۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
علامہ شبیر میثمی

حوزہ/ امام جمعہ مسجد بقیۃ اللہ ڈیفنس کراچی نے کہا کہ عرب ممالک بڑی تیزی سے اسرائیل کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ اتنی تیزی سے مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امام جمعہ مسجد بقیۃ اللہ ڈیفنس کراچی و شیعہ علماء کونسل پاکستان کے رہنما علامہ شبیر میثمی نےکہاکہ علامہ شبیر حسن میثمی نے کہاکہ علامہ ڈاکٹر شبیر میثمی نے کہاکہ انقلاب اسلامی سے یہ جملہ باربار دہراتا ہوں تاکہ دماغوں میں بیٹھ جائے، امریکہ کو اس کی نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور نیوکلیئر پاور سے کوئی ڈر نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہاں پر مرجع تقلید بیٹھا ہے جو عادل ہے کسی پر ظلم نہیں کرسکتا۔ ان کو ڈر اس بات کا ہے کہ ایران اس وقت ٹیکنالوجی کے لحاظ سے اتنا آگے نکل گیا ہے کہ مغرب پریشان ہے کہ ہم نے ان کو دبایا ہے لیکن یہ کہاں۔۔۔ یہ سب برکت ہے ائمہ معصومین علیہم السلام کی۔یا رکھئے گا کہ ائمہ معصومین علیہم السلام نے ہر زمانے کے لحاظ سے اصول دے دئیے ہیں۔ ہمارے اور اہل سنت بھائیوں میں جو فرق نظر آتا ہے وہ یہی ہے کہ ان کے ہاں ائمہ معصومین علیہم السلام کے اصول موجود نہیں ہیں۔ ان کے ہاں اپنے خلفاء جن کو وہ خلفائے راشدین کہتے ہیں ان کے اقوال موجود ہیں، ان کے مثلاً فیصلے موجود ہیں، اس کی بنا پر اور پھر چار امام انہوں نے جن کو معین کیا ہے، اللہ نے تو معین نہیں کیا ہے، وہ خود بھی کہتے ہیں کہ جو ائمہ اربعہ ہیں ان کی ہم بات سنتے ہیں اور آگے نکلتے ہیں۔ اسی لئے اہل سنت میں ایک گروہ نکل گیا، اہل حدیث کا۔ کہ ہم تقلید نہیں کرتے۔ ہم بس قرآن و سنت سے جو ملتا ہے وہ لے لیتے ہیں۔ یہ گفتگو بالکل الگ ہے۔ یاد رکھئے گا! آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپائیگانی اسی سلسلہ کی کڑی ہیں جو غیبت امام زمانہ میں دین کی خدمت کر رہے ہیں۔ میری خوش نصیبی تھی جب آیت اللہ العظمیٰ محمد رضا گلپائیگانی اعلی اللہ مقامہ کی خدمت میں ہوا کرتا تھا، تقریباً پورے اٹھارہ مہینے اللہ تعالیٰ نے توفیق دی، ان کی خدمت میں رہا۔ اس وقت آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپائیگانی جو آیت اللہ العظمیٰ محمد رضا گلپائیگانی کے داماد بھی تھے، آتے تھے اور میں مسلسل ان سے استفادہ کرتا تھا۔ آیت اللہ صافی گلپائیگانی کے علم کی بات اپنی جگہ پر لیکن جو ان کی سادگی تھی۔۔۔۔ مثالیں میرے پاس بہت سی موجود ہیں لیکن ہمیشہ دیکھتا تھا کہ اگر کوئی غیر ایرانی آیا ہے۔ ایک ہی ایرانی میں میں نے یہ چیز دیکھی ہے۔

