۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
حجت الاسلام تقی عباس رضوی

حوزہ/ امام حسین علیہ السلام سے عشق و محبت کا تقاضا ہے کہ عصر حاضر میں ہر رنگ و روپ میں موجود یزید اور اس کے حواریوں کی جعل سازیوں سے ہوشیار اور خبردار رہیں

تحریر: مولانا تقی عباس رضوی کلکتوی 

حوزہ نیوز ایجنسی | ۲۸؍ رجب المرجب کے ایام سوگ ہیں جو معاویہ بن ابی سفیان کی دسیسہ کاریوں کی یاد تازہ کردیتے ہیں جس نے پہلی بار عالم اسلام میں اپنے نا اہل فاسق و فاجر  سپوت یزید  ملعون کو خلیفہ نامزد کرکے خلافت کے موروثی ہونے کا بیج بویاجو تاریخ اسلام کا ایک سیاہ باب ہی نہیں بلکہ امت مسلمہ کی پیشانی  پرایک بد نما داغ  ہے ۔

آج شبیرؑ پہ کیا عالمِ تنہائی ہے

ظلم کی چاند پہ زہراؑ کی گھٹا چھائی ہے

15 رجب سنہ 60 ہجری کو معاویہ کی موت کے بعد، لوگوں سے یزید کی بیعت لی گئی۔ یزید نے بر سر اقتدار آنے کے بعد ان چیدہ چیدہ افراد سے بیعت لینے کا فیصلہ کیا جنہوں نے معاویہ کے زمانے میں یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی بنا پر اس نے مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کے نام ایک خط ارسال کر کے معاویہ کی موت کی خبر دی اور ساتھ ہی ایک مختصر تحریر میں ولید کو "حسین بن علیؑ، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر سے زبردستی بیعت لینے اور نہ ماننے کی صورت میں ان کا سر قلم کرنے کی ہدایت کی"۔اس کے بعد یزید کی طرف سے ایک اور خط لکھا گیا کہ جس میں حامیوں اور مخالفین کے نام اور حسین بن علیؑ کا سر بھی اس خط کے جواب کے ساتھ بھجوانے کی تاکید کی گئی تھی۔ چنانچہ ولید نے مروان سے مشورہ کیا؛ اور اس کی تجویز پر مذکورہ افراد کو دارالامارہ بلوایا گیا۔جہاں آپ ؑ کو معاویہ  بن ابوسفیان کے موت  کی خبر دی گئی  اور یزید کی بیعت  نہ کرنے پر قتل کی دہمکی دی  گئی  تو آپؑ نےبلاکسی جھجھک اور خوف و ہراس دربار ولید میں فرمایا: مثلی لا یبایع مثله۔۔۔مجھ جیسا  کوئی انسان یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا ۔۔۔۔انا لله و انا الیه راجعون۔و علی الاسلام السلام اذا بلیت الامه براع مثل یزید ۔۔۔۔ اور مروان نے جب یزید جیسے بدبخت کی بیعت پر لیپا پوتی کرنے لگا تو آپؑ نے فرمایا: اے دشمن خدا ! میری نظروں سے دور ہوجا میں نے اپنے جد امجد سے سنا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے :« الخِلافَةُ مُحَرمَةٌ عَلی آلِ اَبی سُفْیانَ و اذا رایتم معاویہ علی منبری فاقتلوہ » کہ بنی امیہ پر خلافت حرام ہے اور جب معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو تو اسے قتل کر دینا۔۔۔مگر! افسوس! بعد وفات رسول ﷺ امت مسلمہ اپنی آنکھوں سے یہ ظلم و جبر کا ماتم خاموش تماشائی بنی ہوئی دیکھتی رہی اور اپنی بزدلی،بے شعوری اور مردہ ضمیری کو مصلحت اور اخلاص کا نام دے کر  حرم رسول ﷺ کا دفاع کرنے سے اجتناب کیا نتیجتاً جگر گوشہ رسول ﷺ کی ہتک حرمت کی گئی، آپ سے بیعت کا سوال کیا گیا، قتل کی دھمکیاں دی جانے لگیں اور جان مدینہ فرزند رسول ﷺ حضرت امام حسین علیہ السلام کو مجبوراً مدینہ چھوڑنے پر مجبور کیا! 

اگر! امت مسلمہ اپنی بے ضمیری کو خاموشی کا ڈھال نہ بناتی تو لعین شام ضرور قتل کردیا گیا ہوتا ،مسند خلافت، بنی امیہ میں نیلام نہ ہوتی، بیت المال اور اسلامی اوقاف و جائیداد پر  بندر بانٹ کا تماشا نہ ہوتا،مسلمانوں کو سیاسی اور معاشی طور پر کمزور کرنے کی سازشیں  اور تبلیغ  دین کے نام پر مسلمانوں کے دلوں میں اسلام  اور پیشوایان اسلام کے تعلق سے شکوک و شبہات پیدا نہ کئے جاتے  اور نہ ہی گلشن نبوت ﷺ کبھی اس طرح بے دردی و بے رحمی سے تاراج ہوتا اور نہ حسین ابن علی اپنے بچوں کے ساتھ بے دردی سے میدان کربلا میں شہید کئے جاتے!

نبیؐ کا ہو نہ جسے اعتقاد کافر ہے         

رکھے امام سے جو بغض کیا کہیں اس کو

امام وقت کی یہ قدر ہے کہ اہل عناد پیادہ لے چلیں اور نا سزا کہیں اس کو

نظارہ سوز ہے یاں تک ہر ایک ذرہ خاک

کہ  لوگ جوہر تیغ قضا کہیں اس کو

یزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا پایہ                        

برا نہ مانیے گر ہم برا کہیں اس کو

یوں تو تمام امت مسلمہ کے لئے یہ قابلِ غور لمحہ فکریہ ہے لیکن! تاریخ کے ہر ایک طالب علم کے ذہنوں و دل و دماغ پر ایک سوال ابھرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ : جس نبی مکرم ﷺ نے خون جگر سے گلشنِ اسلام کی آبیاری کی اور انسانی اقدار کے احیا کے بے لوث فریضے انجام دیئے اور ان فرائض میں شامل اہل بیت شناسی‌ کے پیش نظر ہر محاذ پر پر کبھی منبر پر، کبھی مسجد میں کبھی دوران خطبہ میں،کبھی آغوش میں، کبھی زانو پہ، کبھی خلوت میں، کبھی جلوت میں، کبھی رزم میں تو کبھی بزم میں، کبھی اصحاب میں تو کبھی احباب میں، کبھی چادر یمانی کے اندر تو کبھی چادر یمانی سے باہر، کبھی عید و بقرعید کے موقع پر تو کبھی دروازے پر سلام و درود کا ورد کرکے دکھایا، بتایا اور لوگوں کو ان کے پاس و لحاظ رکھنے کی تاکید و سفارش کی مگر! ایسا کیا ہو گیا کہ آپ ﷺ کی رحلت کے پچاس سال بعد ہی وہ قوم و قبیلے کہ جسے آپ نے ضلالت و گمراہی سے نکال کر رشد و ہدایت اور تقوی کی راہ پر گامزن کیا تھا اس مختصر عرصے میں آپ کے زریں اصول و تعلیمات اور دیئے گئے سارے وعظ و نصیحت کو اپنے خواہشات تلے کچل ڈالے!؟

مدینہ فاضلہ میں بسنے والا اسلامی معاشرہ کا مسلمانوں کا رشد و ہدایت اور حق و صداقت سے اتنا بڑا انحراف اور کھلی گمراہی کیسے ممکن ہے؟ 

28 رجب 60 ہجری آل رسول کا مدینے کو ترک کرنا محض ایک تاریخی المیہ ہی نہیں ہے بلکہ تاریخ اسلام اور تاریخ انسانیت کا سیاہ باب ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اعلان ہے کہ امت مسلمہ کے دلوں میں اسلام کی جڑیں مضبوط نہیں ہو پائیں تھی....اور اس قوم و قبیلے کو جسے رسول خدا نے خود بدست شفقت و محبت مشرف بہ اسلام کیا تھا وہ اپنے اسی دین و ایمان اس طرح منقلب و منحرف ہونے لگے کہ نبی ؐکے پیارے نواسے کو یہ  ببانگ دہل  یہ کہنا پڑا کہ : «أَلا تَرَوْنَ أَنَّ الْحَقَّ لا یُعْمَلُ بِهِ وَ أَنَّ الْباطِلَ لا یُتَناهی عَنْهُ، لِیَرْغَبَ الْمُؤْمِنُ فی لِقاءِاللّهِ مُحِقًّا، فَإِنّی لا أَرَی الْمَوْتَ إِلاّ سَعادَةً وَ لاَ الْحَیاةَ مَعَ الظّالِمینَ إِلاّ بَرَمًا.» 

امام کا یہ جملہ’’ أَلا تَرَوْنَ‘‘بڑے ہی معنی خیز اورکثیر معانی و مطالِب کا ایک خزانہ ہے۔ امام ؑ نے بعد وفات رسول ؐسے اپنے دور امامت تک  کے  ابتر حالات  کو   مختصر الفاظ میں بیان فرما کر  جیسے کوزے میں سمندر کو بنداور قطرے کو سمندر میں تبدیل  کردیا  ہو۔

اے دردِ محبت ابھی کچھ اور فزوں ہو

دیوانے تڑپنے کی ادا مانگ رہے ہیں

أَلا تَرَوْنَ أَنَّ الْحَقَّ لا یُعْمَلُ بِهِ وَ أَنَّ الْباطِلَ لا یُتَناهی عَنْهُ۔۔۔  کیا تم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور باطل سے اجتناب نہیں کیاجاتا، پس ان حالات میں ہر مومن کا فرض ہے کہ شہادت کے لئے تیار ہوجائے۔۔۔ایہا الناس ،اے لوگو! فسق و فجور میں ڈوبی ہوئی اور گمراہیوں کی ماری ہوئی یہ قوم   اپنے چہروں پر اسلام کا نقاب چڑھائے عوام الناس کی جہالت اور سادہ لوحی سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ 

بنی امیہ !حدودِ الٰہی کو معطل کر ، شیطان کی پیروی کر رہے ہیں، شرعی خد و خال کو مسخ  کر، فقرا و مساکین کے مال کا استحصال اور بیت المال کو ذاتی امور میں خرچ  کر رہے ہیں ، بندروں اور کتوں سے کھیلنے والے شرابخواروں کو خلیفہ رسول اور جانشین پیغمبر ہونے کی نسبت دی جارہی ہے اور بنام اسلام  علیٰ الاعلان فسق وفجور کا ارتکاب ہو رہا ہے....اور تم لوگ اسے دیکھ نہیں رہے ہو ؟!

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پِیٹوں جِگر کو میں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

مذکورہ بالا  امام کے فرمودات :’’ أَلا تَرَوْنَ أَنَّ الْحَقَّ لا یُعْمَلُ بِهِ ۔۔۔‘‘سے جو  نتیجہ نکلتا ہے وہ یہی ہے کہ   جب کوئی قوم، قبیلہ اور فرد  جہالت و ضلالت اورفتنوں میں پڑ کر حق و صداقت کی راہ سے منحرف اور گمراہی کا شکار ہوجاتا ہے تو وہ آنکھ رکھتے ہو ئےبصارت کو  بصیرت  سے ہماہنگ  کرنے سے قاصررہتا ہے ، کان رہتے ہوئے سچ سننے سے بہرہ اور زبان رہتے ہوئے حق بولنے سے محروم ہوتا ہے۔۔۔جیسا کہ  ہم دور حاضر میں افغانستان، پاکستان، شام و یمن اور فلسطین وغیرہ میں طاغوتی طاقتوں کے آشکارا ظلم و بربریت، قتل و غارتگری ،بدعنوانی و بے حیائی  اور سیاسی و سماجی کسمپرسی  کا سارا تماشا دیکھ رہے  ہیں مگر! ایسے لگتا ہے کہ جیسے  کچھ دیکھا ہی نہیں!

نہیں ہوتی وہاں رحمت خدا کی

نہ ہو وُقعت جہاں صِدق و صفا کی

آج! دنیا کے ہر خطہ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی لہر ہے ،انسانی اقدار پامال کئے جارہے ہیں ،اسلام کے نام پر اسلام کا چہرہ مسخ اور اسلامی تہذیب کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اور امت مسلمہ خاموش تمشائی بنی بیٹھی ہے؟

ہوس پرستی و غارت گری کی لت نہ گئی

یزید مر گیا لیکن یزیدیت نہ گئی

حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے امام حسینؑ اتوار کی رات 28 رجب اور بعض دوسرے اقوال کی بنا پر 3 شعبان سنہ60ہجری قمری  کو اپنے اہل بیتؑ اور اصحاب کے 84 افراد کے ساتھ مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ 

اس سفر میں سوائے محمد بن حنفیہ کے اکثر عزیز و اقارب منجملہ آپؑ کے فرزندان، بھائی بہنیں، بھتیجے اور بھانجے آپؑ کے ساتھ تھے۔ بنی ہاشم کے علاوہ آپ کے اصحاب میں سے 21 افراد بھی اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھے۔

امام حسین علیہ السلام کا ترکِ وطن، آپ ؑکی تحریک، جدوجہد اور آپؑ کے خطبات و فرمودات سامنے رکھیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ فریضہ الہی اور شرعی ذمہ داری، یعنی فاسق و فاجر حاکم وقت اور ظلم و بربریت سے لبریز پیمانہ حکومت کے خلاف جدوجہد، امت کی اصلاح ، سنتِ پیغمبرؐ کا احیا، امربالمعروف اور نہی عن المنکرکی ادائیگی،ضعف ایمان کے شکنجوں  سے  مسلمانوں کو رہائی  اور بدعتوں کا خاتمہ آپؑ کے قیام کا اولین مقصد تھا امام ؑ قدم بقدم اپنے فریضے کی انجام دہی کی جانب بڑھے اور ہر موقع پر اِس کی مناسبت سے ردِعمل کا اظہار کیا «إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى، أُریدُ آن آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْهى عَنِ الْمُنْکَرِ وَأَسیرَ بِسیرَةِ جَدّى وَ أَبى عَلِىِّ بْنِ أَبیطالِب»

میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لئے مدینہ سے نہیں نکلا اور نہ ہی میرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے بلکہ میں صرف اپنی جد کی امت کی اصلاح کیلئے نکلا ہوں، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ارادہ رکھتا ہوں، میں اپنے جد اور باپ کی سیرت پر چلوں گا۔

حسینؑ رفعتیں تقسیم کرتا ہے اب بھی

یزید آج بھی رسوائیاں سمیٹتا ہے

اب ! امام حسین علیہ السلام سے عشق و محبت کا تقاضا ہے کہ عصر حاضر میں ہر رنگ و روپ میں موجود یزید اور اس کے حواریوں کی جعل سازیوں سے ہوشیار اور خبردار رہیں اس لئےکہ امام حسین ؑ کے زمانے میں یزید جیسوں کا برسر اقتدار آجانا اس بات کا بین ثوبت ہے کہ اس زمانے کے لوگ ایک طرف اپنے ہی گلشن ہستی کے نظاروں میں مست دنیا بٹورنے میں لگے ہوئے تھے تو دوسری جانب حکومتی عناصر  بدعقیدگی، جہالت و ضلالت، بدعات و خرافات  اور بد اخلاقی کی باتیں سنا سنا کر انہیں گمراہ کر رکھا تھا اور آج بھی وہی محاذ ہمارے سامنے موجود ہے لہذا ہمیں ان چیلنجز کے مقابل اپنے تمام شعبہ ہائے زندگی میں امام حسین علیہ السلام کی سیرت و تعلیمات کا احیا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے ۔

جب بھی اڑ جاتے ہیں ہر حال میں بیعت پہ یزید

پھر کفن اوڑھ کے انکار نکل آتے ہیں

تبصرہ ارسال

You are replying to: .