تحریر: مولانا محمد لطیف مطہری کچوروی
حوزہ نیوز ایجنسی। حدیث غدیر خم اسلام کے متواتراحادیث میں سے ہے جسے ایک لاکھ سے زیادہ افراد نے اصحاب سے نقل کیا ہے اور یہ تعداد تعجب آور نہیں کیونکہ غدیر خم میں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان شریک تھے ۔۱۔حدیث متواتر، وہ حدیث ہے جس کے سلسلۂ سند میں آخری راوی سے لے کر معصوم تک یعنی ہر طبقے میں راویوں کی تعداد اس قدر ہو کہ عادی اور عام حالت میں ان کامعصوم کی طرف جھوٹی نسبت دینے کے لئے سازباز کرنا محال ہو اور ان کی نقل شدہ خبر یقین اور علم کا سبب بنے۔۲۔ خبر متواتر یا(حدیث متواتر) کے مقابلے میں خبر واحدآتی ہے یعنی جو متواتر نہ ہو وہ خبر واحد ہے۔ تواتر کی دو قسمیں ہیں:الف :متواتر لفظی ۔ب:متواتر معنوی۳۔
متواتر لفظی : وہ حدیث یا خبر جس کے تمام روایوں نے، تمام طبقات میں ،اس حدیث یا خبر کے مضمون کو ہو بہو اور یکسان طور پر نقل کی ہو۔جیسے حدیث ثقلین کی عبارت:(ا نّي تارك فيكم الثقلين ۔۔)یا حدیث غدیر کی عبارت: (من كنت مولاه فهذا عليّ مولاه)۔
متواتر معنوی: وہ حدیث یا خبر جس کے تمام راویوں نے تمام طبقات میں، ایک ہی مضمون کو مختلف عبارتوں اور مختلف الفاظ کے ذریعے نقل کی ہو اور معنی میں مطابقت تضمنی دلالت کی بنیاد پر ہوجیسےمختلف حالات میں نماز میں سورہ حمد کے بعد دوسری کسی سورہ کی تلاوت، پر دلالت کرنے والی مختلف راویوں کی روایتیں، کہ ان ساری روایات میں سورہ حمد کی تلاوت جزء اول کے طور پر قرار دی گئی ہے۔ یا پھر لفظ اور معنی کا مطابقت التزامی دلالت کے ذریعے سے ہو جیسےحضرت علی علیہ السلام کی شجاعت کی خبر جو متعدد روایات میں نقل ہوئی ہے اور ان کا تعلق مختلف واقعات سے ہے جن کے مجموعے سے امیرالمؤمنین علیہ السلام کی شجاعت سے متعلق روایات کا تواتر ثابت ہوتا ہے۔روایات میں معنوی تواتر، لفظی تواتر کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور دین کے اکثر اجزاء بالاخص فروع دین معنوی تواتر کے حامل ہیں جیسے: نماز کی رکعات کی تعداد،مبطلات روزہ ، ارکان حج، زکٰوۃوغیرہ۔۴۔
غدیر خم کا واقعہ تاریخ اسلام کے اہم ترین واقعات میں سے ہے ۔پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناسک حج انجام دینے کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ، غدیر خم کے مقام پر پہنچنے کے بعد تمام حاجیوں کو جمع ہونے کا حکم دیا ۔جو لوگ آگے بڑھ چکے تھے واپس آئےاور جو پیچھے رہ گئےتھے وہ بھی پہنچ گئے آپ ؐنے نماز ظہر باجماعت ادا کی اور اس کے بعد ایک منبر بنانے کا حکم فرمایا ۔منبر پر تشریف لے گئے اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنےپاس بلایا ۔ خدا کی حمد و ثنا نیز چند اہم نکات بیان کرنے کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا تاکہ سب لوگ دیکھ سکیں اس کے بعد فرمایا:(من کنت مولاه فهذا علی مولاه)جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس کے علی بھی مولیٰ ہیں۔
اہل سنت نے لفظ مولیٰ کی تفسیر دوستی و محبت سے کی ہے لیکن شیعوں کے نزدیک مولی ٰسے مراد زعامت اور امت اسلامی کی رہبری ہے کیونکہ لفظ مولی ٰ کا ایک معنی دوسروں کے امور میں خود ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھنا ہے۔ اس لحاظ سے حدیث کا معنی یہ ہوگا جو بھی مجھے بطورمولیٰ دوسروں کے امور میں تصرف کرنے کا حتی کہ ان کے اپنے نفس کی نسبت زیادہ حقدار سمجھتا ہے ان سب کا {علی}بھی مولیٰ ہے ۔بعبارت دیگر حضرت علی علیہ السلام بھی دوسروں پر ایسی ہی ولایت رکھتے ہیں ۔
اس نظریہ کی اثبات کے لئے بہت سارےعقلی و نقلی قرائن موجود ہیں جن میں سےچند قرائن بطورمختصر ذکرکرتے ہیں :
1۔پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاپنے خطاب کی ابتدائی حصہ میں مسلمانوں پراپنی اولویت کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا:(النَّبىِأَوْلىَ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ)۵۔بے شک نبی تمام مومنین سے ان کے نفس کی بہ نسبت زیادہ اولی ہے۔ آیت کا یہ حصہ حدیث میں موجود لفظ {مولیٰ} کے لئے واضح قرینہ ہے ۔جیساکہ آپ ؐنے بعد میں فرمایا :(من کنت مولاه فهذا علی مولاه)جسے اکثر راویوں نے اس مقدمہ کو حدیث غدیر کے ساتھ نقل کیا ہے ۔
2۔ پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جملہ{من کنت مولاه ...} کو بیان کرنے سے پہلے اسلام کے تین بنیادی اصول توحید،نبوت اور معاد کا ذکر فرمایا اور لوگوں سے اس سلسلے میں اقرار بھی لیا اس کے بعد آپ ؐنے فرمایا:تمہارا مولیٰ کون ہے ؟ مسلمانوں نے جواب دیا :خدا اور اس کا رسول ۔اس وقت آپ ؐنے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ کو بلند کیا اور فرمایا: جس کا خدا اور اس کا رسول مولیٰ ہے یہ {علی }بھی اس کامولیٰ ہے ۔اس پیغام کے اصول دین کے اقرار سےمربوط ہونے سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہاں ولایت سے مراد امت اسلامی کی رہبری اورپیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح مسلمانوں پر ولایت حاصل ہونا ہے ۔
3۔ پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جملے{من کنت مولاه ...}کو بیان کرنے سے پہلے اپنی قریب الوقوع رحلت کی خبر دی جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ؐمسلمانوں کی رہبری کے بارے میں فکر مند تھے اور اس بارے میں کوئی مناسب فیصلہ کرنا چاہتے تھے ۔
4۔پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخر میں آیت کریمہ{الْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ..}کی تلاوت کے بعد اللہ اکبر کہہ کر دین اسلام کے کامل ہونے اور مسلمانوں پر خدا کی نعمتوں کے تمام ہونےنیز خداوند متعال کا آپؐ کی رسالت اور حضرت علی علیہ السلام کی امامت پر راضی ہونے پر خوشی کا اظہار فرمایا۔واضح رہے کہ ولایت کو رسالت کے ساتھ ذکر کرنے کا مطلب امت اسلامی کی رہبری کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے ۔
5۔پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے زیادہ عقلمند،حکیم اور مہربان ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ حضرت علی علیہ السلام مومنین کے دوست ہیں یا مومنین پر واجب ہے کہ آپ ؑسے محبت و دوستی کریں جسے ایک عام مسلمان بھی سمجھ سکتا ہے کیونکہ مومنین کا ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنا ایمان کےضروریات میں سے ہے۔بنابریں اس واضح مسئلہ کو اس غیرمعمولیٰ حالات میں اور وہ بھی گرم ترین علاقے میں اس اہتمام کے ساتھ بیان کرنا حکیمانہ نہیں ہے۔جبکہ ہمیں تاریخ اسلام کے واقعات کی اس طرح سے تفسیر نہیں کرنا چاہیے کہ جس سے پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت و تدبیر پر حرف آجائے لیکن امت اسلامی کی رہبری کا مسئلہ اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ ایسے سخت حالات اور تمہید کے ساتھ اس نکتہ کی وضاحت کرنا عاقلانہ و حکیمانہ ہے ۔۳۔غدیر کے واقعہ میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجاج بیت اللہ کے کاروان کو شدید گرمی کے دنوں میں دوپہر کے وقت ایک بنجر اور بے آب و گیاہ سر زمین پر ٹھہرنے کا حکم فرمایا ۔گرمی کا یہ عالم تھا کہ لوگوں نے اپنی عبا کے آدھے حصے کو اپنے سروں پر اوڑھ لیا تھا اور باقی آدھے حصے کو اپنے نیچے فرش کے طور پر بچھایا تھا۔ظاہر سی بات ہے کہ اس تمہید و اہتمام کے بعد پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی ایسا کلام فرمانا ہوگا جو امت کی ہدایت میں کلیدی اہمیت کے حامل اور تقدیر ساز ہو۔حقیقت میں مسلمانوں کے جانشین کے تقرر کے علاوہ کونسی چیز کلیدی اور تقدیر ساز ہو سکتی تھی؟ اسی طرح پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیغام الہی کے پہنچانے کے بعد حاضرین سے چاہا کہ اس خبر کو غائبین تک پہنچائیں ۔لہذا یہ قرائن و شواہد دلالت کرتی ہےکہ آپ ؐنےغدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کا اعلان فرمایا تھا ۔۶۔
بعض افراد پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول و فعل کو حکیمانہ قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں:حدیث غدیر میں مولیٰ سے مراد دوستی و نصرت ہےکیونکہ حضرت علی علیہ السلام نے یمن کے سفر میں جنگی غنائم کے بارے میں ایسا فیصلہ فرمایا جو باقی افراد کی ناراضگی کا سبب بنا اور اان لوگوں نے پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر آپ ؑکی شکایت کی لہذا پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غدیر خم میں اس اقدام کے ذریعے مسلمانوں تک حضرت علی علیہ السلام کی محبت کے واجب ہونےکا حکم پہنچانا چاہتے تھے۔
اس بات کا جواب یہ ہے کہ یمن کے سفر کا مسئلہ مسلمانوں کی قلیل تعداد کے ساتھ مربوط تھا یعنی یہ مسئلہ فقط یمن کے حاجیوں سے مربوط تھا جبکہ اس سخت حالات میں تمام حاجیوں کو جمع کرنے کا کیا مطلب ہو سکتاہے ؟علاوہ از یں مناسب یہ تھا کہ پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سلسلے میں فورا ًاقدام کرتے اور ان افراد کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ۔لہذا اس سلسلے میں غدیر خم تک کوئی اقدام نہ کرنے کا کیا فلسفہ ہو سکتا ہے ؟ تاریخی شواہد کے مطابق پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس واقعہ کے فورا ًبعد ان لوگوں کی غلطیوں کی نشاندہی فرمائی اور ان افراد سے فرمایا :(یاایها الناس لا تشکوا علیا ،فوالله انه لاخشن فی ذات الله)۷۔اے لوگو! تم علی کی شکایت نہ کرو خدا کی قسم علی خدا کے معاملے میں زیادہ محتاط ہیں۔اگر ہم اس کو صحیح بھی مان لیں تو یہ صرف عقلی قرینہ کو باطل کرتا ہے نہ نقلی قرینہ کو ۔ایسی صورت میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم میں مسلمانوں کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی امامت کے اعلان کے ساتھ ساتھ آپ ؑ کی محبت کو بھی لازم قرار دیا ہے کیونکہ لفظ مولیٰ سے دونوں معانی مراد لے سکتےہیں نیز لفظ مولیٰ مشترک معنوی ہے نہ مشترک لفظی۔ بنابریں لفظ مولیٰ کا جامع ترین معنی جوکہ اولی اور زیادہ حقدار ہونا ہے ،ارادہ کر سکتے ہیں ۔
اگر ہم اس فرض کے قائل ہوجائیں کہ پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام سے محبت کرنے اور آپ ؑکی مدد کرنے کا اعلان فرمایا ہے تاکہ اگر کوئی مسلمان آپ ؑکی نسبت دل میں کوئی کینہ رکھتا ہو تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اور آپ ؑسے محبت کرنے اور آپ ؑ کی مدد کرنے کو اپنا فرض سمجھے لیکن اس کے باوجود یہ سوال پیش آتا ہے کہ مسلمانوں میں سے صرف حضرت علی علیہ السلام سے محبت کرنے اورآپ ؑ کی نصرت کرنے کو کیوں اس قدر اہمیت حاصل ہے ؟ اسی طرح مسلمانوں پرحضرت علی علیہ السلام کی محبت کیوں واجب قرار دی گئی ہے ؟ کیا یہی دلیل نہیں کہ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ایسے مقام پر فائز ہیں کہ مسلمانوں کو آپ ؑ کے ساتھ محبت کرنے کے علاوہ آپ ؑکی نصرت بھی کرنی چاہیں ۔کیا یہ مقام امت اسلامی کی رہبری اور امامت کے علاوہ کوئی اور چیز ہو سکتی ہے ؟بہرحال جس زاویہ سے بھی حدیث غدیر کا مطالعہ کریں تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ یہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کی امامت پر دلالت کرتی ہے اس کے علاوہ دوسرے شواہد بھی اسی مطلب کی تائید کرتے ہیں ۔ بعض احادیث میں ہے کہ مسلمانوں نے غدیر خم میں پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر حضرت علیعلیہ السلام کو مبارکبادپیش کیا ۔خلیفہ دوم کے بارے میں تو یہ بات تواتر کی حد تک مشہور ہے کہ انہوں نے غدیر خم میں(بخ بخ لک یا ابن ابی طالب اصبحت مولائی و مولیٰ کل مومن و مومنة)کہہ کر حضرت علی علیہ السلام کو تہنیت پیش کی تھی۔۸۔ بنابریں کیا یہ سارے اہتمام حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ محبت کرنے اور آپ ؑکی نصرت کا پیغام دیتے ہیں یا آپ ؑکاپیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین اورامام ہونے کا پیغام دیتےہیں؟ ایک اور شاہد کہ حدیث غدیر میں مولیٰ سے مراد امامت ورہبری ہے نہ دوستی اور محبت،حارث بن نعمان کا واقعہ ہے جسے محدثین و مفسرین نے نقل کیا ہے ۔اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ جب غدیر خم کے واقعہ کی خبر مختلف شہروں میں پھیل گئی تو حارث بن نعمان نے بھی اس واقعہ کو سنا تو وہ سخت ناراض ہوا اورپیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہا : آپ نے ہمیں نماز ، روزہ ،حج اور زکاۃ کا حکم دیا ہم نے قبول کیا لیکن آپ نے اس پر اکتفانہیں کیا اور ایک جوان کو اپنا جانشین منتخب کیا ۔ کیا یہ کام آپ نے خود انجام دیا ہے یا یہ خدا کا حکم تھا؟پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:خدائے واحد کی قسم یہ خدا کی طرف سے تھا۔اس وقت حارث نے کہا :خداوند! جو کچھ محمد نےکہاہے اگر سچ ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے۔اتنے میں ایک پتھر گرا اور وہ ہلاک ہو گیا۔اس وقت یہ آیت نازل ہوئی:(سال سائل بعذاب واقع)۹۔ایک سوال کرنے والے نے عذاب کا سوال کیا جوواقع ہونےہی والا ہے۔
نتیجہ بحث:
حدیث غدیر خم اسلام کے متواتراحادیث میں سے ہے جسے ایک لاکھ سے زیادہ افراد نے اصحاب سے نقل کیا ہے اور یہ تعداد تعجب آور نہیں کیونکہ غدیر خم میں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان شریک تھے ۔ پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غدیر خم کے مقام پر پہنچنے کے بعد تمام حاجیوں کو جمع ہونے کا حکم دیا اس کے بعدحضرت علی علیہ السلام کو اپنےپاس بلایا ۔ خدا کی حمد و ثنا نیز چند اہم نکات بیان کرنے کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا تاکہ سب لوگ دیکھ سکیں اس کے بعد فرمایا:(من کنت مولاه فهذا علی مولاه)جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس کے علی بھی مولیٰ ہیں۔ اہل سنت نے لفظ مولیٰ کی تفسیر دوستی و محبت سے کی ہے لیکن شیعوں کے نزدیک مولی ٰسے مراد زعامت اور امت اسلامی کی رہبری ہے کیونکہ لفظ مولی ٰ کا ایک معنی دوسروں کے امور میں خود ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھنا ہے۔ اس لحاظ سے حدیث کا معنی یہ ہوگا جو بھی مجھے بطورمولیٰ دوسروں کے امور میں تصرف کرنے کا حتی کہ ان کے اپنے نفس کی نسبت زیادہ حقدار سمجھتا ہے ان سب کا {علی}بھی مولیٰ ہے ۔علامہ امینی نے الغدیرمیں 60 راویوں کام نام ذکر کیا ہے جنہوں نے حدیث تہنیت کو نقل کیا ہے ۔ ۱۰۔حضرت عمر کے بارے میں تو یہ بات تواتر کی حد تک مشہور ہے کہ انہوں نے غدیر خم میں(بخ بخ لک یا ابن ابی طالب اصبحت مولائی و مولیٰ کل مومن و مومنة) کہہ کر حضرت علی علیہ السلام کو تہنیت پیش کی تھی۔
حوالہ جات:
۱۔السیرۃ الحلبیۃ ،ج3 ،ص283۔تذکرۃ الخواص الامۃ،ص 18۔دائرۃ المعارف ،فرید وجدی،ج3،ص543۔تذکرۃ الخواص الامۃ۔
۲۔سبحانی، اصول الحدیث واحکامه فی علم الدرایہ، ص131۔
۳۔ حر عاملی، وسائل الشیعہ ج18، ص19۔
۴۔ سبحانی، اصول الحدیث واحکامه فی علم الدرایة، ص36۔
۵۔احزاب،6۔
۶۔المراجعات ،مراجعہ 54۔ الغدیر ،ج1،ص371۔
۷۔عقائد امامیہ ،جعفرسبحانی ،ص230۔
۸۔السیرۃ الحلبیۃ ،ج3 ،ص283۔ مناقب خوارزمی،ص97۔تاریخ بغداد، ج1 ،ص 290۔
۹۔ معارج ،1
۱۰۔الغدیر ،ج1 ص272 – 283۔