۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
آغا سعحب

حوزہ/ شریعت ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم ولی فقیہ اور رہبر کے حامی اور تابع ہوں اسلئے کہ ہماری صلاح اسی میں ہے کہ ہم امام خامنہ ای کے نسبت اپنےایمان اور محبت کا اظہار کریں"  ایسے جذبے کا اظہار وقت کی ضرورت ہے تاکہ دور حاضر میں حق کے لبادے میں کھوکھلے اور حقیقی کے درمیان پرکھ اور پہچان قائم ہوسکے۔

تحریر: آغا سید عبدالحسین بڈگامی "آغا سعحب" کشمیری 

حوزہ نیوز ایجنسی اسلام میں فوج ،فوج (سورہ نصر آخری سورہ ہے جو کہ ابھی تک تشنہ تکمیل ہے)  داخل ہونے کی تحریک میں ہمیں خود کو شامل کرناہے تاکہ جب اللہ سبحان و تعالی مباہلہ کے جانشین بقیۃ اللہ اعظم امام مہدی بن امام حسن عسکری عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کو اذن  ظہور اور ہماری فرج عنایت فرمائےگا اور ہر جگہ امن و امان ، صدق و صداقت  اور حق و انصاف کا پرچم بلند ہو جائے گا اور عدل و انصاف کی عالمگیر حکومت قائم ہوگی ہم اس تحریک میں شامل ہوں گے۔

اللہ سبحان و تعالی کے آخری نبی حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےحجاز اور یمن کے درمیاں نجران نامی علاقےمیں مقیم عیسائیوں کو٢٤  ذیحجہ ٩ ہجری قمری کواللہ کی وحدانیت قبول کرنے کی اسلام کی دعوت دی جسے مباہلہ کہتے ہیں۔اور اس دن حقیقی توحیدی عقیدے کا مشرکانہ توحیدی عقیدے کا آمنا سامنا ہونا تھا ایک دوسرے کے عقیدے کے بارے میں اللہ سبحان و تعالی سے غضب کی دعا کرنی تھی اور توحیدی قافلے کو دیکھ کرہی مشرکوں نےدبے الفاظوں میں اپنی شکست کا اعلان کیا ، اسطرح حقیقی دینداری کا نام نہاد دینداری کے درمیان مناظرہ ہوا جس پر حقیقی دینداری کا نام نہاد دینداری پر غلبہ ہوا جسے اہل بصیرت مومنین عید مناتے ہیں ۔کیونکہ اس کامیابی پر اللہ نے ایک آیت نازل فرمائی ہے۔
آیئے اس نورنی دن کے تاریخی منظر پر طائرانہ نظرکرکے اپنے اذہان اور عقیدے کو متبرک کرتے ہیں۔

نجرانی عیسائیوں کو اسلام کی دعوت
ہجری کا نواں سال ہے، مکہ معظمہ اور طائف  توفتح ہو چکا ہے ۔ یمن ،عمان اور اسکے مضافات کے علاقے بھی توحید کے دائرے میں آ ہوچکے ہیں اس بیچ حجاز اور یمن کے درمیاں واقع  نجران نامی علاقہ ہے جہاں عیسائی مقیم ہیں اور شمالی آفریقہ اور قیصر روم کی عیسائی حکومتیں ان نجرانی عیسائیوں کی پشت پناہی کررہے ہیں ، شاید اسی وجہ سے ان میں توحید کے پرچم تلے آنے کی سعادت حاصل کرنے کا جذبہ نظر نہیں آتا ہے لیکن ان  پر رحمۃ للعالمین مہربان ہورہے ہیں ۔
حضرت رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نجرانی عیسائیوں کے بڑے پادری "ابو حارثہ" کے نام اپنا خط روانہ کرتے ہیں ،جس میں عیسائیوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جاتی ہے ۔ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ کا خط، سربمہر، ایک وفد کے ہمراہ نجران روانہ ہوتا ہے ۔ جب مدینہ سے آنحضرت کا نمایندہ خط لے کے نجران پہنچتا ہے جہاں وہ وہاں کےبڑے پادری" ابو حارثہ" کے ہاتھ آنحضرت کا خط تقدیم کرتا ہے ۔ ابوحارثہ خط کھول کر نہایت دقت کے ساتھ اس کا مطالعہ کرنے لگتا ہے اور فکر کی گہرایوں میں کھوجاتا ہے ۔ اس دوران "شرحبیل" جو کہ درایت اور مہارت میں شہرہ شہر ہوتا ہے اسکو بلاوا بھیجتا ہے اس کے علاوہ علاقے کے دیگر معتبر اور ماہر اشخاص کو حاضر ہونے کو کہا جاتا ہے ۔ سبھی اس موضوع پر بحث و گفتگو کرتے ہیں ۔ اس مشاورتی مجلس کا نتیجہ بحث یہ نکلتا ہے کہ ساٹھ  افراد پر مشتمل ایک ھیئت حقیقت کو سمجھنے اور جاننے کے لئے مدینہ روانہ کیا جاتا ہے جن کی قیادت ابوحارثہ بن علقمہ ،(حجاز میں کلیسای روم کے نمایندہ اورنجران کے بڑے پادری) اورعبدالمسیح بن شرحبیل معروف بہ عاقب(علاقائی پادری)اور"اھتم" یا "اہم بن نعمان" معروف بہ "سید" (نجران کے سب سے بڑے قابل احترام بزرگ شخصیت) کر رہے تھے۔
نجران کا یہ قافلہ بڑی شان و شوکت اور فاخرانہ لباس پہنے مدینہ منورہ میں داخل ہوتا ہے ۔ میر کارواں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کے گھر کا پتہ پوچھتا ہے، معلوم ہوتا کہ پیغمبر اپنی مسجد میں تشریف فرما ہیں ۔
نجران کا کارواں مسجد النبی میں داخل ہوتا ہے اور سبوں کی نظریں ان پر ٹک جاتی ہیں ۔آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نجران سے آئے افراد کے نسبت بے رخی ظاہر کرتے ہیں ، جو کہ ہر ایک کیلئے سوال بر انگیز ثابت ہوا ۔ ظاہر سی بات ہے کارواں کے لئے بھی ناگوار گذرا کہ پہلے دعوت دی اور اب بے رخی دکھا رہیں ہیں ! آخر کیوں ۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی علی  علیہ السلام نے اس گتھی کو سلجھایا ۔ عیسائیو سے کہا کہ آپ فاخرانہ لباس، تجملات اور سونے جواہرات کے بغیر، عادی لباس میں آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو جائیں ، آپکا استقبال ہوگا۔
اب کارواں عادی لباس میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے ۔ اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ  ان کا گرم جوشی سے استقبال کرتے ہیں اور انہیں اپنے پاس بٹھاتے ہیں اور میرکارواں ابوحارثہ سے گفتگو شروع ہوتی ہے :
ابوحارثہ عرض کرتا ہے:  آپکا خط موصول ہوا ، مشتاقانہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں تاکہ آپ سے گفتگو کریں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:جی ہاں وہ خط میں نے ہی بھیجا ہے اور دوسرے حکام کے نام بھی خط ارسال کرچکا ہوں اور سبھوں سے ایک بات کے سوا کچھ نہیں مانگا ہے وہ یہ کہ شرک اور الحاد کو  چھوڑ کر اللہ سبحان و تعالی کے فرمان کو قبول کرکے محبت اور توحید کے دین اسلام کو قبول کریں ۔
ابوحارثہ: اگر آپ اسلام قبول کرنے کو ایک خدا پر ایمان لانے کو کہتے ہیں تو  ہم پہلے سے ہی خدا پر ایمان رکھتے ہیں ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:     اگر آپ حقیقت میں خدا پر ایمان رکھتے ہیں تو عیسی علیہ السلام کو کیوں خدا مانتے ہو اور سور کے گوشت کھانے سے کیوں اجتناب نہیں کرتے ۔
ابوحارثہ: اس بارے میں ہمارے پاس بہت ساری دلائل ہیں؛ از جملہ یہ کہ حضرت  عیسی علیہ السلام مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اندھوں کو بینائی عطا کرتے تھے ، پیسان سے مبتلا بیماروں کو شفا بخشتے تھے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: آپ نے عیسی علیہ السلام کے  جن معجرات کو گنا وہ صحیح ہیں لیکن یہ سب اللہ سبحان و تعالی نے انہیں ان اعزازات سے نوازا تھا اس لئے عیسی علیہ السلام کی عبادت کرنے کے بجائے اسکے خدا کی عبادت کرنی چاہئے ۔
پادری «ابوحارثہ» یہ جواب سن کے خاموش ہوا۔ اور اس دوراں کارواں میں شریک کسی اور  نے ظاہرا شرحبیل(عاقب) نے اس خاموشی کو توڑا ۔
عاقب :حضرت عیسی، خدا کا بیٹا ہے کیونکہ انکی والدہ مریم نے کسی کے ساتھ نکاح کئے بغیر  انہیں جنم دیا ہے ۔
اس دوران اللہ نے اپنے حبیب کو اسکا جواب وحی  میں فرمایا:
إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ
{آل عمران /٥٩}
عیسی علیہ السلام کی مثال آدم کے مانند ہے؛کہ اسے(ماں ، باپ کے بغیر)خاک سے پیدا کیا گیا۔
اس پر اچانک خاموشی چھا گئ اور سبھی بڑے پادری " ابو حارثہ" کو تک رہیں ہیں اور وہ خود شرحبیل کے کچھ کہنے کے انتظار میں ہے اور خود شرحبیل خاموش سرجھکائے بیٹھا ہے۔
آخر کار اس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے بہانہ بازی پر اتر آئے اور کہنے لگے ان باتوں سے ہم مطمئن نہیں ہوئےہیں اس لئے ضروری ہے کہ سچ کو ثابت کرنے کے لئے مباھلہ کیا جائے ۔ خدا کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہو کے جھوٹے پر عذاب کی درخواست کریں۔
ان کا خیال تھا کہ ان باتوں سے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ اتفاق نہیں کریں گے ۔ لیکن ان کے ہوش آڑ گئے جب انہوں نے سنا:
فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
{آل عمران/٦١}
آپ کے پاس(اختلافی موضوع کے حوالے سے محکم دلیل) علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسی کے بارے میں) اسلام کی حقانیت پر احتجاج کریں تو (ایسی صورت میں اے نبی آخر الزمان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے کہدیں کہ: آؤ  پیغمبر اسلام اپنے بیٹوں کو (مباہلہ کے لئے) لاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو لے کے آو، پیغمبر اسلام اپنی خواتین کو (مباہلہ کے لئے) لاتےہیں اور تم اپنی عورتوں کو ساتھ لے آو ، پیغمبر اسلام اپنی جانوں کو (مباہلہ کے لئے) لاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاو۔ پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
حقیقی دین الہی اور نام نہاد دین الہی کے درمیان اپنی اپنی حقانیت بیان کرنے کے لئے خطاب الہی ہوا ہے کہ فریقین اپنے اپنے وجود (بیٹوں ، خواتین اور  اپنی جانیں) لے کے آئیں ؛ اسکے بعد مباھلہ کریں اور جھوٹے پر الہی لعنت طلب کریں گے ۔
حق اور باطل کی بے نظیر پرکھ قائم کرنی ہے۔ حقیقی دینداری اور نام نہاد دینداری  کا امتحان  لینا ہے ۔ ظاہر اور باطن کا مظاہرہ کرنا ہے۔ دو آسمانی ادیان کے ماننے والوں کی حقیقت کو عیاں کرنا ہے کہ کس کا آسمان کے ساتھ ابھی رابطہ برقرار ہے اور کس نے یہ رابطہ منقطع کیا ہے ۔غرض طے یہ ہوا کہ کل سورج کے طلوع ہونے کے بعد  شہر سے باہر (مدینہ کے مشرق میں واقع)صحرا میں ملتے ہیں ۔ یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئ ۔
مباھلے کا اہتمام
٢٤ ذیحجہ ٩ ہجری آ پہنچا۔مدینہ منورہ  کے اطراف و اکناف میں رہنے والےلوگ مباھلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس جگہ پر پہنچ گئے ۔ نجران کے نمایندے آپس میں کہتے تھے کہ ؛ اگر آج محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ)اپنے سرداروں اور سپاہیوں کے ساتھ میدان میں حاضر ہوتے ہیں ، تو معلوم ہوگا کہ وہ حق پر نہیں ہے اور اگر وہ اپنے عزیزوں کو لے آتا ہے تو وہ اپنے دعوے کا سچا ہے۔
سبھوں کی نظریں  شہر کے دروازے پر ٹکی ہیں ؛ دور سے مبہم سایہ نظر آنے لگا جس سے ناظرین کی حیرت میں اضافہ ہوا ، جو کچھ دیکھ رہے تھے اسکا تصور بھی نہیں کرتے تھے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ ایک ہاتھ سے حسن بن علی علیہم السلام کا ہاتھ پکٹرے اور  دوسرے ہاتھ سےحسین بن علی  علیہم السلام کو آغوش میں لئے بڑ رہے ہیں ۔ آنحضرت کے پیچھے پیچھے انکی دختر گرامی سیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمۃ زہرا سلام اللہ علیہا چل رہی ہیں اور ان سب کے پیچھے  امیر المومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام ہیں۔
صحرا میں ہمہمہ اور ولولے کی صدائیں بلند ہونے لگیں :
کوئی کہہ رہا ہے دیکھو ، پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  اپنے سب سے عزیزوں کو لےآیا ہے۔
دوسرا کہہ رہا ہے اپنے دعوے پر اسے اتنا یقین ہے کہ ان کو ساتھ لایا ہے ۔
اس بیچ  جب بڑے پادری "ابو حارثہ" کی نظریں پنجتن پاک علیہم السلام پر پڑی تو کہنے لگا : ہاے رے افسوس اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اسی لمحے میں ہم اس صحرا میں قہر الہی میں گرفتار ہو جائیں گے ۔
دوسرے نے کہا  ؛تو پھراس کا سد باب کیا ہے ؟
جواب ملا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کےساتھ صلح کریں گے اور کہیں گے کہ ہم جزیہ دیں گے تاکہ آپ ہم سے راضی رہیں۔  اور ایسا ہی کیا گیا۔ اس طرح حقیقی دینداری کی نام نہاد دینداری پر فتح ہوئی ۔
مباھلہ اسلام کی تصویر اور محمد و آل محمد کی تفسیر ہے. 
مباھلہ خالص محمدی اسلام پر آنے والے ہر آنچ پر قربان ہونے کیلئے الہی منشور کا نام ہے ۔جس دین میں میدان مباہلہ کے پنجتن پاک میدان میں ملیں گے وہی اسلام کا میدان ہے وہی حقیقی دین کا ترجمان ہے، اسی لئے عترت آل محمد گیارہ اماموں نے میدان مباہلہ کو جاوداں بنائے رکھتے ہوئے حقیقی دین مبین اسلام کی پاسداری کرتے رہے جس کا انجام آپ حضرات ائمہ  معصومین علیهم السلام کی شہادت مقدر بن گئی اور ہر ایک نے شہید ہونے سے پہلے یہ جملہ فرمایا:
 بِسْمِ الله وَبِالله وَمِنَ الله وإِلى الله وَفي سَبيلِ الله وَعلى مِلَّةِ رَسولِ الله صلى‌الله‌عليه‌وآله.
اللہ کیلئے اللہ کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین پر ہم قربان
اسطرح تاریخ میں ہم اس مباھلے کی تفسیر پہلے سید اوصیاء رسول اللہ امیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب 
اور پھر دوسرے وصی امام حسن بن علی 
پھر تیسرے وصی امام حسین  بن علی 
پھر چوتھے وصی امام علی بن حسین زین العابدین 
پھر پانچویں وصی امام محمد بن علی باقر 
پھر چھٹے وصی امام جعفر بن محمد صادق 
پھر ساتویں وصی امام موسی بن جعفر کاظم
پھر آٹھویں وصی امام علی بن موسی رضا 
پھر نویں وصی امام محمد بن علی نقی 
پھر دسویں امام علی بن محمد تقی 
پھر گیارہویں وصی امام حسن بن علی العسکری علیہم السلام کا ملت رسول اللہ کو بچانے کے لئے شہادتیں پیش کی ہیں
 اور پھر بارہویں وصی ہمارے زمانے کے امام، خاتم اوصیاء رسول اللہ امام مھدی بن حسن عسکری عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی غیبت سے ملاحظہ کرتے ہیں۔
 اسی دین سے کفار ناامید ہو گئے جس کی سند غدیر خم میں ١٨ ذی الحجہ ١٠ہجری کو سورہ مائدہ کی تیسری آیت میں اللہ سبحان و تعالی نے سند جاری کرتے ہوئے فرمایا:
الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
) ٥_مائدہ:٣)
اور غدیر خم میں امام علی کی ولایت کا اعلان بھی اسی سورہ مائدہ میں ہے جو کہ مباہلے کی ایک اور کڑی اور علی ابن ابیطالب کا نفس رسول ہونی کی ایک اور الہی اعلان ہے:
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
(٥_مائدہ:٦٧)
سورہ مائدہ آیت  ستسٹھ ٦٧ کی پیروی میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ١٨ ذی الحجہ ١٠ہجری کو حجة الوداع کے موقعہ پر غدیر خم میں خطبے کے آخر میں  فرمایا ؛ 
(تفسير العيّاشي : ج 1 ص 334 ح 155) 
يا مَعشَرَ المُسلِمينَ، اى حاضر مسلمانو! لِيُبَلِّغِ الشّاهِدُ الغائِبَ : اس پیغام(ختم نبوت اور دوام امامت) کو ہر اس  غیر حاضر  تک پہچانا کہ: اُوصي مَن آمَنَ بي وصَدَّقَني بِوِلايَةِ عَلِيٍّ، جس کسی نے بھی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لایا ہے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت دیتا ہے ان سے علی کی ولایت کی سفارش کرتا ہے نبی ،ألا إنَّ وِلايَةَ عَلِيٍّ وِلايَتي، جان لیں کہ علی کی ولایت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولایت ہے، ووِلايَتي وِلايَةُ رَبّي، اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولایت اللہ سبحان و تعالی کی ولایت ہے ، عَهدا عَهِدَهُ إلَيَّ رَبّي وأمَرَني أن اُبَلِّغَكُموهُ .
یہ عہد الہی ہے کہ پروردگار نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ سب لوگوں تک پہنچانے کا حکم فرمایا ہے. 
ایسے میں عیدغدیر ١٨ ذی الحجہ سن ١٠ ہجری کے واقعہ کو جو کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں بہت بڑی عید ثابت ہے اسے ١٨ ذی الحجہ سن ٣٥ ہجری کے واقعہ کے طور پر کہ اس دن تیسرے اہلسنت خلیفہ حضرت عثمان(رض) کو شہید کیا گیا اس لئے شیعیان آل محمد اسے جشن کے طور پر مناتے ہیں قرار دینا اہلسنت کے لئے دعوت فکر ہے کہ کس طرح الفاظوں کے الٹ پھیر سے مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلائی جاتی ہے اور عیدغدیر کو منانے سے منع کرتے ہیں مگر کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ اس بیچ(١٠ ہجری سے ٣٥ہجری تک) ٢٥ سالوں میں جو صحابہ کرام اور تابعین(رض) غدیر خم کو عیدمناتے تھے خاص کر وہ حضرات جو حدیث غدیر کو نقل کرتے تھے اور سبھی اہلسنت صحاح میں درج ہیں  ان کے لئے کیا حکم ہے کیا وہ سبھی کافر ہیں ؟
معلوم ہوگا کہ ایسی تبلیغ در واقع اسلام دشمن طاقتوں کی سوچی سمجھی سازش ہے کہ الفاظوں  کے الٹ پھیر  سے عوام کے اذہان کے ساتھ کھیل کر مسلمانوں کے پیچ نفرت کے بیچ بوئے جائیں۔
جبکہ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ مباہلہ(٩ہجری کا واقعہ) اور غدیر(١٠ ہجری کا واقعہ) ہمیں اسلامی قیادت کی نشاندہی کررہے ہیں  ۔ جسے امامت و لایت کہتے ہیں۔جب ایک دور چلا اسی امامت و ولایت کو مسخ کرنے کے لئے دعوی کیا گیا کہ شیعوں کا ماننا ہے کہ نعوذبااللہ علی آخری نبی ہیں حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کو معاذاللہ غلطی ہوگئی وحی علی کے بجائے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کی اور اسطرح نماز جمعہ کے خطبے میں علی ابن ابیطالب علیہما السلام کو انتھر ٦٩ سالوں تک سرکاری طور اور ١٢٠ سالوں تک غیر سرکاری طور سب و لعنت ہوتی رہی اور اسطرح قریب ٢٠٠ سال سالوں تک سب علی ابن ابیطالب علیہما السلام کا سلسلہ چلتا رہا اور یہی وجہ ہے کہ شیعہ اذان میں دوسری شہادت کے بعد تیسری شہادت "اشهد ان علیا ولی الله" یعنی میں شہادت دیتا ہوں کہ علی ولی اللہ ہیں رسول اللہ نہیں(اور شیعہ تیسری شہادت کو اذان کا جزء مان کے نہیں پڑھا ہے بلکہ قصد رجا اور تشیع کے خلاف پروپگنڈے کے توڑ کے طور پڑھتا) کیونکہ یہی ولایت ہےجو کہ اسلام کی بقا کیلئے ہر قسم کی قربانی پیش کرتے نظر آتے ہیں لیکن اسلام پر آنچ آنے نہیں دیتے ہیں۔
آج امامت اور ولایت کی آخری کڑی امام مھدی آخرالزمان(عج) پردہ غیب میں ہیں اور انکی نیابت حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای مدظلہ العالی بالخصوص اور نجف اشرف عراق میں اور قم المقدسہ ایران میں مقیم مجتہدین جامع الشرایط مراجع عظام تقلید بالعموم کر رہے ہیں جن کی اتباع سے ہی حقیقی اسلام کی ترجمانی ممکن ہے۔ اور اس وقت علمای اہلسنت کی ایک بڑی تعداد اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ؛ " شریعت ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم ولی فقیہ اور رہبر کے حامی اور تابع ہوں اسلئے کہ ہماری صلاح اسی میں ہے کہ ہم امام خامنہ ای کے نسبت اپنےایمان اور محبت کا اظہار کریں"  ایسے جذبے کا اظہار وقت کی ضرورت ہے تاکہ دور حاضر میں حق کے لبادے میں کھوکھلے اور حقیقی کے درمیان پرکھ اور پہچان قائم ہوسکے اور اسلام میں فوج ،فوج (سورہ نصر آخری سورہ ہے جو کہ ابھی تک تشنہ تکمیل ہے)  داخل ہونے کی تحریک میں ہمیں خود کو شامل کرناہے تاکہ جب اللہ سبحان و تعالی مباہلہ کے جانشین بقیۃ اللہ اعظم امام مہدی بن امام حسن عسکری عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کو اذن  ظہور اور ہماری فرج عنایت فرمائےگا اور ہر جگہ امن و امان ، صدق و صداقت اور حق و انصاف کا پرچم بلند ہو جائے گا اور عدل و انصاف کی عالمگیر حکومت قائم ہوگی ہم اس تحریک میں شامل ہونگے۔
اللہ کی بارگاہ میں دست بہ  دعا ہیں کہ ہمیں مباھلہ میں فتح پانے والے اسلام، جس پر آل محمد فدا ہوئے اس اسلام پر عمل کرنے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو عام کرنے والے ائمہ معصومین علیہم السلام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔ آمین

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات و مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .