جمعرات 13 فروری 2025 - 19:41
عصر غیبت و انتظار میں حکومت اور قیام کے منافی روایات، ایک تجزیہ

حوزہ/ اگر شریعت میں بیان کردہ شرائط کے تحت امام عادل (فقیہ) کی نگرانی میں کوئی قیام ہوتا ہے اور اس کے اہداف و مقاصد شریعت پر مبنی ہوتے ہیں تو یہ حضرت مہدی علیہ السلام کے قیام کے لیے فضا کی فراہمی کا سبب ہے ایسا نہیں ہے کہ اس کی ممانعت ہے ، لیکن بعض صورتوں میں اسے قائم کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہو و واجب ہوگا۔

حوزہ نیوز ایجنسی |

تلخیص و ترجمہ : مولانا سید نجیب الحسن زیدی

اشارہ

پیش نظرموجودہ تحقیقی کاوش میں ان روایات کی جا نچ پڑتال کرتے ہوئے تحقیق اور تنقید کی گئی ہے، جن میں سے بعض میں اس طرح کا موقف اختیار کیا ہے کہ ائمہ طاہرین علیھم السلام غیبت کے زمانے میں انتظار اور صبر کو شیعوں کا فریضہ سمجھتے ہیں، اور قیام اور اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے ہونے والی کوششوں کے جواز کو تسلیم نہیں کرتے ہیں ۔

پیش نظر تحریر میں اس نقطہ نظر کو بیان کرنے کے بعد ان احادیث کے دستاویزات، اسناد اور شواہد کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے ان کا تجزیہ کیا گیا ہے تا کہ اس فرض کے ساتھ کہ سند میں کوئی مشکل نہیں اور ہم اسے قبول کرتے ہیں ائمہ طاہرین علیھم السلام سے نقل شدہ ان اقوال کا دائرہ گفتگو اور کس ماحول میں بات کہی گئی ہے یہ روشن ہو سکے اور واضح ہو سکے کہ ان احادیث کے معانی کا دائرہ کیا ہے کیا یہ خاص زمانے کے لئے ہیں یا پھر عصر غیبت کے مکمل دور کا احاطہ کئے ہوئے ہیں ؟

قابل غور ہے کہ اگر ان احادیث کو بطور دستاویز اور شواہد مان لیا جائے اور ان کی سند اور دلالت کو درست فرض کر لیا جائے پھر بھی ایسی رائے اور ایسے تصور تک پہنچنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے جس میں قیام و تشکیل حکومت کی نفی کی گئی ہو۔ کیونکہ جہاد کی آیات و احادیث، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کو بیان کرنے والی روایات ، احکام الہی کے ہر دور میں نافذ کرنے کی ضرورت ہمیں جہاں تک ممکن ہو اسلامی حکومت کے قیام کی طرف دعوت دیتی ہے ۔

تمہید :

یہ بات نا قابل انکار ہے کہ زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوگی یہ حجت یا تو ظاہر ہو گی یا پوشیدہ( نهج البلاغه، حکمت 147 )امام زمانہ عج کا دور ایک ایسا دور ہے جس میں خدا کی حجت نظروں سے اوجھل ہے اور شیعہ اور معصوم ائمہ علیہم السلام کے پیروکاروں کو اپنے رہبر اور امام تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ ، اور وہ اپنے امام و رہنما سے بادلوں کے پیچھے چھپے سورج کے مثل فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔

اس دور سے متعلق موضوعات میں سے ایک اسلامی حکومت کی تشکیل ہے۔ اگرچہ انقلاب کے بعدولایی حکومت کے سلسلہ اور اس کے کام کرنے کے طریقوں نیز اسکی گتھیوں کو سلجھانے کے سلسلہ سے بہتر طور پر سنجیدہ بحثیں ہوئی ہیں اس کے باوجود مخالفین کے دلائل اور عصر غیبت میں اسلامی حکومت کی قانونی حیثیت کے بارے میں ان کے شکوک و شبہات پر کم توجہ دی گئی ہے۔

موجودہ تحقیق کا مقصد عصر غیبت میں حکومت کی نفی کے سلسلہ سے وارد ہونے والی روایات کے مضامین کے مجموعہ کی درجہ بندی کرکے اس سلسلہ سے ایک قابل اطمینان تنقید پیش کرنا ہے ، تاکہ دیگر شواہد ودلائل کے سائے میں حکومت اور شیعوں کے لئے حکومت کے ساتھ اختیار کئے جانے والے رویہ و تعلق کی ایک واضح تصویر سامنے آ سکے یہ روایات چند طرح کی ہیں

پہلی قسم - مطلق نفی

احادیث کا ایک مجموعہ حضرت مہدی عج کے ظہور سے پہلے کسی بھی قیام اور پرچم کو بلند کرنے کی عمومی اور مطلق طور پر مذمت کرتا ہے

صحیح حدیث میں ابا بصیر امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (کوئی بھی جھنڈا جو قائم عج کے ظہور سے پہلے بلند ہو، اس کا مالک طاغوت ہے اور وہ غیر خدا کی پرستش کر رہا ہے ۔ ( وسائل الشیعة، ج 11، ص 37، حدیث. (چاپ 20 جلدی)

اس حدیث سے ملتی جلتی ایک حدیث مالک ابن اعین سے بھی نقل ہے جسے انہوں نے امام باقر علیہ السلام سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: حضرت قائم عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے قبل اٹھنے والے ہر پرچم کا مالک طاغوت ہے ۔ ( حسین نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج 2، ص 248)

غیبت کے زمانے میں حکومت کے جواز کو معطل کرنے اور انکار کرنے والوں کی رائے میں ان دونوں حدیثوں اور ان جیسی دوسری حدیثوں میں سند کے اعتبار سے اشکال و اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان حدیثوں کو قیام کی حرمت کو ظہور سے پہلے ثابت کرنے کے سلسلہ سے ٹھوس اور مضبوط دلیل کے طور لائق توجہ جانا گیا ہے ۔ ( ع، باقی، شناخت حزب قاعدین، ص 127، 129، 130، 131 .)

عصر غیبت میں ہر طرح کے قیام کی حرمت کے قائلین کے مطابق اس قسم کی روایات واضح الفاظ میں صراحت کے ساتھ یہ کہتی ہیں کہ ظہور معصوم ( حضرت حجت عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہورسے قبل) ہر قیام کرنے والا طاغوت ہے یہ قرآن کی نظر میں ( فاجتنبوا الطاغوت ( نمل: 36 .) کی منزل ہے اور اس سے دور رہنا چاہیے۔ .

تجزیہ و تحقیق:

اگرچہ اس مضمون کی حامل بعض روایات جیسے مالک بن اعین کی روایت حسن بن علی بن حمزہ کی موجودگی کی وجہ سے سندی اعتبار سے مخدوش ہے اور اس سے کسی نتیجہ کا اخذ کرنا صحیح نہیں ہے ( محمدتقی تستری، قاموس الرجال، ج 7، ص 269 و 277 .) البتہ اتنا ضرور ہے اس گروہ کی بعض روایتیں جیسے ابا بصیر سے نقل ہونے والی روایتیں سند کے اعتبار سے بھی صحیح ہیں، اس لیے ان روایات میں سندی چون و چرا کرنا بجا نہیں ہے ۔( محمدتقی تستری، قاموس الرجال، ج 7، ص 269 و 277) .

دلالت حدیث کا جائزہ :

الف) لوگوں کو اپنے آپ کی طرف، دعوت دینا پکارنا اور بلانا جو غیر شرعی اور باطل ہے۔

ب) باطل کو کچلنے اور ملک کا نظم و نسق ہاتھ میں لیکر ان لوگوں کے سپرد کرنا جن کو حقیقت میں حکومت کرنے کا حق ہے۔

ان روایات میں ایسے پرچموں کا تذکرہ ہے جو اپنی طرف بلانے کے لئے بلند کیے جاتے ہیں ان کو باطل قرار دیا گیا ہے اور ان کی اطاعت نہیں کی جا سکتی۔ یہ قیام کی وہ صورت ہے جو حضرت قائم عج کے مقابل قرار دیتی ہے یہ ایک بغاوت ہے اس کا سرغنہ طاغوت ہے لیکن حضرت حجت عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے اہداف کی راہ میں جو پرچم بلند ہو رہے ہیں حدیث میں ان کی ممانعت نہیں ہے ۔

اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کو طاغوت کہا جاتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے سامنے عبادت کی جائے۔ پس اگر کوئی شخص اپنے آپ کی طرف لوگوں کو پکارے اور لوگوں سے خود کی اطاعت کا مطالبہ کرے تو وہ طا غوت ہے اب اگر وہ خدا کی راہ کی طرف بلائے تو وہ طا غوت نہیں ٹہرایا جائے گا ۔ ( حسینعلی منتظری، دراسات فی ولایة الفقیه، ج 1، ص 237 و 243; و سید محمدحسین حسینی طهرانی، ولایت فقیه در حکومت اسلامی، صص 75 76 )

اس شبہہ پر وارد ہونے والا ایک اور اعتراض یہ ہے اس مضمون کی حامل روایات کا حاصل یہ ہوگا کہ عصر ظہور تک ہونے والا ہر قیام باطل ہوگا جبکہ ائمہ معصومین علیہم السلام نے متعدد قیاموں من جملہ جناب زید کے قیام کی تعریف وتمجید کی ہے۔

جناب زید شہید کا قیام اس اعتبار سے کہ حق کی طرف دعوت کے طور پر تھا امام نے (عیسی بن قاسم) کی روایت میں اسکی تائید و تقدیس کرتے ہوئے اسے درست جانا ہے کیونکہ جناب زید کی دعوت حق کی طرف دعوت تھی۔ یہ توثیق اوتحسین اس بات کی علامت ہے کہ یہ روایات تمام قیاموں کی نفی نہیں کرتیں،بلکہ ان کے درمیان ہم آہنگی و جمع عرفی ہمیں اس مقام تک لے جاتے ہیں کہ یہ روایات، در حقیقت ان قیاموں کے سلسلہ سے ہیں جنکا مقصد اپنی ذات ہے جنکے رہبر قیام اپنے لئے کرتے ہیں لوگو ں کو اپنی ذات کی طرف بلاتے ہیں ، اور ان میں وہ قیام شامل نہیں ہیں جو حق کی طرف بلاتے ہیں۔ ( وسائل الشیعة، ج 11، ص 35، باب 13، حدیث 1 .)

ائمہ علیہم السلام نے جن دیگر قیاموں کی توثیق کی ہے ان میں سے ہم (قیام یمانی) کا ذکر کر سکتے ہیں، جس کی امام علیہ السلام کی جانب سے تائید بھی کی گئی ہے اور امام علیہ السلام کی جانب سے اس کی علت یہ بیان ہوئی ہے کہ (یمانی ) لوگوں کو حق کی طرف و سچائی کے راستے کی طرف دعوت دیتے ہیں ) وہ حق کی دعوت دینے والے ہیں ، اس لیے ان کی مدد کرنا چاہیے)۔ ( شیخ طوسی، کتاب الغیبة، ص 171، حدیث 13 .)

امام باقر علیہ السلام کی فرمائش میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ آپ فرماتے ہیں: (یمانی کا پرچم ہدایت کا پرچم ہے)۔ یہ جملہ ان روایات کی تفسیر ہے جن میں پرچم ظہور کے ظاہر ہونے سے پہلے کسی بھی پرچم کو اٹھانے کو باطل قرار دیا گیا ہےعلم اصول میں اسے (حمل بر مقید) کہا جاتا ہے

اس کے علاوہ بھی بہت سی روایات ہیں جو حضرت حجت عج کے ظہور سے قبل بعض قیاموں کے متحرک ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ( بحارالانوار، ج 52، ص 243; الغیبة ص 182، نعمانی، حدیث 50 .) سنن ابن ماجہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: (لوگ زمین کے مشرق سے اٹھیں گے اور حضرت مہدی علیہ السلام کی حکومت کے لیے زمین تیار کریں گے۔ ( ابن ماجد، السنن، ج 2، ص 1366، حدیث 4082 .) اہل قم اور ان کے قیام کے بارے میں بھی روایات نقل ہوئی ہیں ۔ ( بحارالانوار، ج 57، ص 216، باب 36، حدیث 40 .)

حضرت امام خمینی قدس سرہ، علمی اور عملی طور پر اسلامی حکومت کے تصور کو نافذ کرنے اور پیادہ کرنےوالی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں ان روایات کے جواب میں فرماتے ہیں:

وہ پرچم اور قیام جسے روایات میں باطل قرار دیا گیا ہے، حضرت مہدی عج کے نام پر ہونے والا قیام اور انکے نام پر اٹھنے والا پرچم ہے ، نہ ہر قیام بلکہ جنا ب زید شہید اور ان کے جیسے قیاموں کی تو روایات میں مکمل حمایت و تائید کی گئی ہے ... ( صحیفه ی امام، ج 21، ص 14 )

بیان کردہ نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے اگر ہم یہ بات فرض بھی کر لیں کہ یہ روایات عصر غیبت میں کسی بھی قیام کے جواز کو صحیح نہیں ٹہراتی ہیں تب بھی یہ مدعا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ دوسری طرف وجوب جہاد اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سلسلہ سے وارد ہونے والی روایات ہیں جو مطلق طور پر بیان ہونے والی ان روایات سے ٹکرا رہی ہیں کیونکہ فرضِ جہاد اور نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے والی روایتوں کا اطلاق زیر بحث اطلاق سے متصادم ہے اور ان روایات کو جہاد کی روایات پر مقدم کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ( وسائل الشیعه، ج 11، باب 6 و 13 .)

دوسری قسم - قیاموں کی شکست کا اعلان

بہت سی ایسی روایات ہیں جن کے مواد اور مضمون کا حاصل یہ ہے حضرت حجت عج کے ظہور سے قبل جتنے بھی قیام ہوں گے وہ شکست پر منتہی ہوں گے ہم قبل اس کے کہ ان روایات کی وضاحت کریں اور انکا جائزہ لیں اور ان سے جو نتیجہ اخذ کیا گیا ہے اس پر روشنی ڈالیں ان سے جو تاثرات مرتب ہوئے ہیں ان کی وضاحت کریں ان میں سے چندکے مضامین کا ذکر کرتے ہیں:

حماد بن عیسیٰ نے مرفوع طور پر (حدیث کے راوی کو بیان نہ کرتے ہوئے ) علی بن الحسین (امام سجاد علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

خدا کی قسم! ہم میں سے کوئی بھی (اہل بیت)قائم کے قیام سے قبل خروج نہیں کرے گا، سوائے اس کے کہ اس کی مثال اس مرغی کی سی ہے جو اپنے پروں کے مضبوط ہونے سے پہلے ہی گھونسلے سے اڑ گیا اور اس کے نتیجے میں بچے اسے پکڑ کر اپنے پاس لے گئے۔اور اب وہ اس سے کھیلتے ہیں. ( وسائل الشیعة، ج 11، ص 36، باب 13، حدیث 2 .)

