگتے ہیں۔
(7) منبر کا تقدس :
دنیا کے دوسرے ذرائع ابلاغ (media) اورمنبرمیں بہت فرق۔ جن میں سے ایک فرق یہ ہے کی وہاں تقدس نہیں ہے لیکن یہاں تقدس ہے۔ اس تقدس کا اندازہ ہمیں نماز جمعہ میں ہوتا ہے۔ یہاں جوشخص امام کے فرائض انجام دے گا وہی منبر سے خطبہ بھی دے گا۔ یعنی امامِ جمعہ کے لئے جو شرائط ہیں وہی خطیبِ جمعہ کے لئے بھی ہیں۔ منبر سے کوئی غیرمعتبربات نہیں کی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ منبر سے کہی ہوئی باتوں کو لوگ فرمانِ خدا و رسولؐ سمجھتے ہیں۔ اور اس پر اعتبار کرتے ہیں۔
لیکن مشکل یہ ہے کہ بہت سے ایسے ذاکرین سرگرم ہیں جن کے قول و فعل کا کوئی اعتبار نہیں۔ منبر سےغلط نظریات وعقائد اوربے بنیاد روایات پیش کر کے اس کا تقدس پامال کرنے کی کوشش میں ہمیشہ مصروف رہتے ہیں۔ اِس مشکل کو کیسے حل کیا جائے یہ ایک بڑا سوال ہے۔ بہرحال اس طرح کے کام کئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً:
(الف) اِس کا علاج ایک یہ ہے کہ اسلامی کلاسز کے ذریعے بچوں اورنوجوانوں میں دینی شعورپیدا کیا جائے تاکہ غلط افکار کی تبلیغ کرنے والے ذاکرین کا اثران پر نہ ہو۔
(ب) دوسرا علاج یہ ہے کہ سنجیدہ اوربا صلاحیت علماء بعدِ مجلس سوال و جواب کا سلسلہ رائج کریں۔ اگریہ سلسلہ رائج ہو گیا توغیرسنجیدہ ذاکرین سدھرجائیں گے۔
(ج) تیسرا علاج یہ ہے کہ نوجوانوں کے ذہنوں میں ایسے ذاکرین جوغلط فہمیوں اور شبہات کے بیج بو رہے ہیں اورغلط استدلال کے ذریعے باطل نظریوں کو صحیح ثابت کر رہے ہیں۔ ان سب کے جواب عام فہم زبان میں منبروں سے بھی بیان کیئے جائیں اور سوشل میڈیا میں بھی وائرل کیئے جایئں۔
(8) سیاسی بصیرت :
دشمنانِ اسلام صدیوں سے دین کے خلاف کوئی نہ کوئی سازش کرتے آئے ہیں لیکن انبیاء، اوصیاء، ائمہ اورعلماء حق نے سیاسی بصیرت اورحکمتِ عملی سے ان کی سازشوں کوہمیشہ نا کام کیا۔ آج بھی دنیا کی طاغوتی طاقتیں اسلام کے خلاف چالیں چل رہی ہیں۔ اگرہمارے مراجع اورعلماء میں سیاسی بصیرت نہ ہوتی توہم دشمنوں کے جال میں پھنس جاتے۔ اس لئے ہمیں پھونک پھونک کے قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہرلمحہ یہ خیال رکھنا ہوگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم منبروں سے ایسی باتیں کر جائیں جن سے دشمنوں کی سازشیں کامیاب ہوں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہر خطیب اور ذاکر مراجع کرام کی تقاریر و پیغامات پر نظر رکھے اور ان کی guide lines پر سختی سے عمل کرے۔
(9) مخاطَب کا تعین :
اکثریہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ذاکرین و خطبا اپنی خطابت میں اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ ان کا مخاطَب کون ہے۔ مثلاً اگرخالص مومنین کا مجمع ہو تو وہاں ایمان ابوطالبؑ ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اُن کے سامنے تو ایسے مسائل پر گفتگو ہونی چاہیئے جن کی انہیں ضرورت ہو۔ اگر ایسے مجمع کو خطاب کر رہے ہیں جہاں اہل سنت بھی ہوں تو وہاں اُن موضوعات کا انتخاب کرنا چاہیے کہ جس سے اُن کے عقائد سے متعلق شبہات دور ہو سکیں۔ اوراگرچوراہوں پر تقریر کرنی ہوجہاں غیرمسلمین بھی ہوتے ہیں تو وہاں اسلام نے جوانسانیت کا پیغام دیا ہے وہ پنہچانا چاہیے۔
(10) اندازِ بیان:
یہ ایک ایسا موضوع ہے جس میں کچھ باتوں پر بہت زیادہ دھیان دینے کی اوراحتیاط کی ضرورت ہے۔ مثلاً:
(الف) قرآن کہتا ہے: 'آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ دعوت دیں اور ان سے اس طریقہ سے بحث کریں جو بہترین طریقہ ہے' (انحل : 125)۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمیں چاہیئے کہ نرم اوراچھے لہجے میں لوگوں سے خطاب کریں۔ لیکن کبھی تو ہمارا لہجہ ایسا ہوجاتا ہے کہ جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم سامعین کو ڈانٹ رہے ہوں۔ اورکبھی ہمارا طریقہ ایسا ہوتا ہے کہ سننے والے کوایسا محسوس ہوتا ہے کہ سامنے جو لوگ بیٹھے ہیں وہ سب بے عمل ہیں، صرف ہم ہی متقی اور پرہیزگار ہیں۔ کسی کو ذلیل کر کے اور اس کی عزت نفس پر حملہ کر کے ہم اصلاح نہیں کر سکتے۔
(ب) ممکن ہے بعض لوگ یہ کہیں کہ ہمیشہ نرم لہجہ کارگر نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی سخت لہجے کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ معصومین نے بھی بعض اوقات لوگوں کی اصلاح کرنے کے لئے سخت لہجے سے کام لیا ہے۔ بات تو صحیح ہے لیکن معصومین نے زیادہ تر نرمی سے بات سمجھائی ہے۔ بہت کم مواقع ایسے ہیں جہاں انہوں نے سخت لہجے میں اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی مثال ویسی ہی ہے جیسے ایک ڈاکٹر جب کسی عام بیماری کا علاج کرتا ہے تو زیادہ ترایسی دوائیں دیتا ہے جس کا کوئی side effect نہ ہو۔ لیکن جب کسی خطرناک مرض کا علاج کرنا ہوتا ہے توعام دوایئں کام نہیں کرتیں۔ ایسے میں سخت دوایئں دی جاتی ہیں۔ لیکن سخت دوایئں یوں ہی نہیں دی جاتیں۔ اس کے لئے بہت کچھ سمجھنا ہوتا ہے۔ صحیح وقت پر، صحیح مقدارمیں اور صحیح طریقے سے دی جاتی ہیں۔ ذرا سی چوک ہو جائے تو دوا کاreaction جان لیوا ہو سکتا ہے۔ اس لئے اگرایک مبلغ علم نفسیات کا بھی ماہرہو تو وہ بہت سوچ سمجھ کے کسی خاص موقع پر سخت لہجے کے ذریعے اصلاح کرے ورنہ بہتر یہی ہے کہ نرم لہجے سے ہی اصلاح کرے۔
(ج) نصیحت کرنے میں کبھی طنز نہیں کرنا چاہیئے اس سے معاملہ بگڑ جاتا ہے۔ جو لوگ نشانے پر نہیں ہوتے وہ لوگ تو واہ واہ کرتے ہیں لیکن جس پر طنز کیا گیا ہے وہ چِڑھ جاتا ہے اور اپنی اصلاح کرنے کے بجائے ضد میں آ کے برائی کو ترک نہیں کرتا۔
(د) الفاظ کے انتخاب میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ کتنی مرتبہ ایسے واقعات دیکھے گئے ہیں کہ مبلغ مخلص ہے اور جو پیغام وہ پنہچانا چاہ رہا ہے وہ بہت اہم ہے لیکن کسی ایک لفظ کے انتخاب میں ذرا سی غلطی نے ہنگامہ برپا کر دیا اور اصل پیغام کنارے ہو گیا۔
خلاصہ یہ کہ عزاداری اور یہ منبرایک ایسا platform کہ جس سے انقلاب لایا جا سکتا ہے اور ایک ایسا مثالی معاشرہ بنایا جا سکتا ہے جو دوسری قوموں کے لئے نمونہ ہو۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب اپنے اپنے فرائض کو سمجھیں اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس قابل بنا دے کہ ہم امام حسین (علیہ السلام) کی آوازِ استغاثہ پر لبیک کہتے ہوئے کھڑے ہوں اور امامؑ زمانہ کے ظہور کے لئے راہ ہموار کر سکیں۔