انہوں نے کہاکہ یکساں نصاب کے حوالے سے علامہ سید ساجد علی نقوی صاح، آیت اللہ حافظ ریاض صاحب، محمد حسین اکبر صاحب، علامہ افتخار نقوی صاحب، افضل حیدری صاحب ، شفا نجفی صاحب اور دیگر علماء نے مل کر محنت کی۔ ہمیں کسی سے کوئی طنز یا مقابلہ نہیں کرنا ہے میں اہل سنت علماء سے بھی کہہ چکا ہوں، پھر اہل سنت اور اہل تشیع علماء سے کہتا ہوں کہ یہ ہمیں بھڑانا چاہتے ہیں تاکہ ہم آپس میں لڑتے رہیں اور پھر حکومت کہے کہ بھائی آپ کی تو لڑائیاں ختم ہی نہیں ہوتی ہیں، آؤ ہم ایسا سلیبس بناتے ہیں جو سیکولر ہو۔ ہم یہ قبول نہیں کریں گے۔ جو مشترکات ہیں اس پر آئیے۔ بات کیجئے۔ آیہ مباہلہ پر بات کیجئے۔ آیہ ھل اتی پر بات کیجئے۔ سورہ کوثر پر بات کیجئے۔ پورے قرآن پر بات کیجئے، ہم کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن تاریخ میں کسی کو بڑا بنا دیا گیا، تاریخ میں کچھ کا کچھ کردیا گیا، ہم ایسے کسی زمانے کے حکومت کرنے والے کو نہیں مان سکتے جس نے کل ایمان پر لعن کرائی ہو۔ نہیں سمجھے میری بات۔ آپ مان سکتے ہیں؟ ہم تو نہیں مان سکتے ہیں۔ جن کا ذکر ہر چیپٹر میں ہونا چاہیے، ان کو نکال دیا۔ میری ایک ہی بات ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ یہ ہم مسلمانوں کو آپس میں الگ الگ مسالک کے لوگوں کو بھڑانے کے لئے تاکہ سیکولر اپنا کام کرجائیں۔ آپ لوگ بھی ہوشیار ہوجائیے۔ اپنے بچوں کی کتابیں دیکھئے۔ ہم بھی سلیبس کی کتابیں بنا رہے ہیں تاکہ ایک سلیبس ہماری طرف سے بھی وہاں پہنچ جائے۔ اور اس معاملہ میں جتنا بھی ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ لوگوں سے ہیلپ لیں گے اور اس کام کو کریں گے تاکہ میرا بچہ وہ ورژن پڑھے اسلامیات کا جو اہل بیت علیہم السلام کا ورژن ہے۔ اور اسے تاریخ کی چیزیں پتہ ہو کہ اُحد میں کون بھاگا، کیا ہوا، اور کہاں پر رسول اکرم ﷺ نے غدیر میں کیا اعلان کیا۔ یہ چیزیں ا سے پتہ ہونی چاہئیں۔ اور پھر رسول اکرم ﷺ کے وصال کے بعد کیا ہوا۔ پتہ ہونا چاہیے۔ البتہ ہم آگ لگانے کے قائل نہیں ہیں۔ میرا قائد اتحاد کا بانی ہے تو ہم آگ کیوں لگائیں گے۔ حقائق کو بہتر انداز میں پیش کریں۔ یہ مشترکات ہیں۔ یہ اختلافات ہیں۔ اہل سنت خلافت کو مانتے ہیں۔ اہل تشیع امامت کو مانتے ہیں۔ امامت ان کی نظر میں یہ ہے۔ خلافت ہماری نظر میں یہ ہے۔ ہم ان ان کو خلیفہ مانتے ہیں۔ وہ ان ان کو امام اور رسول کا ۔۔۔ میرا پوائنٹ یاد رکھئے گا کہ یہ صرف ہمارے درمیان فساد کرنے کے لئے تاکہ فساد وہاں تک پہنچے کہ شام بن جائے۔ انشاء اللہ انشاءاللہ جب تک آپ کے گائیڈ اور علماء موجود ہیں انشاء اللہ مملکت خداداد پاکستان کو شام نہیں بننے دیں گے۔

شیعہ علماء کے مرکزی رہنماء نے کہاکہ سلیبس کے مسئلہ پر قائد محترم نے اور پھر آیت اللہ حافظ ریاض صاحب نے ہمیں ٹاسک دیا کہ ون ٹو فائیو کا جو سلیبس ہے، ہم نے ان کو بھیجا ہے لیکن کوئی پازیٹو رسپانس نہیں ملا۔ پھر سکس ٹو ایٹ کے لئے بھی اناؤنس ہونے جا رہا ہے۔ میں آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔ اہل سنت بھائیوں سے آپ بھی جا کر بات کیجئے۔ درود صرف رسول اور آلِ رسول پر وارد ہوا ہے۔ ہے ایسا؟ اہل سنت کے علماء سے پوچھ لیجئے کہ درود میں کون شامل ہے: اللہم صل علی محمد و علی آل محمد۔ اور پھر درود ابراہیمی آگے پڑھ لیں۔ کسی بھی درود میں اصحاب کا نام نہیں ہے۔ اصحاب کی بات آتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اصحاب کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ ہم بھی اصحاب کے ٹھیکے دار ہیں۔ آیت اللہ حافظ ریاض صاحب نے تین قسم کے اصحاب قرآن مجید سے نکال کر بیان کئے ہیں سن لیجئے گا میں اس پر بات نہیں کرتا ہوں۔ سورہ منافقون کس کے بارے میں ہے؟ مسجد ضرار کس کے بارے میں ہے؟ سورہ توبہ کس کے بارے میں ہے؟ چیزیں ہیں ناں؟ اس سے زیادہ میں بیان نہ کروں۔ میرا سوال یہ بنتا ہے کہ یہ کہاں سے آیا: اللہم صل علی محمد و علی آل محمد و علی اصحابہ و سلم۔ ٹیکسٹ بک میں آگیا۔ کم از کم میں اس معاملہ میں سندھ حکومت کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میرے اس سے اختلافات بہت زیادہ ہیں۔ کراچی اس وقت دنیا کا تھرڈ Poluted ترین شہر اعلان ہوا ہے۔ لیکن کم از کم انہوں نے یہ کہا کہ آپ کا یہ سلیبس ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ چاہے دشمنی میں کیا ہو، لیکن ہمارا کام ہوگیا۔ میں ایک مثال دیتا ہوں۔ عمرو عاص آپ کے ہاں محترم ہوگا۔ ہمارے لئے سوال بنتا ہے کہ اس کا احترام میں اپنے بچے کو کیسے سکھاؤں جس نے مولائے کائنات کے مقابلے میں جنگ کی۔ آپ نے کہا کہ ”سنگل نیشنل کریکولم“۔ ایسا کریکولم جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔ اب میں اپنی تحلیل دیتا ہوں۔ کچھ علماء نے میری تحلیل سن کر میری تائید کی ہے۔ آپ بھی سوچئے گا کہ صحیح ہے یا غلط۔ ہوا یہ ہے کہ اسلامیات، تاریخ، اردو، انگلش میں ایسی اختلافی چیزیں ڈال دیں تاکہ شیعہ سنی آپس میں لگے رہیں اور سیکولر اپنا کام کرجائیں۔ اب وہ فرانس سے پیسہ آیا ہے، ٹیکنالوجی آیا ہے، کیا آیا ہے کیا نہیں آیا ہے، اس سے زیادہ میں نہیں کہتا، کیونکہ ہماری اہل سنت کے علماء سے بات ہوئی ہے۔ اور میں مولانا طاہر اشرفی صاحب کا شکریہ بھی کرتا ہوں اور چھوٹی سی عرض بھی کرتا ہوں۔ طاہر اشرفی صاحب! آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہماری بات کو سنا اور فوراً اس کا جواب دیا۔ یعنی جواب بمعنی تھوڑا ناراضگی کا جواب بھی ہے، اور تھوڑا ہمیں پازیٹو جواب بھی ملا۔ ہماری بات سن لی گئی اور سلیبس میں ترمیم کے لئے اعلان کردیا گیا۔

انہوں نے مزید کہاکہ آیت اللہ صافی مرحوم کے پاس اگر کوئی غیرایرانی آتا تھا تو اس کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ کہتے تھے کہ یہ اسلام کے سفیر ہیں، یہ اسلام کا پیغام لے کر جائیں گے۔ آج ہم ان کا ہاتھ ۔۔۔ دیکھیں تصویریں چل رہی ہیں۔ ہم نے بھی اپنے فیس بک پر لگائی ہیں۔ ایک افریقہ کے سیاہ پوش عالم دین، عمامہ پہننے کے لئے آئے، انہوں نے سرجھکایا، عمامہ پہنوایا، اس کے بعد اس کا ہاتھ پکڑ کر چوم لیا۔ چھوٹی بات نہیں ہے۔ پوپ نے کسی کے پیر پکڑے تھے تو اتنی ویڈیوز چلیں کہ کوئی حد نہیں لیکن ہمارے مرجع تقلید نے اتنا بڑا کام کیا تو کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ ہم سست ہیں ، وہ چست ہیں۔ بہرحال تقلید آج کے زمانے میں ضروری ہے تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ ہمیں دینی قوانین میں کس طرح سے آگے بڑھنا ہے۔

