۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
مولانا نثار حسین حیدر آقا

حوزہ/ مباہلہ کسی مسئلہ کو دلیلوں سے سمجھانے کے باوجود طرف مقابل اگر ماننے سے انکار کرے اور لجاجت و ہٹ دھرمی کرے تو سب سے آخری حربہ کہ جس کے ذریعے سے کسی بھی مسئلہ کو سمجھایا جاسکتا ہے وہ مباہلہ ہے۔

تحریر: ڈاکٹر مولانا سید نثار حسین ( حیدر آقا)

حوزہ نیوز ایجنسی |فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذذِبِينَ۔ سورہ آل عمران ۶۱

پیغمبر، علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔

مباہلہ کا لغوی معنیٰ : آزاد کرنا ۔کسی چیز سے قید و بند اٹھانا۔

اصطلاح میں دو لوگ یا دو گروہوں کا اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے ایک دوسرے پر نفرین و لعنت کرنا تاکہ جو حق پر ہو اسے پہچانا جائے اور جو باطل پر ہے اس پر اللہ کا عذاب نازل ہوجائے ۔

مباہلہ کسی مسئلہ کو دلیلوں سے سمجھانے کے باوجود طرف مقابل اگر ماننے سے انکار کرے اور لجاجت و ہٹ دھرمی کرے تو سب سے آخری حربہ کہ جس کے ذریعے سے کسی بھی مسئلہ کو سمجھایا جاسکتا ہے وہ مباہلہ ہے لہٰذا کسی بھی حق بات کی حقانیت کو تمام تر دلیلوں کے باوجود کوئی فائدہ نظر نہ آئے تو اس بات کی حقانیت کو سمجھانے کے آخری وسیلہ کو مباہلہ کہا جاتا ہے لہٰذا عام طور پر جب مباہلہ کا تذکرہ ہوتا ہے تو اکثر لوگوں کے ذہن میں صرف ایک دوسرے پر لعنت اور نفرین کرنے کے علاوہ اور کوئی چیز سمجھ میں نہیں آتی حالانکہ مباہلہ دو گروہوں کا صرف ایک دوسرے کو نفرین کرنے کے لئے دعوت دینا ہی نہیں ہے بلکہ حق و حقیقت کو ثابت کرکے اسے دوسرے تک پہنچانے کے لئے دعوت دینا ہے تاکہ حق و حقیقت سارے لوگوں کے لئے روز روشن کی طرح واضح ہوسکے ۔

تاریخ اسلام میں مباہلہ ایک مشہور واقعہ ہے ۔ بات یوں ہے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نےروم کے حاکم کو اسلام کی دعوت دیا یہ قیصر روم عیسائی مذھب تھا جب اسے دعوت ملی تو اس نے صحیح بات سمجھنے کے لئے اپنے علماء سے مشورہ کیا ۔ (اس زمانے میں عیسائیوں کا علمی مرکز یمن کے قریب نجران کا علاقہ تھا ۔ ) قیصر روم نے جب نجران کے عیسائی علماء کو دعوت اسلام کے بارے میں کہا تو ان لوگوں نے مدینہ جاکر رسول اسلام سے گفتگو کرنا مناسب سمجھا لہذا آپس میں مشورہ کرکے ساٹھ علماء کا ایک گروہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے بحث و گفتگو کرنے کیلئے مدینہ آیا اور انہوں نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے پوچھا کہ آپ ہمیں کس چیز کی دعوت دیتے ہیں ؟ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : خداوند واحد و لاشریک کی طرف دعوت دیتا ہوں یعنی حضرت عیسیٰ (ع) و حضرت مریم کو جو تم خدا کا شریک مانتے ہو اُس عقیدہ کو ترک کرنے کی دعوت دیتا ہوں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی (ع) بھی خدا کے برگزیدہ بندہ تھے ، انہوں نے اس بات کو قبول نہیں کیا اور حضرت عیسی (ع)کا صرف ماں سے پیدا ہونے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اگر یہ خدا کے بیٹے نہ ہوتے تو جناب مریم کا کوئی شوہر ہوتا جیسا کہ دنیا کا دستور ہے اور یہی ان کے خدا کا فرزند ہونے پر دلیل ہے تب پیغمبر اکرم (ص) نے ان کی اس دلیل کو رد کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر حضرت عیسیٰ کا باپ نہ ہونا انکے خدا ہونے کی دلیل ہے تو پھر حضرت آدم کو بدرجہ اولیٰ خدا کا فرزند ماننا ہوگا اس لئے کہ وہ بغیر ماں باپ کے وجود میں آئے تو ان کو بھی خدا ماننا چاہئے !

جیسے ہی رسول اکرم ص نے اس بیان کے ذریعے ان کی دلیل کو رد فرمایا تب آیت نازل ہوئی ۔ ’’ إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ

ترجمہ : خدا کے نزدیک تو جیسے عیسیٰ کی حالت ویسی ہی آدم کی حالت کہ اُن کو مٹی کا پتلا بناکر کہا کہ ہو جا پس وہ ( انسان ) ہوگیا۔(آل عمران۔ آیت ۵۹) لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا اور اپنی لجاجت و ہٹ دھرمی پر اڑے رہے تب اللہ کی جانب سے مباہلہ کا حکم آیا ۔فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (آل عمران۔ آیت ۶۱) ۔

ترجمہ : پھر جب تمہارے پاس علم ( قرآن ) آچکا اسکے بعد بھی اگر تم سے کوئی ( نصرانی) عیسیٰ کے بارے میں حجت کرے تو کہو کہ ( اچھا میدان میں ) آو ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو اور ہم اپنی عورتوں کو ( بلائیں ) اور تم …

[6:58 pm, 23/07/2022] Mahmood Bh: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذذِبِينَ

اے حبیب! تمہارے پاس علم آ جانے کے بعد جو تم سے عیسی کے بارے میں جھگڑا کریں تو تم ان سے فرما دو:آو ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنی جانوں کو اور تمہاری جانوں کو (مقابلے میں) بلا لیتے ہیں پھر مباہلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں گے ۔

مباہلہ کا لغوی معنیٰ : آزاد کرنا ۔کسی چیز سے قید و بند اٹھانا۔

اصطلاح میں دو لوگ یا دو گروہوں کا اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے ایک دوسرے پر نفرین و لعنت کرنا تاکہ جو حق پر ہو اسے پہچانا جائے اور جو باطل پر ہے اس پر اللہ کا عذاب نازل ہوجائے ۔

مباہلہ کسی مسئلہ کو دلیلوں سے سمجھانے کے باوجود طرف مقابل اگر ماننے سے انکار کرے اور لجاجت و ہٹ دھرمی کرے تو سب سے آخری حربہ کہ جس کے ذریعے سے کسی بھی مسئلہ کو سمجھایا جاسکتا ہے وہ مباہلہ ہے لہٰذا کسی بھی حق بات کی حقانیت کو تمام تر دلیلوں کے باوجود کوئی فائدہ نظر نہ آئے تو اس بات کی حقانیت کو سمجھانے کے آخری وسیلہ کو مباہلہ کہا جاتا ہے لہٰذا عام طور پر جب مباہلہ کا تذکرہ ہوتا ہے تو اکثر لوگوں کے ذہن میں صرف ایک دوسرے پر لعنت اور نفرین کرنے کے علاوہ اور کوئی چیز سمجھ میں نہیں آتی حالانکہ مباہلہ دو گروہوں کا صرف ایک دوسرے کو نفرین کرنے کے لئے دعوت دینا ہی نہیں ہے بلکہ حق و حقیقت کو ثابت کرکے اسے دوسرے تک پہنچانے کے لئے دعوت دینا ہے تاکہ حق و حقیقت سارے لوگوں کے لئے روز روشن کی طرح واضح ہوسکے ۔

تاریخ اسلام میں مباہلہ ایک مشہور واقعہ ہے ۔ بات یوں ہے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نےروم کے حاکم کو اسلام کی دعوت دیا یہ قیصر روم عیسائی مذھب تھا جب اسے دعوت ملی تو اس نے صحیح بات سمجھنے کے لئے اپنے علماء سے مشورہ کیا ۔ (اس زمانے میں عیسائیوں کا علمی مرکز یمن کے قریب نجران کا علاقہ تھا ۔ ) قیصر روم نے جب نجران کے عیسائی علماء کو دعوت اسلام کے بارے میں کہا تو ان لوگوں نے مدینہ جاکر رسول اسلام سے گفتگو کرنا مناسب سمجھا لہذا آپس میں مشورہ کرکے ساٹھ علماء کا ایک گروہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے بحث و گفتگو کرنے کیلئے مدینہ آیا اور انہوں نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے پوچھا کہ آپ ہمیں کس چیز کی دعوت دیتے ہیں ؟ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : خداوند واحد و لاشریک کی طرف دعوت دیتا ہوں یعنی حضرت عیسیٰ (ع) و حضرت مریم کو جو تم خدا کا شریک مانتے ہو اُس عقیدہ کو ترک کرنے کی دعوت دیتا ہوں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی (ع) بھی خدا کے برگزیدہ بندہ تھے ، انہوں نے اس بات کو قبول نہیں کیا اور حضرت عیسی (ع)کا صرف ماں سے پیدا ہونے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اگر یہ خدا کے بیٹے نہ ہوتے تو جناب مریم کا کوئی شوہر ہوتا جیسا کہ دنیا کا دستور ہے اور یہی ان کے خدا کا فرزند ہونے پر دلیل ہے تب پیغمبر اکرم (ص) نے ان کی اس دلیل کو رد کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر حضرت عیسیٰ کا باپ نہ ہونا انکے خدا ہونے کی دلیل ہے تو پھر حضرت آدم کو بدرجہ اولیٰ خدا کا فرزند ماننا ہوگا اس لئے کہ وہ بغیر ماں باپ کے وجود میں آئے تو ان کو بھی خدا ماننا چاہئے !

جیسے ہی رسول اکرم ص نے اس بیان کے ذریعے ان کی دلیل کو رد فرمایا تب آیت نازل ہوئی ۔ ’’ إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ

ترجمہ : خدا کے نزدیک تو جیسے عیسیٰ کی حالت ویسی ہی آدم کی حالت کہ اُن کو مٹی کا پتلا بناکر کہا کہ ہو جا پس وہ ( انسان ) ہوگیا۔(آل عمران۔ آیت ۵۹) لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا اور اپنی لجاجت و ہٹ دھرمی پر اڑے رہے تب اللہ کی جانب سے مباہلہ کا حکم آیا ۔فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (آل عمران۔ آیت ۶۱) ۔

ترجمہ : پھر جب تمہارے پاس علم ( قرآن ) آچکا اسکے بعد بھی اگر تم سے کوئی ( نصرانی) عیسیٰ کے بارے میں حجت کرے تو کہو کہ ( اچھا میدان میں ) آو ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو اور ہم اپنی عورتوں کو ( بلائیں ) اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنی جانوں کو ( بلائیں ) اور تم اپنی جانوں کو اس کے بعد ہم سب مل کر خدا کی بارگاہ میں گڑ گڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں ۔ مرحوم فرمان علی صاحب ۔

لہذا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مباہلہ کے طریقہ کو نجران کے عیسائیوں کے سامنے بیان کیا اور مباہلہ کرنے کیلئے ایک دن معین کرلیا عیسائیوں کے اسقف اعظم نے (جوکہ ان کا سب سے بڑا عالم دین ہوتا ہے) ان سے کہا :مباہلہ کیلئے آمادہ ہوجائو اور جو دن معین کیا گیا ہے اس دن اپنے وقت پر وہاں پہنچ جانا اور اگر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مباہلہ کے روز اپنے اصحاب ، دوست اور مسلمانوں کے ساتھ آئیں تو ان کے ساتھ مباہلہ کرنا لیکن اگر اپنے بچوں اور رشتہ داروں کو لے کر آئیں تو ان سے مباہلہ نہ کرنا ۔ 24 ذی الحجۃ 9؁ھ، کو مباہلہ کا دن قرار پایا۔

بہرحال وہ دن بھی آگیا اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ابنائنا کی جگہ حسن اور حسین (علیہما السلام) کو لیا اور نسائنا کی جگہ اپنی اکلوتی بیٹی فاطمہ زہرا (س) اور انفسنا کی جگہ علی (ع) کو ساتھ لیا اور آیت ہی کی ترتیب سے لے گئے یعنی آگے آگے اپنے ساتھ حسن و حسین (ع) کو اور درمیان میں اپنی بیٹی حضرت زہرا (س) اور آخر میں علی علیہ السلام کو رکھا ۔ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق رسول اکرم (ص) نے ان حضرات کو جمع کرنے کے بعد فرمایا ۔ اَللّٰھُمَّ ھٰؤ لاء أھلي یعنی اے اللہ! یہی میرے اہل (بیت) ہیں۔

صحیح مسلم: 32/2404 وترقیم دارالسلام: 6220 ۔

اسی طرح تمام علمائے اسلام نے اپنی معتبر ترین کتابوں میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا کہ آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ (ص)نے ابنائنا کی جگہ پر حسنین کریمین علیہما السلام اور نسائنا کی جگہ پر حضرت زھرا سلام اللہ علیہا اور انفسنا کی جگہ پر حضرت علی علیہ السلام کو لے کر گئے تھے ۔

عیسائیوں کے بڑے علماء نے جب یہ منظر دیکھا تو کہا : ہم ایسے چہرے دیکھ رہے ہیں کہ اگر یہ کہہ دیں تو پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دے اور کسی کے لئے بد دعا کردیں تو نیست و نابود ہوجائے یقینا ان کی ہر دعا قبول ہو گی اور خطرہ ہے کہ ان کی نفرین سے تم سب نابود ہوجاو ، لہذا مباہلہ سے پرہیز کرو اور اِن سے کہو کہ ہم مباہلہ نہیں کریں گے بلکہ جزیہ (ٹیکس) دینے کو تیار ہیں ا ور آپ کے ساتھ مسالمت آمیز زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں ،پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے بھی ان کی درخواست کو قبول کرلیا اور مباہلہ نہیں کیا ۔

اس اہم ترین واقعہ میں بہت سارے نکات قابل غور و فکر ہیں لیکن اُن میں سے ایک کو ہم یہاں پر ذکر کرنا ضروری اور لازم سمجھتے ہیں ۔

وہ یہ ہے کہ اسلام اور اس کے تمام احکامات مطابق عقل ہیں اور عقل کے خلاف اسلام کوئی حکم نہیں دے سکتا ہے اور ہمیشہ کسی بھی بات کو دلیلوں اور اچھے انداز میں بیان کرنے کا حکم دیتا ہے لہٰذا دین اسلام دین فطری ، منطقی اور عقلی ہے جو ہمیشہ یہی حکم دیتا ہے کہ کسی بھی بات کو بیان کرنا ہو یا ماننا ہو تو ضروری ہے کہ اسے محکم دلیلوں کے ذریعے سے بیان کیا جائے اور مانا جائے اور رسول اکرم ص کی ۲۳ سالہ تبلیغی زندگی میں اسلام جو ہر جگہ قبول کیا جارہا تھا اس کا اصل راز یہی ہے کہ یہ دین انسانی فطرت کے مطابق ہے ، عقل اس دین کے قانون کو قبول کرتی ہے لہذا یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ! تلوار کے زور پر اور کسی کو مجبور کرکے کوئی بات منوانا یہ اسلام کے آئین کے بالکل خلاف ہے جیسا کہ قرآن میں اللہ کا فرمان ہے ۔ لا اکراہ فی الدین۔ دین میں کوئی جبر و زبردستی نہیں ہے بلکہ اچھائی کی طرف دلیلوں اور بہترین طریقہ سے بلانے کا حکم ہے ۔ ادعوا الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .