تحریر: حجہ السلام ڈاکٹر علی محمد جوادی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال اللہ تعالی : وَ جَعَلْنٰهُمْ اَئمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا۔ ہم نے ان کو ائمہ بنادیا کہ وہ ہمارے امر سے ہدایت کرتے ہین۔
حوزہ نیوز ایجنسی। معاشرے کی ہدایت کرنا ائمہ کی سب سے بڑی ذمہ داری اور وظیفہ ہے۔ اور خدا کے امر سے ہدایت کرتے ہیں۔ یہاں تین نکتے مہم ہیں۔ ایک یہ کہ جَعَلْنٰهُمْ، ہم نے ان کو ائمہ بنایا۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ائمہ منصوص من اللہ ہیں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا، یَّهْدُوْنَ فعل مضارع ہے اور جب تک امام موجود ہے ہدایت کا تسلسل جاری رہے گا۔ تیسرا نکتہ بِاَمْرِنَا، ہمارے امر سے امام معاشرے کی ہدایت کرے گا۔ یہاں پہ امام اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا ہے۔ جو خدا کا ارادہ ہے اس کے مطابق معاشرے کی ہدایت کرتا ہے نہ لوگوں کی تعیین شدہ مطاب کی اور نہ ہی اپنی طرف سے بلکہ خدا کے ارادے کے مطابق ہدایت کرتا ہے۔ ائمہ نے لوگوں کی ہدایت کا بیڑہ اٹھایا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ائمہ کو اللہ تعالی نے معصوم بنا کے بھیجا ہے تو وہ امام ہوے اگر اللہ تعالی ہمیں بھی معصوم بنا کے بھیجتے تو ہم بھی امام بن جاتے تھے پس ان ہستیوں کا اپنا کوئی کمال نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے عالم ذر میں انسانوں کی روحوں سے جو میثاق لے لیا وہاں دو قسم کے میثاق لے لیا اللہ نے۔ ایک میثاق عمومی طور پر سارے انسانوں سے لیا ہے کہ میں تمہارا پروردگار ہوں یا نہیں ؟ تو سب نے کہا ہاں آپ ہمارے پروردگار ہیں۔ ان میں سب سے پہلے جن کی روحوں نے خدا کے اس میثاق کا جواب دے دیا وہ چودہ معصومین علیہم السلام کی روحیں تھیں۔ دوسرا میثاق اللہ تعالی نے خصوصی طور پر لیا ہے وہ یہ تھا کہ جب آپ نے مجھے پروردگار مان لیا ہے اور میری ہی پرستش کا وعدہ دیا ہے تو اب لوگوں کو اس میثاق اور وعدے پر باقی رکھنے اور ان کی ہدایت کیلئے کچھ لوگوں کو میں ہادی بنا کے بھیجوں گا یہ ذمہ داری لینے والے کون ہیں؟ سب سے پہلے جن روحوں نے وعدہ دے دیا کہ ہم ہدایت کا بیڑہ اٹھائیں گے وہ چودہ معصومین علیہم السلام کی روحیں تھیں۔ یہ ایک امتیاز تھا کہ عالم ذر میں ان ہستیوں نے اللہ تعالی کے اس میثاق کا جواب دے دیا جس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے ان کو معصوم بنادیا۔ جواب دینے میں پہل کرنا معصوم بنانے کا سبب بن گیا۔
ائمہ علیہم السلام اصل میں نور ہیں باقی موجودات اس نور کی شعاعیں ہیں۔ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے میرے نور کو خلق کیا اور میں اور علی ایک ہی نور سے ہیں۔ چونکہ ائمہ کے نور نے عالم ذر میں یہ وعدہ دیا تھا کہ ہم انسانوں کی ہدایت کریں گے۔ نور خاکیوں کی ہدایت نہیں کرسکتا کیونکہ دونوں میں سنخیت موجود نہیں ہے لہذا اللہ تعالی نے ان کو نوری سے خاکی میں تبدیل کیا۔ ائمہ نے ہدایت کی ذمہ داری اپنے کاندوں میں لے کر اپنے لئے تین قسم کی تکلیف اور زجر کے متحمل ہوگئے ہیں؛
پہلی تکلیف یہ تھی کہ وہ نوری سے خاکی میں تبدیل ہوے یہ عمل تکلیف دہ اور زجر آور تھا لیکن انسانوں کی ہدایت کے خاطر اس تکلیف اور زجر کو تحمل کیا۔