تھوڑے فرق کے ساتھ موکل بن ہارون سے صحیفہ سجادیہ کے مقدمہ میں امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:

(ہم میں سے کوئی بھی اہل بیت قیام قائم عج کے دن سے قبل ظلم کو روکنے اور حق کی سربلندی کے لیے نہیں اٹھے گا، مگر یہ کہ اس پر کوئی آفت آئے، اور اسکا کا اٹھنا ہمارے اور ہمارے شیعوں کے غم میں اضافے کا سبب ہوگا ) ثم قال ابوعبدالله، علیه السلام: «ما خرج و لایخرج منا اهل البیت الی قیام قائمنا لیدفع طلحا او فیعش حکاالا اصطلمته البلیة و کان قیامه زیادة فی مکروهنا و شیعتنا» . )

نیز ابی جارود کی حدیث میں امام باقر علیہ السلام سے بھی اسی موضوع کی طرف الفاظ کے اختلاف کے ساتھ کنایہ آمیز انداز میں اشارہ کیا گیا ہے:

ہم اہل بیت میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ وہ نا روا چیزوں اور ظلم کو لوگوں سے دور کرے اور لوگوں کو حق کی طرف بلائے، جب تک آفتیں اور مصیبتیں اسے گھٹنوں کے بل نہ گرادیں، یہاں تک کہ وہ گروہ جس نے بدر کی معرکہ آرائی کا مشاہدہ کیا، اٹھ کھڑا ہو، وہ گروہ جس کے کشتوں کو دفن نہیں کیا جاتا ہے ا ور جس کے زخمیوں کا علاج نہیں کیا جاتا ہے۔ میں نے پوچھا: (اس گروہ سے آپ کی مراد کون ہے؟) فرمایا: فرشتے)۔ ( مستدرک الوسائل، ج 2، ص 48، حدیث 6 .)

اب یہاں پر ان روایات کو ماننے والے یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیام کے سلسلہ سے ہونے والی ہر کوشش ناکامی سے دوچار ہوگی اور اسکی انتہا شکست ہوگی ، سو ایسا کام کرنا باطل ہے جس کا انجام پہلے سے ہی پتہ ہو،لہذا ان روایات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کوئی بھی عملی اقدام منطقی اور جائز نہیں ہوگا، بلکہ اس کی بنیاد پر ائمہ اور ان کے شیعوں کے غم میں اضافہ ہوگا۔

جائزہ اور چھان پھٹک

ان روایات میں سے کوئی بھی ایسی حدیث نہیں جسے صحیح اور بغیر مشکل کے بیان کیا جائے ۔ حماد بن عیسی کی روایت قابل مرفوع ہے اور اس کی سند کا سلسلہ منقطع ہے مگر یہ کہ ہم حماد بن عیسیٰ کو اصحاب اجماع میں مانیں اور چونکہ ان کا سلسلہ سند صحیح ہے اس لیے ہم ان کی جانب سے مرسل روایات کو بھی مسند مانتے ہیں۔ ( ایضا )

ابی جارود کی روایت کردہ ایک اور حدیث میں یہ اشکال کیا جا سکتا ہے کہ وہ زیدی تھے اور ان کے دین حق میں آنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ( آیة الله خوئی، معجم رجال الحدیث، ج 7، ص 321 و 326 .)

ان حدیثوں کی دلالت اور ان کے مفہوم میں بھی کچھ اشکال ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ان روایات میں جو چیز استعمال ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام قیام کے جواز یا عدم جواز کو بیان کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ ایک خبر غیب بیان کر رہے ہیں کہ اگر ہم اہل بیت میں سے ، کوئی قیام قائم عج سے پہلے، اگر اٹھے اور قیام کرے تو کامیاب نہیں ہوگا ، اگرچہ ممکن ہے اسکے قیام کی بنیاد پر اہم اثرات مرتب ہوں ؛ کیونکہ اگر حضرت کی مرادحضرت مہدی عج کے قیام سے قبل ہر قیام کو غلط ٹہرانا ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ کے جد سید الشہدا ء علیہ السلام کا قیام بھی صحیح نہیں ہوگا ۔

دوسری طرف ، ایک تاریخی مطالعہ ہمیں اس منزل پر لاتا ہے کہ بعض شیعہ، بعض مقامات پر، امام معصوم علیہ سے قیا م کرنے کی درخواست کرتے نظر آتے ہیں ۔

دوسری طرف ان میں سے بعض نے ظالموں کے سامنے شیعوں کی فتح کے وعدوں اور انکی کامیابی کی نوید کے پیش نظر کچھ ایسے قیام بھی کئے جنکی کوئی پشت پناہی نہ تھی جو صرف جذبات کی بنیاد پر تھے ۔

علی الظاہر دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اس قسم کی روایتیں اپنے ماننے والوں کے درمیان ایک اعتدال پیدا کرنے ظالموں کے خلاف بغیر کسی پشت پناہی کے اٹھ کھڑے ہونے والوں کے جذبات کو کنڑول کرنے کے لئے بیان ہوئی ہیں ، ممکن ہے کہ امام کے بیان میں لفظ ( منا ) جو اہلبیت اطہار علیھم السلام سے متعلق ہے ایک علامتی بیان ہو اس بات کی علامت ہو کہ اگر ائمہ طاہرین بھی ان حالات میں قیام کریں گے تو ان کا قیام بھی فتح و ظفر سے ہمکنار نہ ہوگا

اس ادراک و تصور کی گواہ امام صادق علیہ السلام کی ایک روایت ہے۔ حضرت، ایک شخص کے جواب میں جو پوچھتا ہے: (آپ کیوں نہیں قیام فرماتے کیوں نہیں اٹھتے؟) فرماتے ہیں: (اگر میرے پاس ان بھیڑوں کے جتنے مددگار ہوتے جن کی تعداد سترہ تھی ایسی صورت میں قیام کرتا )۔ ( کلینی، اصول کافی، ج 2، ص 242، حدیث 4 .)

اس بیان میں امام علیہ السلام نے اپنے قیام سے انکار کی وجہ، حقیقی اور ضروری مددگاروں کی کمی کو بیان کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اگر امام علیہ السلام کے پاس قیام کے لیے مددگار ہوتے۔ اور حالات تیار ہوتے تو وہ ضرور قیام فرماتے

اس کے علاوہ باطل حکومتوں کے خلاف جدوجہد میں کامیابی نہ ملنے اور فتح کے نہ ہونے کا یقین بھی قیام نہ کرنے کا ایک محرک ہے شک نہیں کہ یہ معاملہ غیبت کے دور سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دورہ حضور امام میں بھی اگر ایسے ہی مسائل ہوں اور قیام کا خارج میں وقوع پذیر ہونا قطعی نہ ہو تو بھی یہی حکم ہے یہاں پر امام کی غیبت یا ان کی حاضری کا کوئی مسئلہ نہیں ہے حکم ایک ہی ہے چاہے امام سامنے ہو یا پردہ غیبت میں۔

مختصر یہ کہ ہم پر ایک فرض عائد کیا گیا ہے ہم ذمہ داری کو ادا کرنے پر مامور ہیں اگر یہ پتہ چل جائے کہ اس جگہ قیام کرنا فضول اور بیہودہ ہے کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوگا تو ہے تو یہاں پر حکم شریعت وہی ہے جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا ہے نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے میں جو شرائط ہیں وہی قیام کے سلسلہ سے بھی ہیں ۔ ( سید کاظم حسینی حائری، ولایة الامر فی عصر الغیبة، ص 62 - 63)

تیسری قسم - انتظار کے سلسلہ سے وارد ہونے والی روایات :

تیسری قسم میں وہ روایات نقل کی گئی ہیں جن میں مشکلات کی گرہوں کے کھلنے کا انتظار ، گھروں میں بیٹھے رہنے اور ظہور کے آثار کا انتظار کرنے اور دیکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور ظہور کے آثار ظاہر ہونے سے پہلے شیعوں کو کسی بھی قیام ، بغاوت اور جدوجہد میں حصہ لینے سے منع کیا گیا ہے۔ امام صادق علیہ السلام سدیر سے فرماتے ہیں:

اے سدیر! اپنے گھر میں بیٹھو اور اپنی زندگی کا خیال رکھو اور جب تک دن رات پرسکون ہو آرام کرو۔ اور جب تمہیں یہ خبر ملے کہ سفیانی نے خروج کیا ہے تو فورا اٹھ کھڑے ہو اور ہماری طرف چل پڑو اگر پائے پیادہ بھی چلو تو بھی چل پڑو۔ ( وسائل الشیعة، ج 11، ص 36، ب 13، حدیث 3 .)

امام محمد باقر علیہ السلام سے جابر نے روایت نقل کی ہے کہ حضرت باقر العلوم علیہ السلام نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو غیبت کے وقت ائمہ کی ولایت پر ثابت قدم رہنے والے ہیں اور آپ نے عصر غیبت میں مومنوں کی ذمہ داری کو(حفظ اللسان ولزوم البيت) زبان کی حفاظت اور گھر میں رہنا بیان کیا ہے

ابا بصیر نے امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہوئے میں غیبت کے وقت مومنوں کے فرائض کو اس طرح بیان کیا ہے: فإذا كان ذالك، فالزِموا أحلاس بيوتكم حتّى يظهر الطاهر بن الطاهر المطهّر ذوالغيبة الشديد الطريد

اور جب ایسا ہو تو تم پر لازم ہے تم اپنے گھروں میں رہو ، یہاں تک کہ طاہر ابن طاہر اور وہ پاکیزہ ذات ظاہر نہ ہو جائے جو صاحب غیبت ہے ۔ ( 23)

حسین بن خالد نے امام رضا علیہ السلام سے بیان شدہ حد یث میں نقل کیا ہے کہ حضرت نے اس وقت تک آرام کرنے کا حکم دیا ہے جب تک آسمان و زمین پرسکون رہیں اور جب تک زمین فوجوں کے آپس میں ٹکڑانے سے محفوظ و پرسکون رہے اور آسمان غیبی ندا سے پر سکون رہے تمہیں بھی کچھ نہیں کرنا ہے ( وسائل الشیعة، ص 40، حدیث 14، «اسکنوا ما سکنت السماء من النداء والارض من الخسف بالجیش، فان کان الامر هکذا، و لم یکن خروج ما سکنت السماء والارض فما من قائم و ما من خروج .)

ان روایات کے مطابق یہ استدلال ہوتا ہے کہ ان احادیث میں تمام شیعوں کے لیے ایک ہی راستہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ خاموش رہیں اور اس وقت تک قیام اور لڑائی سے باز رہیں جب تک کہ حضرت مہدی کے قیام کے آثار ظاہر نہ ہوں۔

مذکورہ احادیث کے سلسلہ سند پر ایک نظر :

سدیر کی روایت کی سند میں ایک شخص (عثمان بن عیسیٰ) ہے۔ رجالی کتابوں میں ان کا تعارف اس طرح ہوا ہے۔

وہ فرقہ واقفیہ کے ان بزرگوں میں سے تھے جنہوں نے موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کی شہادت کے بعد ان کی امامت میں توقف کیا اور علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کی امامت کو قبول نہیں کیا اور کاظم علیہ السلام کے نمائندے کے طور ان کے پاس جو رقم تھی انہوں نے اسے بھی امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کو واپس نہ کیا ۔ ( ( معجم رجال الحدیث، ج 11، ص 117; محمدبن علی بن اردبیلی، جامع الرواة، ج 1، ص 534 .)

آیت اللہ خوئی رضوان اللہ تعالی علیہ نے ان کے بارے میں بحث کرتے ہوئے مختلف نظریات کو بیان کرنے کے بعد اپنی کتاب معجم رجال الحدیث میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے:

اس میں کوئی شک نہیں کہ عثمان بن عیسیٰ وہ شخص تھا جس نے حق سے منحرف ہو کر حضرت رضا علیہ السلام کی مخالفت کی اور ان کی امامت کو تسلیم نہیں کیا اور امام کے مال کو ادا نہیں کیا۔ اس کی طرف سے توبہ اور جائیداد کی واپسی بھی ثابت نہیں ہے۔ ( ایضا ، ص 120 .)

اگرچہ بعض احادیث میں ان کی توثیق کی ہے لیکن ان کی زندگی میں بیان کردہ یہ پہلو ان کی احادیث کو کمزور کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

(حسین بن خالد) کی روایت میں بھی بہت سے سندی اشکالات ہیں ، یا تو ایسا ہے کہ (حسین بن خالد) دو لوگوں کے درمیان مشترک ہے، جن میں سے ایک ثقہ ہے اور دوسرا ثقہ نہیں ہے ( ایضا ، ج 5، ص 229 ) اور اگر یہاں مراد (حسین بن خالد) ہے۔ (ابوالعلا) یا ( صیرفی) تو ان میں سے کسی کی بھی توثیق نہیں ہوئی ہے ۔ ( ابراهیم امینی، دادگستر جهان، ص 285 .)

اس حدیث (احمد بن علی) کے بارے معلوم نہیں ہے کون ہے یہ نا معلوم شخصیت ہے ۔ ( ایضا )

ان احادیث کی اسناد میں جو نکات بیان ہوئے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے غیبت کے زمانے میں اہل ایمان کے فرائض جیسے اہم معاملے میں فیصلہ کرنے کے لیے ان روایات سے استدلال کا راستہ بند کر دیا گیا ہے۔ سندی جہتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، ہم ان احادیث کی دلالت پر گفتگو کریں گے اور ان احادیث کے مضمون کو پرکھنے کی کوشش کریں گے جن میں عصر غیبت میں کسی بھی قیام کو باطل قرار دیا گیا ہے

احادیث پر تنقید ی نظر اور ان کا تجزیہ :

ان احادیث سے بطلان قیام کا نتیجہ اخذ کرنے کے لئے لازم ہے کہ ہم الغا ء خصوصیت کریں اور اسے محض مخاطب سے مخصوص قرار نہ دیں یعنی ہم جان لیں کہ بات ایک خاص فرد سے کہی جا رہی ہے لیکن اس میں کوئی خصوصیت نہیں ہے یعنی ہم جانتے ہیں کہ جس شخص کی طرف یہ روایت بیان کی گئی ہے روایت کے بیان میں اس کی ذات کی کوئی دخالت نہیں لیکن اس معاملے میں ہمارے پاس ایسا علم نہیں ہے جس سے یہ بات واضح ہو کہ قیام سے متعلق یہ روایات کسی خاص زاویہ کے تحت بیان نہیں ہوئی ہیں اور ان میں سامنے والے راوی کی شخصیت کو پیش نظر نہیں رکھا گیا ہے ، ( سید کاظم حائری، المرجعیة والقیادة، ص 117 - 118 .) اسکے برخلاف اس کے دلائل موجود ہیں کہ امام علیہ السلام نے یہ روایت سدیر جیسے سامعین مخاطبین کی موجودگی کی وجہ سے بیان کی۔ ہم ان شواہد کے صرف ایک حصہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

1- جب سدیر کا نام اور ان کی شخصیت کا امام صادق علیہ السلام سے ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: (سدیر ہر رنگ میں ڈھل جانے والی شخصیت ہے ، ان پر ہر طرح کا رنگ چڑھتا ہے ) گویا کہ امام علیہ السلام کا مقصود یہ ہے کہ سدیر فکر اور دقت نظر کے معاملہ میں بہت سوچ سمجھ کر قدم بڑھانے والے نہیں ہیں ایک جذباتی انسان ہیں کسی ایک مستحکم روش اور پائدار موقف کے حامل نہیں ۔ ( عبدالله مامقانی، تنقیح المقال فی علم الرجال، ج 2، ص 8 .) لہٰذا ممکن ہے کہ حضرت نے یہ جملہ سدیرسے اپنے جذباتی کاموں پر لگام کسنے کے لئے کہا ہو کہ سوچ سمجھ کر چلیں زیادہ جذباتی نہ ہوں

سدیر کی انفرادی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ایک اور روایت ہے جس سے ان کی فہم و فراست کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس اقتباس میں سدیر کہتے ہیں:

میں امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا اور آپ سے کہا: (خدا کی قسم! آپ کا بیٹھنا اور قیام نہ کرنا مناسب نہیں)۔ حضرت نے فرمایا: (کیوں سدیر؟) میں نے کہا: (آپ کے اردگرد موجود آپکے چاہنے والوں اور آپ کے پیروکاروں اور مددگاروں کی وجہ سے۔ خدا کی قسم! اگر امیر المومنین علیہ السلام کے پاس آپ کے جتنے بڑے مددگار ہوتے تو تیم وعدی کے دو قبیلے ) ابوبکر اور عمر کے قبائل) خلافت کے لالچ میں نہ پڑتے )۔ حضرت نے فرمایا: ( جن لوگوں کے بارے میں تم کہہ رہے ہو ان کی تعداد کتنی ہے ؟) میں نے کہا: (ایک لاکھ)۔ حضرت نے فرمایا: (ایک لاکھ؟!) میں نے کہا: (ہاں، بلکہ دو لاکھ)۔ حضرت نے فرمایا: (دو لاکھ لوگ؟!)۔ میں نے کہا: (بلکہ ، لیکن آدھی دنیا)۔

حضرت سکوت نے فرمایا یہاں تک کہ ہم امام علیہ السلام کے ساتھ مدینہ کے قریب ایک جگہ گئے۔ وہاں ایک لڑکا کچھ بکریاں چرا رہا ہے۔ آپ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: (لوكان لي شيعة بعدد هذه الجداء ما وسعني القعود

اگر میرے پاس یں ان بکریوں کے جتنے بھی شیعہ ہوتے تو میں اٹھ کھڑا ہوتا اور میرے لئے خاموش رہنا جائز نہ ہوتا ۔

سدیر کہتے ہیں: ہم نے رہوار سے اتر کر نماز ادا کی۔ نماز کے بعد میں نے بکریاں گنیں۔ ان کی تعداد سترہ تھی۔ ( ابی جعفر محمدبن سیتوک کلینی، اصول کافی، همان، ج 2، ص 242، حدیث 4 )

اس طویل حدیث کے بیان سے اس وقت کے حالات و واقعات اور سدیر کے فہم و ادراک کی نسبتاً مکمل تصویر پیش کی گئی جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امام کے پالا کن لوگوں کے ساتھ تھا اور کتنے لوگ درک و شعور کے ساتھ امام کے ساتھ تھے کتنے جذبات میں ۔

معلی بن خنیس کی روایت سے اور معتبر اور اطمینان بخش تشریح سامنے آتی ہے وہ کہتے ہیں:

(میں سدیر اور کچھ لو گوں کا رقعہ امام صادق علیہ السلام کے پاس لیکر پہنچا) اس خط میں لکھا تھا کہ "ہمیں توقع ہے کہ خلافت آپ کو منتقل ہو جائے گی، آپ کی کیا رائے ہے؟" امام علیہ السلام نے فرمایا: "آہ ! ہائے میں ان کا امام نہیں ہوں، کیا وہ نہیں جانتے کہ سفیانی کا قتل ہونا طے ہے کیا یہ نہیں جانتے سفیانی کے لئے لازم ہے کہ وہ مقتول ہو ؟" ( وسائل الشیعة، ج 11، ص 37، باب 13، حدیث 8 .)

اس تقریر میں امام فرماتے ہیں: (میں ان کا امام نہیں ہوں) اور (کالے لباس والے لوگوں ) کے لفظ سے وہ ابو مسلم اور اس کے پیروکاروں کی حقیقت کا تعارف کراتے ہیں۔ کیونکہ ابو مسلم نے اس دعوے کے ساتھ کہ وہ حکومت کو اس کے مقام پر لوٹانا چاہتا ہے، بغاوت کی اور قیام کا آغاز کیا ، لیکن اس کا اصل ہدف یہ نہیں تھا، بلکہ یہ شیعوں سے اپنے دشمنوں کے خلاف مدد حاصل کرنے کی ایک چال تھی۔

ممکن ہے کہ امام کا مطلب یہ ہو کہ میں وہ امام نہیں ہوں جس کے لیے قیام و فتح اور حکومت کا منصب سنبھالنے کے شرائط تیار ہوں اور فضا سازگار ہو یعنی میں وہ امام نہیں ہوں جسکی حکومت کے لئے ما حول سازگار ہو اور تم میرا نام لیکر آگے بڑھو اور حکومت سے ٹکرا جاو ۔

اس ساری گفتگو کا نتیجہ یہ ہے سدیر کی سیرت و کردار اور ائمہ طاہرین علیھم السلام کے لئے قیام کرنے کی آرزو رکھنے والوں کے حالات و دلائل بیان کرنے کے بعد،( جو یہ نظریہ رکھتے تھے کہ امام کو قیام کرنا چاہیے مزید تفصیل کے لئے رجوع کریں : دراسات فی ولایة الفقیه، ج 1، ص 229 - 239 ) )ہم سدیر کے لئے خاص کر بیان ہونے والی روایت کو دلیل بنا کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس روایت میں انہیں امام علیہ السلام نے گھر بیٹھنے کا حکم فرمایا ہے کہ یہاں پر کوئی مخصوص فرد امام کے پیش نظر نہیں تھا یہ سب کے لئے ہے ہم ایسا نہیں کر سکتے اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ عصر غیبت میں ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ خاموش رہے اور گھر بیٹھے،. بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ حدیث ایک خاص وقت میں ایک خاص شخص کی نسبت اور خاص شورش کے سلسلے میں بیان کی گئی تھی یہ امام کا بیان ان خاص قیاموں کو لیکر تھا جو بے ا ثر رہے ، ممکن ہے کہ اس حدیث میں یا اس جیسی دوسرے حدیث میں مہدیت کا عنوان پوشیدہ ہو اور اس لیے امام اس کو قابل مذمت سمجھتے ہو کہ جن حالات و شرائط کی بات ہے انکا تعلق میرے دور سے نہیں ہے ۔ ( حبیب الله طاهری، تحقیق پیرامون ولایت فقیه، ص 256)

جو کچھ بیان ہوا اسکے علاوہ یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یہ احادیث خاص دور اور وقت کے ایک مخصوص تناظر میں بیان ہوئی ہیں کیونکہ، دوسری طرف، ائمہ علیھم السلام کے پیروکار ہمیشہ ہی مہدی موعود عج اور قائم آل محمد کے قیام اور ان کی تحریک کے منتظر رہے ہیں چونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے بہت سی روایتیں اس سلسلہ سے سنی ہوئی ہیں جبکہ دوسری طرف خاص حالات سے فائدہ اٹھتے ہوئے بعض سادات علوی نے خود کو مہدی موعود کے طور پر پیش کیا ۔ اوربعض طاغوتی حکومتوں کا تختہ پلٹنے کے لئے یہ کھل کر سامنے آ گئے اور اپنے قیام کا اعلان کر دیا ، لیکن کچھ عرصے بعد ہی انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

مذکورہ بالا احادیث ایسے حالات و واقعات میں جاری ہوئیں۔ ان حالات میں امام یہ بتانا چاہتے تھے کہ جو شخص بھی قیام کر رہا ہے اسکا تعلق اس مہدی موعود سے ہرگز نہیں ہے جس کا ذکر روایات میں آیا ہے ۔ لہٰذا یہ وہ احادیث ہیں جو سادات کی جانب سے قیام کو لیکر مہدویت کے عنوان کے ناجائز استعمال پر لگام لگا رہی ہیں نتیجتاً، ان احادیث کا مقصد کبھی بھی فرائض سے روکنا نہیں ہے جیسے کہ؛ جہاد اسلام اور مسلمانوں کا دفاع، نیکی کا حکم اور برائی سے منع کرنا وغیرہ ۔ ( برگرفته از تحلیل کتاب دادگستر جهان، ص 287 )

چوتھی قسم – قیام میں جلد بازی سے باز رہنے کی تلقین پر مشتمل روایات

روایات کی کتابوں میں ہمیں بہت سی روایات ملتی ہیں جو جہاد کا ارادہ اور اس کی نیت رکھنے کو کافی سمجھتی ہیں اور شیعوں کو حکم دیتی ہیں کہ وہ امام زمانہ علیہ السلام کا انتظار کریں اور اپنے امام سے آگے بڑھ کر جنگ شروع نہ کریں۔ ایک مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو خدا کی مرضی کے ساتھ باندھے رہے اس کے ارادے سے وابستہ رہے اور اس طاقت کو توڑنے کی کوشش نہ کرے ابھی باقی رہنے والی ہے

ابی مرہف امام باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

( گردو غبار ، غبار اُڑنے والے کے لیے زیادہ نقصان دہ ہے؛ مغرور اور باغی گھوڑے ہلاک ہو جاتے ہیں)۔ میں نے کہا: (مجھے افسوس ہے! مغرور اور متکبر اور باغی گھوڑے کون ہیں؟)۔ فرمایا: (جلدی کرنے والے)۔ ( وسائل الشیعة، ج 11، ص 36، باب 13، حدیث 4: «والعنبرة علی من اثارها; هلک المعاضیر .» . قلت: «جعلت فداک! و ماالمعاضیر؟» . قال: «المستعجلون » .)

فضل بن سلیمان کاتب بھی کہتے ہیں:

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: (اے فضل! خدا اپنے بندوں کی جلد بازی کی وجہ سے کسی کام کو آگے نہیں بڑھائے گا بے شک پہاڑ کو ہٹانا اس بادشاہ کو ہٹانے سے آسان ہے جس کی مدت ابھی تک اختتام کو نہیں پہنچی ہے۔...) میں نے کہا: (میں آپ پر قربان جاوں ! تو ہمارے اور آپ کے درمیان (قیام ) کیا علامت ہے؟) انہوں نے کہا: (جب تک سفیانی کا خروج نہ ہو اسی طرح ہوتا رہے گا۔ پس جب سفیانی چلا جائے تو ہماری طرف بڑھنا)۔

امام علیہ السلام نے اسے تین بار دہرایا اور یہ یقینی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہوگی۔ ( همان، ص 37، حدیث 5 . به همین مضمون است احادیث ص 36، 38، 39، 41 .)

قیام کی نفی کے نقطہ نظر سے ائمہ طاہرین اور ہمارے پیشواوں نے ان روایات میں اس نکتے پرزور دیا ہے کہ وقت سے پہلے جلد بازی اور وقت سے پہلے اٹھ کھڑے ہونا خدا اور ائمہ طاہرین علیھم السلام کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے اور نہ ہی اس سے کوئی نتیجہ حاصل ہونے والا ہے لہٰذا جب تک حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور اور قیامت کی علامات ظاہر نہ ہوں، سب کو صبر کا حکم ہے۔ اس کے نتیجے میں حکومت بنانے اور تشکیل حکومت کے لئے سیاسی معاملات کو ہاتھ میں لینے کے لئے لڑائی جائز نہیں ہوگی اور نہ ہی قیام درست ہوگا ۔

تنقیدی جائزہ :

ابی مرہف اور فضل بن سلیمان کی حدیث کے اسناد میں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ دونوں وہ شخصیتیں ہیں جنکا کچھ اتا پتہ نہیں جو مجہول ہیں اس لیے یہ احادیث صحیح اور معتبر نہیں ہو سکتیں۔ ( دراسات فی ولایة الفقیه، ج 1، ص 233، 235; تحقیقی پیرامون ولایت فقیه، ص 275 .)

اگ ہم سلسلہ سند کو بھی کنارے رکھ دیں ، اس کے باوجود حدیث اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ حکومت کا حصول ناجائز ہے ۔ کیونکہ ایسی اکثر احادیث میں خاص طور پر پہلی حدیث میں یسے حالات میں جن میں وقت مناسب نہ ہو اور حالات سازگار نہ ہوں قیام میں جلدی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔لیکن اگر حالات سازگار ہوں حکومت کی تشکیل کے لئے ما حول فراہم ہو کیا تب بھی یہ احادیث اس معاملے میں خاموش رہنے کی تقلین کرتی ہیں جب حالات سازگار ہوں کیا تب بھی قیام و جہاد کے سلسلہ سے یہی حکم ہے جب ہم غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان احادیث سے ایسا حکم نہیں لیا جا سکتا ہے ممکن ہے یہ ساری حدیثیں تقیہ کی بنیاد پر بیان ہوئی ہوں۔

اس حقیقت کے علاوہ کہ امام کا ابی مرہف سے خطاب اس کو تسلی دینے کے لئیے ہو جوکہ افسروں کے تعاقب کی وجہ سے خوف کی حالت میں تھے دوسرے لفظوں میں امام علیہ السلام نے مرہف سے کہہ رہے تھے : (وہ ان لوگوں کو گرفتار کرتے ہیں جو قیام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور چونکہ تم قیام کی صلاحیت نہیں رکتھے ہو، اس لیے تمہیں ڈرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے )۔ ( ایضا )

پانچویں قسم – قیام کی ہمراہی کرنے والوں پر روک :

اس گروہ میں روایات کا ایک اور ایسا حصہ بھی ہے جو امام عصر کی غیر موجودگی میں قیام کرنے والوں کے سلسلہ سے شیعوں کی ذمہ داریوں کی نشاندہی کرتا ہے اور اس بات کو واضح کرنا ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے اسی کے ساتھ قیام قائم سے پہلے اورظہور کی نشانیوں کے ظاہر ہونے سے پہلے قیام کرنے والوں کا ساتھ دینے سے منع کرتا ہے۔ نمونے کے طور پر ہم عمر بن حنظلہ کی ایک روایت کا ذکر کرتے ہیں جس میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

(حضرت قائم علیہ السلام کے قیام سے پہلے کی پانچ نشانیاں ہیں: صیحہ (آسمانی پکار)؛ سفیانی (سفیانی کا خروج )؛ زمین کا دھنس جانا (سفیانی کے لشکر کا بیدہ نامی جگہ پر زمین میں دھنس جانا) ؛ نفس ذکیہ کی شہادت (نفس زکیہ ایک نام یا ، یا پا کیزہ نفس زکیہ رکھنے والا پرہیزگار شخص)؛ یمانی کا خروج

میں نے کہا: میں آپ پر قربان ہوں! اگر آپ کے خاندان میں سے کوئی ان علامات کے ظاہر ہونے سے پہلے ہی چلا جائے تو کیا ہم اس کا ساتھ دیں؟ حضرت نے فرمایا: (نہیں)۔ ( ایضا )

ان جیسی دوسری احادیث میں قیام اور ظالم حکمرانوں کو ہٹانے کی کوشش کو وقت آنے تک روک دینے پر زور دیا گیا ہے ۔ یہ قیام کی ساری کوششیں اپنے صحیح وقت پر موقوف ہیں قیام کے سلسلہ سے یہ انداز کہ کسی کو حق نہیں وہ اٹھے

خواہ قبل از وقت شیعوں کی کوششوں کی ناکامی کی وجہ سے ہو یا یہ کہ اس سے شیعوں اور قیام کرنے والوں کی جانوں کو نقصان پہنچا ہو اس بنا پر ہو ، بہر صورت ان روایات کا نتیجہ یہ ہے کہ حضرت حجت علیہ السلام کی غیر موجودگی میں قیام جائز نہیں ہے

تنقیدی جائزہ :

اس حدیث اور اس جیسی دوسری حدیثوں کے سلسلہ سے جو قابل ذکر بات ہے، یہ ہے کہ ان کے مواد اور مضمون پر پوری توجہ دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے سادات کرام کو خاص طور پر کسی بھی قیام کا ساتھ دینے یا ان کے ساتھ ہونے سے منع فرمایا ہے، اور یہ ممانعت اس با ت کی علامت ہے کہ اس طرح کی احادیث ظہور امام مہدی عج اور ان کے قیام کی نشانیوں کو بیان کر رہی ہیں ۔ امام فرماتے ہیں کہ اگر سادات میں سے کوئی ان نشانیوں کے ظہور سے پہلے اٹھ جائے تو وہ مہدی موعود عج نہیں ہے۔ لہٰذا یہ حدیث یہ نہیں کہتی کہ اگر مسلمان ظالم اور جابر حکومت کو گرا سکتے ہیں ظالم حکومت کا تختہ پلٹ سکتے ہوتو بھی بیٹھے رہیں اور کچھ نہ کریں۔ کیونکہ جہاد کے سلسلہ سے وارد ہونے والی حدیثوں کے پیش نظر جن میں کوئی تخصیص و قید نہیں ہے بطور مطلق بیان ہوئی ہیں ہم یہی نتیجہ لیں گے کہ یہ حدیثیں ہر وقت کے لئے نہیں ہیں بلکہ اس قسم کی احادیث ایسے قیام کی مذمت کر رہی ہیں جن کا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکر نہیں جن کا مقصد اسلام کے جوہر کا دفاع کرنا نہیں ہے بلکہ ذاتی مفادات کے لئے انکا پرچم بلند ہوتا ہے غرض اسلام نہیں اپنی ذات ہے ۔ ( تحقیقی پیرامون ولایت فقیه، ص 266; المرجعیة و القیادة، ص 119 .)

ایک اور نقطہ نظر سے ہم کہہ سکتے ہیں یہ روایتیں تمام قیاموں کے عمومی اصول اور قانون کو بیان نہیں کرتی ہے، بلکہ ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وابستہ لوگوں، جیسے حسین (صاحب فخ) اور محمد بن عبداللہ اور ان جیسے دوسرے لوگوں کے قیاموں کے ساتھ ہمراہی کو بیان کیا ہے ۔ تو قاعدہ یہ بنا کہ اگر شخصیتیں قیام بھی کریں تو تم انکا ساتھ نہ دینا ۔ اس فرمان میں اس روایت کے جاری ہونے کے بعد کے کئی سالوں میں بعد نبی کی ذریت و اولاد پیغمبر شامل نہیں ہیں ۔ ( ایضا ، ص 119) پس نتیجہ یہ نکلتا ہے یہ روایات بھی وہ ہیں جو پہلے قسم کی روایات کی طرح امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے قیام کے مخصوص زمانے سے متعلق ہیں اور ان لوگوں کے سلسلہ سے وارد ہوئی ہیں جو اپنے قیاموں کو امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے جوڑ ر ہے تھے اور خود کو مہدی کے طور پر پہچنوا رہے تھے ۔

چھٹی قسم - تقیہ پر مشتمل روایات :

حکومت بنانے کی کوشش کے منکروں نے تقیہ کی روایات سے بھی استدلال کیا ہے۔ ان احادیث سے انہوں نے یہ سمجھا کہ حضرت حجت عج کے آنے تک ہمارا زمانہ تقیہ کا ہے۔ سچ ہے کہ متعدد احادیث تقیہ کی تعریف وتمجید پر مشتمل ہیں اور تقیہ کو(أحبّ الشيء عند الله) (اللہ کو سب سے زیادہ محبوب چیز) کے طور پر پیش کرتی ہیں ۔ ( وسائل الشیعه، ج 11، ص 462، حدیث 14 نیز جو شخص تقیہ نہیں کرتا بے ایمان ہے یہ روایات تقیہ کو ائمہ معصومین علیہم السلام کی سنت اور انکی روش قرار دیتی ہیں ( ایضا ص 460، حدیث 3; التقیة فی الفکر الاسلامی، ص 75 - 80 .) اور ان روایات میں زیادہ نمایاں انداز میں مؤمن کو ہمیشہ مجاہد سمجھا جاتا ہے۔ وہ مجاہد جو حکومت حق میں تلوار سے لڑتا ہے اور باطل کی حکومت میں تقیہ کر کے جیتا ہے ( ایضا ص 464، حدیث 19 .) جبکہ بعض لوگ تقیہ کو ضروری سمجھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں یہاں تک کہ حضرت حجت علیہ السلام کا قیام ہو اس پر عمل کو واجب گرادانتے ہیں ( ایضا ، ص 466، حدیث 25 .)

تنقیدی جائزہ :

روایتوں کے اس گروہ کی تحقیق اور تنقید کرنے سے پہلے اس نکتے پر توجہ دینا ضروری ہے کہ تقیہ کو ( زمانے ) اور (کبھی کبھار معینہ مدت کے لئے کسی خاص جگہ ) کے طور پر تقسیم کیا گیا ہے۔ زمانی تقیہ میں زمانہ اور وقت پیش نظر ہے ایک خاص زمانے میں تقیہ کرنا ضروری ہے اب اگر کچھ روایات یہ کہہ رہی ہوں کہ عصر غیبت میں تقیہ کرنا ضروری ہے تو ۔ اس کی قبولیت کا نتیجہ غیبت کے زمانے میں حکومت کی تشکیل کے بند ہونے کے طور پر سامنے آئے گا ، لیکن اگر اس قسم کے تقیہ کو ثابت کرنے کے لیے کوئی معقول وجہ نہ ہو تو ہم اس کے یقین پر مطمئن ہوں گےکہ تقیہ خاص جگہوں پر محدود وقت کے لئے ہی ہے عصر غیبت یہاں مراد نہیں ہے اور ہم تقیہ کو محدود حالات و محدود شرائط تک ہی سمٹا ہو اجانیں گے اور اسی پر اکتفا کریں گے کہ یہ حالات و وقت کے پیش نظر متعین ہے ۔ ( شیخ صدوق، الاعتقادات، ص 108 .)

سب سے پہلے تو یہ کہنا چاہیے کہ بہت سے شیعہ علماء تقیہ کو صرف فروع میں جائز سمجھتے ہیں، جس طرح بعض صورتوں میں تقیہ واجب ہے، اسی طرح دیگر صورتوں میں تقیہ حرام ہے۔ حضرت امام قدس سرہ اس بارے میں فرماتے ہیں:

بعض اوقات تقیہ سے منع کیا گیا ہے یہ حرام ہے ۔ جب کوئی شخص دیکھے کہ خدا کا دین خطرے میں ہے تو وہ تقیہ نہیں کر سکتا۔ پھر جو بھی ہو، اسے اٹھنا ہے ۔ تقیہ فروع میں ہے اصولوں میں نہیں۔ کیونکہ تقیہ دین کی حفاظت کے لیے ہے۔ جہاں دین خطرے میں ہو وہاں پر تقیہ کی کوئی جگہ نہیں اور خاموشی کی بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ( امام خمینی، صحیفه ی نور، ج 8، ص 11، و ج 20، ص 338 .)

ائمہ معصومین علیہم السلام کے عمل اور انکے فرامین کی روشنی میں کہا جا سکت اہے کہ تقیہ کے سلسلہ سے ائمہ معصومین علیہم السلام کے نے مطلق طور پر دستخط نہیں فرمائے ہیں مطلق طور پر نہیں فرمایا ہے کہ ہر جگہ ہر وقت تقیہ کرو ، بلکہ حالات و شرائط کے پیش نظر اس کا الگ الگ حکم ہے۔ ایسے معاملات جن میں اسلام کے اصولوں کی حفاظت کا دارومدار اٹھ کھڑے ہونے اور تقیہ کی باڑ کو توڑنے پر ہے، جن صورتوں میں فتح اور قیام عدالت کا امکان ہو، وہاں تقیہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ . اس طرح کی تفہیم کی جھلک صدر اسلام سے لیکر اب تک ہمیں مختلف قیاموں میں نظر آتی ہے

قیام و حکومت کے عدام جواز کی حدیثوں پر ایک مجموعی نظر :

یہ کچھ آیات ( بقره: 251; حج: 40 - 41; حدید: 25; نساء: 60; شعراء: 151 - 152; نساء: 24 .) اور کچھ مستقل روایات، ( شیخ صدوق، خصال، ج 1، ص 206; نهج البلاغه، خطبه ی قاصعه، (192) ; وسائل الشیعة، ج 18 .) امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے متعلق آیات اور روایات ( وسائل الشیعة، ج 11، باب 3، باب الامر بالمعروف والنهی عن المنکر .) اور قیام سید الشہداء علیہ السلام اور ظالموں کے خلاف ڈٹ جانے اور قیام سے متعلق آپ کے فرامین و ارشادات ( ابوجعفر محمدبن جریر طبری، تاریخ طبری، ج 7، ص 301 ) اور زید بن علی ابن الحسین ع کا قیام اور انقلاب، جسے ائمہ طاہرین علیھم السلام کی تائید حاصل تھی ( شیخ صدوق، عیون اخبارالرضا، ج 1، ص 252، حدیث 6 . ) حسین بن علی فخ کی کوشش اور جہادجنکی ائمہ طاہرین علیھم السلام نے تعریف و تمجید کی تھی ، اور ہمارے ائمہ علیہم السلام کے ایسے بیانات، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ( اگر ہمارے پاس کوئی مضبوط مددگار ہوتا تو ہم بھی قیام کر تے ) اور اسلام کے خلاف کھڑا ہونے والے کی سزا گناہگاروں اور ظالموں سے مقابلہ اور انہیں روکنے ، ان کا ساتھ نہ دینے کے مضامین کی حامل روایات ، ( وسائل الشیعه، ج 12، ص 128، باب 42، حدیث 2 .) اور جہاد کے دلائل، یہ سب اس نظریہ کے خلاف دلائل ہیں جو عصر غیبت میں کسی بھی طرح کے قیام کو درست نہیں ٹہراتا ہے۔ لہٰذا یہ دلائل مثالی وسعت کے ساتھ اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ نہ تو اس وقت کا تقیہ اور نہ ہی قیام کی کوشش مطلق طور پر قابل مذمت ہے، بلکہ قیام کی ملامت اور مذمت اگر کہیں روایت میں ہے تو یا تو معصوم ائمہ طاہرین علیھم السلام کے تقیہ کی وجہ سے ہے ۔ یا کسی مسئلہ کی انفرادیت کی وجہ سے ہے اور اس کا دائرہ اس ایک جگہ سے بڑھ کر نہیں ہے جہاں امام علیہ السلام نے کسی کو ذاتی طور پر بعض مسائل کی وجہ سے قیام سے روکا ہے ۔ اس لیے ان روایات سے ہر زمانے کے لیے عام قاعدہ حاصل کرنا درست نہیں ہوگا۔

حاصل گفتگو ۔

مجموعی طور پر روایات کو مذکورہ بالا ان کے چھ مشمولات کے ساتھ پرکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی روایت غیبت کے دور میں قیام اور حکومت کے جواز پر سوال نہیں اٹھا سکتی، بلکہ یہ روایات ایسے قیاموں کو حرام اور باطل قرار دیتی ہیں جن میں ضروری شرائط نہ ہوں یا کرپٹ مقاصد اور خواہشات کی بنیاد پر قیام ہوا ہو۔ اس پوری گفتگو کا نچوڑ یہ ہے کہ اگر شریعت میں بیان کردہ شرائط کے تحت امام عادل (فقیہ) کی نگرانی میں کوئی قیام ہوتا ہے اور اس کے اہداف و مقاصد شریعت پر مبنی ہوتے ہیں تو یہ حضرت مہدی علیہ السلام کے قیام کے لیے فضا کی فراہمی کا سبب ہے ایسا نہیں ہے کہ اس کی ممانعت ہے ، لیکن بعض صورتوں میں اسے قائم کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہو و واجب ہوگا ۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha