۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
شبیر میثمی

حوزہ / شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل نے موجودہ حالات کے تناظر میں حوزہ نیوز ایجنسی کی جانب سے مطرح سوالات کے جوابات دئے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور چیئرمین زہرا (س) اکیڈمی علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی نے پاکستان کے موجودہ ملکی اور مذہبی حالات کے تناظر میں حوزہ نیوز ایجنسی کی جانب سے مطرح کئے جانے والے سوالات کے جوابات دئے ہیں۔ جنہیں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

حوزہ: براہ کرم پاکستان میں تشیع کو درپیش مسائل اور ان کے راہ حل پر روشنی ڈالیں۔

حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر شبیر حسین میثمی: پاکستان میں تشیع کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنانا چاہتے ہیں، اپنا ناکچھ دکھانا چاہتے ہیں۔ خاص کر جب سے سوشل میڈیا آیا ہے۔ چاہے وہ تنظیم کے اندر کے لوگ ہوں یا باہر کے لوگ ہوں۔ وہ یہ سمجھتے ہی نہیں ہیں کہ مرکزیت ایک فطری عمل ہے۔ مرکزیت کے بغیر سسٹم ہی ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن کیونکہ سوشل میڈیا ہاتھ میں ہے تو اب ہر کوئی اپنی بات اور اپنے آپ کو بڑا دکھانا چاہتا ہے۔ اسی کی وجہ سے پھر پھوٹ پڑتی ہے، اسی کی وجہ سے پھر اختلافات جنم لیتے ہیں اور چیزیں خراب ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ تو شیعہ بلکہ ہر کمیونٹی کا مسئلہ لوگوں کی عدمِ تربیت، لوگوں کی انانیت، لوگوں کی خودپسندی اور جاہ طلبی بہت بڑا مسئلہ ہے۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ الگ الگ طریقوں سے شیعوں کے درمیان بھی اختلافات ڈالے جا رہے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ جان بوجھ کر ڈالے جا رہے ہیں اور شیعہ سنی اختلافات کو بھی شدید کیا جا رہا ہے اور یہ چیز تمام عالمِ اسلام کے لئے خطرناک ہے۔ خاص کر مکتبِ تشیع کے پیروکاروں کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔

لوگوں کی خودپسندی اور جاہ طلبی بہت بڑا مسئلہ ہے

حوزہ: حالیہ سب سے مہم مسئلہ زائرین اربعینی کی سفری مشکلات ہیں۔ ان مسائل کے حل اور پاکستانی زائرین کے لئے آسان زیارت کے حصول کے لیے کیا اقدامات انجام دئے گئے ہیں؟

حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر شبیر حسین میثمی: ہمارے حالیہ زائرین کے مسائل میں جہاں بعض کاروان سالاروں کے خاص کر ایسے کام جنہیں میں کھل کر تو نہیں کہہ سکتا لیکن ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو وہ چھپ کر کرتے ہیں اور پھر زائرین کو اذیت بھی دیتے ہیں۔ یہ زوار کی شکل میں قافلہ لے کر جاتے ہیں اور قافلے کے ضمن میں بہت سی دوسرے امور بھی انجام دیتے ہیں۔ البتہ میں سب کی بات نہیں کر رہا بعض لوگ ہی ایسا کرتے ہیں اور اس میں بہت کچھ آ جاتا ہے اور دوسرا مسئلہ کہ بعض چیزیں حکومتی سطح پر بھی ایسی کی جاتی ہیں جس سے دوسرے ممالک ناراض ہوتے ہیں لہذا زائرین کے مسائل اتنے آسان نہیں ہیں کہ میں ایک مختصر جواب میں یا کھل کر بتاؤں۔ زائرین کے پوشیدہ مسائل زیادہ ہیں۔ وہ اصل میں زائرین کے مسائل نہیں ہیں وہ کاروان سالاروں کی شکل میں بعض کام کرنے والوں کے مسائل ہیں جنہوں نے آج یہاں تک بات کو پہنچایا ہے۔

حوزہ:آیا پاکستانی علماء کرام زائرین کی مشکلات کے حل کیلئے کوئی مؤثر وجود بھی رکھتے ہیں یا یہ مسئلہ صرف سیاسی اور حکومتی طریقے سے ہی حل کیا جا سکتا ہے؟

حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر شبیر حسین میثمی: جہاں تک پاکستانی علماء کرام کی بات ہے تو وہ اپنی کوششیں کر سکتے ہیں لیکن جب کاروانوں میں چھپا کر لی جائے جانی والی چیزیں چاہے وہ کرنسی ہو یا چاہے وہ کچھ اور ہو اور زائرین کے نام پر واپس چیزیں لے کر آنا اور مسائل بنانا اور کئی بار زائرین کو وہاں چھوڑ دینا تو اس میں علماء نصیحت کے علاوہ کیا رول پلے کر سکتے ہیں؟۔

سیاسی مسائل بھی ہیں اور اخلاقی مسائل بھی ہیں۔ علماء بس سوائے اس کے کہ لوگوں کو نصیحت کریں، تلقین کریں اس مسئلہ میں اور کچھ نہیں کر سکتے۔

سیاسی مسائل بھی ہیں اور اخلاقی مسائل بھی ہیں۔ علماء بس سوائے اس کے کہ لوگوں کو نصیحت کریں، تلقین کریں اس مسئلہ میں اور کچھ نہیں کر سکتے۔

حوزہ: پاکستان میں تعلیمی نصاب کے مسئلہ میں تشیع پاکستان کے خدشات کی دوری کس حد تک محقق ہوئی ہے؟

حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر شبیر حسین میثمی: پاکستان میں تعلیمی نصاب کے مسئلہ میں الحمد للہ نشاندہی کر دی گئی ہے اور ایک حد تک چیزیں اب اصلاح کی طرف آگے بڑھ رہی ہیں۔ کچھ چیزیں جو ہو چکی ہیں ان کا ازالہ اب آگے چل کر کیا جائے گا۔

یہ قائد ملتِ جعفریہ کی واقعاً دوراندیشی تھی کہ انہوں نے خاص تدبیر سے معاملات کو آگے بڑھایا، بزرگوں نے ساتھ دیا اور الحمد للہ چیزیں اچھی شکل میں آگے بڑھ رہی ہیں ورنہ لوگوں نے خراب کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔

حوزہ : سیلاب سے حالیہ نقصانات کو اجمالا بیان کریں اور متاثرین کی دوبارہ بحالی کے لئے آپ کے پاس کیا عملی راہ حل ہے؟

حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر شبیر حسین میثمی: جہاں تک سیلاب کے حالیہ نقصانات کی بات ہے تو ابھی تک تو سیلاب ختم ہی نہیں ہوا تو ہم آپ کو اس کا اندازہ کیا بتائیں۔ متاثرین کی موجودہ صورتحال کے متعلق ویڈیوز دکھائی جاری ہیں، ہر طرف بتایا جا رہا ہے۔ اور حتی (نقصان اتنا زیادہ ہوا ہے کہ) ان افراد کی بحالی حکومت کے بھی بس کی بات نہیں ہے۔ اور پھر سندھ اور بلوچستان جیسی بے حس حکومتیں جو سیلاب کے دوران بھی لوگوں کی مدد کرنے کے لئے تیار نہ ہوں تو پھر یہ بات کہاں تک جائی گی؟!۔

لوگوں کی خودپسندی اور جاہ طلبی بہت بڑا مسئلہ ہے

سندھ تباہ و برباد ہو گیا، بلوچستان آدھا تباہ ہو گیا۔ جا کر دیکھیں، لوگوں سے پوچھیں کہ حکومتیں کہاں ہیں؟، ذمہ داران کہاں ہیں؟ پتا چل جائے گا۔ سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے کوئی اس بات کو نہیں بتا سکتا کہ کتنا نقصان ہوا اور اس کا راہِ حل کیا ہو گا۔ ہمارا کام ہے کوشش کرنا، آج جب میں آپ سے گفتگو کر رہا ہوں تو تقریباً سو سے زیادہ مقامات پر جہاں ممکن ہے وہاں پکا ہوا کھانا دے رہے ہیں، دوائیاں اور میڈیکل کیمپ لگا رہے ہیں چونکہ (ماہرین کے مطابق) جو بیماری آنے والی ہے وہ آگے چل کر پتا چلے گا وہ ہیروشیما اور ناگاساکی کے ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک اثرات رکھتی ہے۔

حوزہ :سیلاب متاثرین کی امداد رسانی کے امور میں اپنی زحمات اور فعالیت کو بیان کریں اور آیا اب تک اس عمل میں حکومتی اور غیرسرکاری اداروں یا افراد کی سرگرمیاں کافی رہی ہیں؟

حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر شبیر حسین میثمی: میں نے عرض کیا کہ ہم لوگ تقریباً سو سے زیادہ مقامات پر جہاں پکا ہوا کھانا پہنچا رہے ہیں، کراچی میں آئے ہوئے افراد کی کچھ نہ کچھ، مختصر مدد کر رہے ہیں۔ اس وقت ہم مچھردانی کے مسئلہ کو بہت تیزی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ فیکٹریوں سے بات کر رہے ہیں چونکہ یہ بہت بڑی مشکل ہے، مچھر اور حشرات بیماری کا بڑا سبب ہیں، حتی جانور بھی اس وجہ سے بہت اذیت میں ہیں۔

سیلاب متاثرین کی امداد ہم آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں کر سک پا رہے، جتنا بھی ہم کر رہے ہیں وہ کم ہے۔حکومت اور ادارے تو بس اللہ ان کی ہدایت کرے۔ البتہ غیرسرکاری ادارے بہت سارے ہیں جیسے "القائم ٹرسٹ" ہے ، بقیۃ اللہ ڈیزاسٹر سیل" ہے، "جے ڈی سی" ہے، اور بہت سے مکاتبِ پاکستان کے ادارے ہیں شاید مجھے نام بھی یاد نہ ہوں، سب اپنی اپنی توانائی کے مطابق کوششیں کر رہے ہیں۔

لوگوں کی خودپسندی اور جاہ طلبی بہت بڑا مسئلہ ہے

حوزہ : اتحاد بین المسلمین سے کیا مراد ہے؟ لوگوں کے ذہن میں ڈالا جانے والا شبھه کہ "وحدت کا مطلب اپنے دینی اعتقادات و نظریات سے پیچھے ہٹنا ہے"، کی وضاحت کریں؟

حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر شبیر حسین میثمی: یہ جو کہا جاتا ہے کہ "اتحاد بین المسلمین" یعنی اپنے عقائد سے پیچھے ہٹنے کی بات ہے یا اپنی دینی رسومات سے پیچھے ہٹنے کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ نظریہ ان بعض لوگوں کا نظریہ ہے جو میدان میں نہیں ہیں۔ ان کو پتا ہی نہیں ہے کہ حقیقت کیا ہے، حقائق کیا ہیں؟

اتحاد و وحدت کے مسئلہ میں ہم اپنی باتوں کو ایک مثبت انداز میں پیش کریں اور سوشل میڈیا اس وقت ہمارے لئے ایک بہترین طریقہ ہے!

اس لئے ہم اس بات کو قبول نہیں کرتے اور یہ باتیں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اور رہبرِ معظم نے واضح طور پر بتائی ہیں کہ (اتحاد و وحدت کے مسئلہ میں)ہم اپنی باتوں کو ایک مثبت انداز میں پیش کریں اور سوشل میڈیا اس وقت ہمارے لئے ایک بہترین طریقہ ہے اور جہاں تک عملی صورت کی بات ہے تو اس میں ہم چاہے وہ سیاسی میدان ہو یا دوسرے میدان ہوں، ساتھ مل کر آگے چلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان شاء اللہ ہم ساتھ چلتے رہیں گے اور ہمارے قائدِ محترم خود بانیٔ اتحاد بین المسلمین ہیں اور الحمد للہ ان کی رہنمائی اور سرپرستی میں کم از کم پاکستان میں شیعہ سنی مسئلہ اگر کبھی تھا تو آج بالکل باقی نہیں ہے۔جزاکم اللہ خیرا

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .