۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
News ID: 391889
13 جولائی 2023 - 09:47
ঐতিহাসিক মুবাহালা ও মহানবীর (সা.) প্রকৃত আহলে বাইতের পরিচয়

حوزہ/ جب آیت مباہلہ "پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں"۔

حوزہ نیوز ایجنسی |

انتخاب و ترجمہ: مولانا سید علی ہاشم عابدی

1۔ لَمّا نَزلتْ آيةُ المُباهَلة: «تعالَوا نَدْعُ أبناءنا و أبناءكم ···»(آل عمران،61) و أخذَ بيدِ عليٍّ و فاطمةَ و الحسنِ و الحسينِ عليهم السلام ـ : هؤلاءِ أهْلي
جب آیت مباہلہ "پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں" نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمومنین امام علی، حضرت فاطمہ زہرا، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: یہ ہمارے اہل بیت ہیں۔
(الدرّ المنثور ـ نقل از سعد بن ابى وقاص)

2۔ لَمّا نَزلتْ هذهِ الآيةُ «قُلْ تعالَوا ندعُ ···» دعا رسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله علِيّا و فاطمةَ و حسَنا و حُسينا فقالَ : اللّهمَّ هؤلاءِ أهْلي
جب یہ آیت قُلْ تعالَوا ندعُ ··· نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام علی، حضرت فاطمہ زہرا، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کو بلایا اور فرمایا: خدایا! یہ میرے اہلبیت ہیں۔

3. امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

السّاعةُ الّتي تُباهِلُ فيها ما بينَ طُلوعِ الفَجرِ إلى طُلوعِ الشّمسِ
مباہلہ کا وقت طلوع فجر سے طلوع آفتاب تھا۔

4. امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابوالعباس سے فرمایا:

تُشَبِّكُ أصابِعَكَ في أصابِعِهِ ثُمَّ تقولُ : «اللّهُمَّ إنْ كانَ فُلانٌ جَحَدَ حقّا و أقَرَّ بباطلٍ فأصِبْهُ بِحُسْبانٍ مِن السَّماءِ أو بِعذابٍ مِن عِندِكَ» و تُلاعِنُهُ سَبعينَ مرّةً
اپنے ہاتھ کے پنجے کو اس (جس سے مباہلہ مقصود ہے) کے پنجے میں رکھو، پھر کہو۔ خدایا: اگر اس نے حق کا انکار کیا ہے یا باطل کا اقرار کیا ہے تو اس پر آسمانی بلا یا اپنی جانب سے عذاب نازل فرما،
اور 70 بار اس پر لعنت کرو۔

5. امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

إنّ نَصارى نَجْرانَ لَمّا وَفَدوا على رسولِ اللّه ِ صلى الله عليه و آله و كانَ سيّدُهُم الأهْتَمَ و العاقِبَ و السَّيّدَ ··· فقالوا : إلى ما تَدْعون ؟ فقالَ : إلى شَهادَةِ أنْ لا إلهَ إلاّ اللّه ُ و أنّي رسولُ اللّه ِ و أنّ عيسى عَبدٌ مَخلوقٌ يأكُلُ و يَشْرَبُ و يُحْدِثُ ··· فقالَ رسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله : فباهِلُوني ، فإنْ كُنتُ صادقا نزلَتِ اللّعنةُ علَيكُم ، و إنْ كنتُ كاذبا اُنزِلَتْ علَيَّ ، فقالوا : أنْصَفْتَ ، فتَواعَدوا للمُباهَلةِ.فلَمّا رجَعوا إلى مَنازِلهم قالَ رؤساؤهُم··· : إنْ باهَلَنا بقَومِهِ باهَلْناهُ ، فإنَّهُ ليسَ بِنَبيٍّ ، و إنْ باهَلَنا بأهْلِ بَيتِهِ خاصّةً فلا نُباهِلُهُ ، فإنَّهُ لا يُقْدِمُ على أهلِ بيتِهِ إلاّ و هُو صادقٌ.فلَمّا أصبَحوا جاؤُوا إلى رسولِ اللّه ِ صلى الله عليه و آله و معَهُ أميرُ المؤمنينَ و فاطمةُ و الحسنُ و الحسينُ صلوات اللّه عليهم ··· فَعَرَفواحديث و قالوا لرسولِ اللّه ِ صلى الله عليه و آله : نُعْطيكَ الرِّضا فَأعْفِنا من المُباهَلة ، فصالَحَهُم رسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله على الجِزيةِ و انْصَرَفُوا
نصاری نجران جب اپنے رئیس و سردار کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انھوں نے عرض کیا: آپ ہمیں کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں میں اس کا رسول ہوں اور عیسیٰ (علیہ السلام) اس کی مخلوق (بندے) ہیں جو کھاتے، پیتے اور بات کرتے ہیں۔ ............... آخر رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بس اب تم ہم سے مباہلہ کرو، اگر میں سچا ہوا تو بد دعا اور لعنت کے تم شکار ہوگے اور اگر میں سچا نہ ہوا تو ہم شکار ہو جائیں گے۔ ان لوگوں نے کہا: آپ نے انصاف پسند بات کی، مباہلہ کا وقت مقرر کر کے جب وہ لوگ اپنے گھروں کو پہنچے تو ان کے بزرگوں نے کہا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنی قوم کے ساتھ آئیں گے تو ہم ان سے مباہلہ کریں گے کیوں کہ ایسی صورت میں وہ اللہ کے رسول نہیں ہوں گے لیکن اگر اپنے اہل بیت کے ہمراہ آئیں گے تو ہم مباہلہ نہیں کریں گے کیوں کہ اگر وہ اپنے گھر والوں کو خطرے میں ڈال دیں تو اس کا مطلب وہ سچے ہیں۔ صبح ہوئی تو وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تو کیا دیکھا کہ آپ امیرالمومنین امام علی، حضرت فاطمہ زہرا، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کو ساتھ لائیں ہیں۔ بس وہ لوگ متوجہ ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: ہم آپ سے صلح چاہتے ہیں ہمیں مباہلے سے معاف فرمائیں۔ حضور نے جزیہ لینے پر معاہدہ کیا اور وہ لوگ چلے گئے۔

میزان الحکمه،جلد دوم.

تبصرہ ارسال

You are replying to: .