دوسری تکلیف یہ تھی کہ خود ہدایت کاعمل ہی انتہائی تکلیف دہ اور سخت عمل ہے ائمہ زندگی بھر ہدایت کی کوشش کرتے رہیں لیکن پھر بھی بعض ہدایت نہ پائیں تو ائمہ کو دکھ اور تکلیف پہنچتی ہے کیونکہ ائمہ امت کے لئے دلسوز ہیں اور خواہش تھی کہ سب ہدایت پائیں اور سعادت مند ہوں۔
تیسری تکلیف یہ کہ جب لوگوں نے ہدایت قبول کیا، خدا کے وجود, وحدانیت اور اس کے دستورات پر ایمان کے بعد گناہ میں مرتکب ہوجاتے ہیں تو ائمہ کو دکھ پہنچتا ہے۔ اسی لئے معصوم کا فرمان ہے : ہمارے لئے باعث زینت بنو ، باعث ننگ و عار مت بنو امت میں سے کوئی فرد گناہ میں مرتکب ہوجائے تو اس کی وجہ سے ائمہ کو ازیت ہوتی ہے۔
امام موسی کاظم علیہ السلام نے پوری زندگی لوگوں کی ہدایت کیلئے سختیاں جیلی اور طرح طرح کی تکلیفیں اور ازیتیں برداشت کی ہیں، امام کو دکھ پہنچا ہے۔ امام موسی کاظم علیہ السلام ان اماموں میں سے تھا کہ جن کو ہدایت کی راہ میں بہت زیادہ سختیاں اٹھانی پڑیں اور آپ ایک ایسے دور میں ہدایت کا وظیفہ انجام دے رہے تھے کہ جس میں بنی عباس کی ستمگر حکومت اور طاقت کا عروج تھا اور ہدایت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ بنی عباس نے ائمہ اور ان کے پیروکاروں پر انتہائی سختیاں اور ظلم کئے ہیں۔ امام موسی کاظم علیہ السلام نے معاشرے کی ہدایت کا جو طریقہ کار اپنایا وہ دیگر ائمہ سے مختلف ہے۔ ہر امام نے اپنے دور میں اس دور کے حالات اور شرائط کے تحت ہدایت کیلئے دوسرے سے مختلف طریقہ اپنایا ہے۔
امام موسی کاظم علیہ السلام نے لوگوں کی ہدایت کیلئے آٹھ ایسے طریقے اپنائے ہیں جو کہ سارے کے سارے غیرلسانی طریقے ہیں۔ سب سے پہلا طریقہ تقیہ اور خاموشی، امام سے نقل ہونے والی بعض روایات میں نام مبارک کی بجای عن الرجل کی تعبیر استعمال ہوی ہے۔
تقیہ کی وجہ سے امام کا نام تک نہیں لیا گیا ہے۔ تقیہ خود ایک دفاع اور حفاظت کا وسیلہ ہے۔ امام موسی کاظم علیہ السلام نے تقیہ کے ذریعے سے دین اور تشیع کا دفاع اور تحفظ کیا ہے اور معاشرے کی ہدایت کی ہے۔ امام کی تبلیغ اور ہدایت کا دوسرا طریقہ یہ تھا کہ امام نے بعض انقلابی تحریکوں کی حمایت کی، ان میں سے ایک تحریک جو اس وقت ظلم کے خاتمے کیلئے اٹھی وہ حسین ابن علی شہید فخ کی تحریک تھی۔ انہوں نے مکے کے نزدیک فخ نامی جگہ پر حکومت وقت کے خلاف قیام کیا۔ یہ شخص قیام سے پہلے امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور امام ع نے ان کو دعائیں دی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ آپ شہید ہوجائیں گے، آپ کی تحریک کامیاب نہیں ہوگی۔ لیکن امام علیہ السلام نے پھر بھی ان کی حمایت کی۔ جب ان کی شہادت کی خبر ملی تو امام علیہ السلام نے گریہ کیا۔ یہ ایک ایسی روش تھی جو لوگوں کو نظر آجائے اور لوگ ہدایت پاجائیں۔
امام علیہ السلام کا ہدایت کے لئے تیسرا طریقہ یہ تھا کہ لوگ امام علیہ السلام کی طرف رجوع کرتے تھے کیونکہ امام اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم اور علم لدنی کے مالک تھے۔ لوگوں کا امام علیہ السلام کی طرف رجوع کرنا ہدایت کا ذریعہ تھا۔ اسی سے استفادہ کرتے ہوئے امام علیہ السلام نے لوگوں کی ہدایت کی۔ امام کاظم علیہ السلام کا لوگوں کی ہدایت کیلئے چوتھا طریقہ یہ تھا کہ امام علیہ السلام زہد و تقوی کا مجسمہ تھا اسی زہد تقوی کے ذریعے لوگوں کی ہدایت کیا کرتے تھے۔ ابن ابی الحدید نے اپنی شرح میں کہا ہے کہ امام تفقہ، دین، عبادات، حلم اور صبر کا مجموعہ تھے۔
امام علیہ السلام کا پانچواں طریقہ جود و سخا تھا جس کے ذریعے امام نے لوگوں کی ہدایت کی اور لوگوں کے دین کو بچایا۔ امام علیہ السلام غرباء و مساکین کی مالی مدد کیا کرتے تھے کیونکہ (الفقر کاد ان یکون کفرا)لہذا امام نے معاشی حوالے سے کمزور طبقے کی مالی مدد کر کے ان کے دین اور عقیدے کی حفاظت کی ۔
امام علیہ السلام کا چھٹا ہدایت کا طریقہ یہ تھا کہ امام نے انحرافی فرقوں اور عقائد کے مقابلے میں قاطعانہ استقامت کی۔ ان کے دور میں چھ فرقے وجود میں آئے اور امام نے ان سب کا مقابلہ کیا۔ امام علیہ السلام کی روش یہ تھی کہ ان کی علمی مجالس و محافل میں بیٹھ کر ان کے ساتھ مناظرہ کیا اور ان کو شکست دی۔ لوگوں کیلئے یہ ثابت کیا کہ ان کی سوچ، فکر اور اعتقاد باطل ہے۔
امام کا ساتواں طریقہ وکالت آرگنائزیشن کی تشکیل تھی۔ جس کے ذریعے تمام بلاد اسلامی اور ہر شہر میں امام علیہ السلام کے وکیل موجود تھے، ان وکیلوں کے ذریعے امام کا پیغام لوگوں تک پہنچتا تھا۔ انہی وکلاء کے ذریعے وجوہات شرعیہ بھی جمع ہوتے تھے جنہیں امام معاشی حوالے سے کمزور طبقات میں تقسیم کیا کرتے تھے۔
امام موسی کاظم علیہ السلام کا لوگوں کی ہدایت کیلئے آٹھواں طریقہ یہ تھا کہ امام علیہ السلام نے حکومتی اداروں میں اپنے با اعتماد اور وفادار اصحاب کو بٹھایا تھا تاکہ حکومت کیجانب سے تشیع کیخلاف کوئی سازش تیار ہو تو اس سازش کو بروقت ناکام بنایا جائے۔ جیسا کہ علی ابن یقطین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امام علیہ السلام کا نہایت باوفا اور نزدیک ترین صحابی تھا اور بنی عباس کی حکومت میں ہارون الرشید کا وزیر رہا ہے۔ کئی دفعہ اس کے خلاف سازشیں بھی ہوئیں اور ان سازشوں کو امام علیہ السلام کی فراست، بصیرت اور علم کے ذریعے سے ناکام بنایا جس کے نتیجے میں تشیع محفوظ رہا۔
امام موسی کاظم علیہ السلام کی ساری زندگی میں دیکھا جائے تو آپ (کونوا دعاتا للناس بغیر السنتکم) کا کامل ترین اور اتم مصداق ہیں آپ نے اپنے عمل اور کردار سے لوگوں کی ہدایت کی۔ امام علیہ السلام کو انہیں اقدامات اور عوام کے افکار میں نفوذ کی وجہ سے مختلف جیلوں میں قید کیا گیا۔ سب سے پہلے مدینے میں گرفتار کرکے مدینہ کے جیل میں رکھا گیا پھر بصرہ لایا گیا وہاں سے بغداد لایا گیا۔ یہ بات نقل ہوگئی ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام ہمیشہ ایک زندان سے دوسرے زندان منتقل ہوتے رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جس زندان میں امام علیہ السلام کو رکھا جاتا تھا وہاں کا زندان بان امام علیہ السلام کے کردار، رفتار اور اعمال سے متاثر ہوکر امام کا گرویدہ اور پیروکار بن جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے حکومت مجبور ہوجاتی تھی کہ انہیں ایک زندان سے دوسرے زندان میں منتقل کرے۔ آخری زندان جس میں امام موسی کاظم علیہ السلام کو قید کیا گیا اس کا زندان بان غیرمسلم تھا جس نے امام علیہ السلام کو بے انتہا اذیتیں دیں یہاں تک کہ آپ کو شہید کردیا۔