انہوں نے کہاکہ عرب ممالک بڑی تیزی سے اسرائیل کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ اتنی تیزی سے مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔ آپ یمنیوں کو باغی کہتے ہیں، حوثی جو اس وقت لڑ رہے ہیں، اپنے حق کے لئے لڑ رہے ہیں، چھوڑ دیجئے کہ ان کا تشیع سے کوئی تعلق ہے۔ ان کا اسلام سے کوئی تعلق ہے۔ کیا حوثیوں پر ظلم نہیں ہوئے؟ کیا ہیومن رائٹس والے اب شور نہیں کر رہے، خاموش رہنے کے بعد؟ لاکھوں بچے سخت بھوک کا شکار ہیں، پریشانی کا شکار ہیں۔ اگر ہم بولنے جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ فلاں کے ایجنٹ۔ عرب ممالک جو کھلے عام ظلم کر رہے ہیں، تم اس کے خلاف خاموش بیٹھے ہو۔ ہم تو اپنے مولا کا یہ قول کہ چاہے ساؤتھ امریکہ میں کوئی ظلم ہو رہا ہو، چاہے فلپائین میں ظلم ہو رہا ہو، چاہے چائنا میں ظلم ہو رہا ہو، ہم آواز اٹھائیں گے۔ مولا فرماتے ہیں: کونا للظالم خصما و للمظلوم عونا۔ جو ظالم ہے اس کے خلاف کھڑا ہونا تمہارا وظیفہ ہے، جو مظلوم ہے اس کی مدد کرو۔ مت دیکھو کہ شیعہ ہے، تمہارا بھائی ہے، سنی ہے، فلاں ہے۔ یہ دیکھو کہ انسان ہے، اگر وہ مظلوم ہے تو اس کی حمایت کرڈالو، اور اگر ظالم تم خود ہو تو تم خود بھی اپنے خلاف کھڑے ہوجاؤ اس لئے کہ تمہارے ظلم کی وجہ سے معاشرہ بگڑ سکتا ہے۔ ہم یمن کے نہتے لوگوں پر بھوک و افلاس سے مجبور لوگوں پر، ان کے ہاسپٹلز پر ان کے اسکولوں پر، ان کی ہر چیز پر جو وہ بے گناہ ہونے کے باوجود ان پر حملے ہو رہے ہیں، اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ ہم قطعاً قطعاً ان لوگوں کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں کیونکہ ہمیں تم اپنے ارادے سے نہیں روک سکتے ہو۔ کل کو آجائیں کہ جناب یہ ہوگیا، وہ ہوگیا۔ یاد رکھئے گا! آپ مظلوم کی حمایت میں نکلے، اتفاقاً وہ اہل بیت کے چاہنے والے اور ان میں اکثر زیدی شیعہ بھی ہیں، لیکن ہمارا تعلق اس قولِ معصوم سے ہے جس کی بنا پر ۔۔۔۔ کل کشمیر ڈے پر ہم بھرپور کشمیریوں کی حمایت کریں گے۔ ہم کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو بھول نہیں گئے۔ ہم یاد رکھتے ہیں۔ فلسطینیوں کو ہم بھول نہیں رہے تو ہم حوثیوں کو کیسے بھول جائیں کہ جن پر ظلم ہو رہا ہے۔ اور اب تو انٹرنیشنل بھی شروع ہوگیا ہے، اللہ کا شکر ہے۔ اور مجھے تعجب ہے۔۔۔ ویسے تعجب ہونا نہیں چاہیے۔۔۔ امریکہ پر جس نے امارات کو پوری مدد دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بائیڈن صاحب آئے، کہنے لگے ہم یوں کریں گے، ہم یوں کریں گے۔ ہم اسلحہ بند کردیں گے بیچنا۔ تین مہینے میں پنکچر ہوگئے۔۔۔۔ تین مہینے نہیں لگے، کیوں؟ پیچھے سے بندوق رکھ دی ان لوگوں نے جو اسلحہ بیچتے ہیں کہ بھائی اسلحہ آئے گا، بکے گا تو تیرا کمیشن نکلے گا ورنہ الیکشن کے ملین آف ڈالرز ہم نے تمہیں فری میں دئیے ہیں؟ یہ ہے ڈیموکریسی۔ یہ جو پاکستان میں آپ دیکھ رہے ہیں یہ ڈیموکریسی کا بھی مذاق ہے۔ پارلیمنٹ مذاق بنا ہوا ہے۔ میرے اور آپ کے ٹیکس کے پیسوں سے پارلیمنٹ والے کھیل رہے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .