۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مولانا تقی عباس کلکتوی

حوزہ/ وسیم بدگہر ایک ایسا جرثومہ ہے جس سے ہندوستان کے مسلمان ہی  نالہ نہیں ہیں بلکہ اس کی روح بھی اس کے تن سے بیزار ہے۔

تحریر: مولانا سید تقی عباس رضوی 

حوزہ نیوز ایجنسی وسیم بدگہر ایک ایسا جرثومہ ہے جس سے ہندوستان کے مسلمان ہی  نالہ نہیں ہیں بلکہ اس کی روح بھی اس کے تن سے بیزار ہے۔

ہے قصور اپنا ہی اندھوں کا وگرنہ وہ نور

ایسا چمکا ہے کہ صد نَیّرِ بیضا نکلا

زندگی ایسوں کی کیا خاک ہے اس دنیا میں

جن کا اس نور کے ہوتے بھی دل اَعمیٰ نکلا

 وسیم نے قرآن کی توہین نہیں دنیا اور آخرت میں اپنی رسوائیوں کا سامان تھیہ کیا ہے۔

یہ شخص حد دین خدا سے نکل گیا!

یاد رہے! اس کے نام کی وجہ سے اسے کسی مذہب سے جوڑنا ایک حماقت ہے..اس لئے کہ بے دینوں،بے ایمانوں ،ضمیر فروشوں اور دشمنوں کے آلہ کاروں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا
ایسے بدبخت و نامراد لوگ ہر قوم میں پیدا ہوتے رہتے ہیں.. 
مگر سوال جوں کا توں ہے کہ جب علماء کرام اسے اس کی کفریہ حرکات سے اسلام سے خارج ہو جانے پر متفق ہیں تو پھر وہ شیعہ بورڈ پر ھنوز براجمان کیوں ہے؟؟ 

خیر! 

خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد.
 جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

اس نے بحیثیت مسلمان قرآن مجید کی شان باکمال میں گستاخی نہیں کی ہے بلکہ اپنے حسب‌ و نسب کی خباثت کا اقرار ، اپنے دین و ایمان، کا منھ بولتا ثبوت اور اپنے موقف کا اظہار کرکے دین و دنیا میں خود کو رسوا کیا ہے*. کیونکہ قرآن مجید جیسی مقدس خاتم الکتب پر کیچڑ اچھالنے کی جسارت  یہ سورج اور چاند پر تھوک کر خود اپنا چہرہ بد نما کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

اسلام اور قرآن کے دفاع کے نام پر آیات و احادیث کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحانہ انداز گفتگو ناقابل معافی جرم ہے۔ اس بدبخت نے شاید ہی اب تک قرآن کی کسی ایک آیت کو پڑھا، سمجھا اور اس پر عمل کیا ہو۔ مگر! دریدہ دہنی کمال کی ہے صاحب! قرآن مجید کی چھبیس آیات انتہاپسندی کی دعوت دیتی ہیں اس خارج کرنا چاہیے۔ المیہ ہے! جسے ٹھیک سے قرآن کی تلاوت نہیں آتی وہ قرآن پر انگشت نمایی کر رہا ہے۔
 
 چلو بالفرض محال مان بھی لیا جائے کہ ماں باپ نے شاید اسے قرآن کی تعلیم اسی مدارس کا جس سے اسے چڑھ ہے کسی مدرسے یا مدرسہ کے کے کسی استاد سے تعلیم دلوائی ہوگی تو کم از کم اسے کوٹ اور ملک میں پھیلی نت نئی عدل و انصاف کی تنظیموں کو ساتھ ساتھ یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ قرآن مجید میں جہاں کفار و مشرکین سے لڑنے اور انہیں اپنا ولی و دوست نہ بنانے کی ہدایت دی گئی ہے وہیں اس میں سماج کے ہر طبقے کے لئے عدل و انصاف کو اس کی ترقی و خوشحالی کا سبب بتایا نیز  ہمیں یہ تلقین بھی کی گئی ہے کہ ہم ہر محاذ پر عدل و انصاف کریں اور ظلم سے کام نہ لیں۔
 
’’ان اللہ یأمر بالعدل والاحسان‘
جیسی آیات بھی ہے جو نیائے پالیکا میں بیٹھے افراد سے لیکر سماج کی ہر فرد کو فردی اور اجتماعی عدل و احسان کیلئے دعوت دیتی ہے کہ ملک کی عدالت عظمی ہو یا انسانی حقوق کا کوئی اور ادارہ معاشرے میں ہر طبقے اور ہر فرد کو جو حقوق حاصل ہیں وہ اسے دیئے جائیں اور رنگ ونسل، علاقائیت، صوبائیت، لسانیت اور ذات پات کی بنیاد پر کوئی فرق روا نہ رکھا جائے۔

اسے ملک کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر سپریم کورٹ کو یہ بھی بتانا چاہئے تھا کہ اسلام نے باہمی تعلقات اور لین دین میں دیانت داری، عدالتی معاملات میں سچی گواہی اور عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کی بار بار تاکید کی ہے تا کہ حقوق العباد متاثر نہ ہوں۔ اس لیے حق دار کو حق دلانے اور مظلوم کو ظالم کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے عدالتوں کا نظام قائم کیا جاتا ہے۔

کتنی رومانٹک اور مذحقہ خیز بات ہے آج تک عربی زبان میں ڈاکٹریٹ کرنے والے عرب  کی عقلیں کتاب الہی کے ظاہر و باطن کو سمجھنے سے قاصر و کوتاہ ہیں تو وہ انسان جسے عربی زبان تو کیا ٹھیک سے اردو تک نہیں آتی وہ قرآن کے مقابلے آ کھڑا ہے!۔

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں! 

اس دنیا میں کتاب الہی سے بڑا قانون،اور الہامی و آفاقی عدالت عظمی کوئی نہیں ہے۔ قرآن کریم کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرنے والا شخص نہایت ہی بے وقوف نکلا۔

 اس خبط الحواس کو یہ نہیں پتہ کہ عدالت کی علمداری کی حد محض ایک ملک و ریاست تک ہی محدود ہے جبکہ قرآن ایسی مقدس و بابرکت کتاب ہے جس کی سرداری چودہ سو سال سے سارے عالم پر ہے : انّ ھذا القرآنَ یھدي لِلَّتِي ھِيَ أقوَمُ بیشک یہ قرآن سب سے سیدھے اور مضبوط راستے کی رہنمائی کرتا ہے۔

قرآن محض دو جلدوں میں لپٹا ایک کتاب ہی نہیں بلکہ یہ خدا کا ایسا قیمتی اور عظیم الشان عطیہ ہے جو رہتی دنیا تک روشنی کا پیغامبر ہے، یہ ایک مینارئہ نور ہے، جس سے سارا عالم تاقیامت تاریکی سے نجات پاتا رہے گا۔

بس ضرورت اس بات کی ہے نفس پرستی کے ہاتھوں بے عقل و بے بصیرت ہونے والے اور ہوس زر کی حصول یابی میں مست وسیم جیسے خبیث الفطرت افراد اپنے افکار و نظریات کو بدلیں بدلنے اور اپنے ہستی وجود میں بیٹھے لات و منات جیسے خونخوار و انتہا پسند بتوں کو نکال کر قرآنی آیات اور اس کے معارف میں غوطہ زن ہوجائیں کیونکہ یہ ایک نسخہٴ کیمیا ہے جو خاک کو کیمیا اور ذرہ کوجوہر بناتا ہے،اس میں بیماروں کے لیے شفا اور صحتمندوں کے لیے سامانِ سکون ہے

قرآن کریم ایسا معجزہ ہے کہ نہ اول مثل ہوا اور نہ آخر کبھی ہو گا۔اس کے فیوض و برکات کا در ہمیشہ تمام بنی نوع انسانی کے لئے کھلا  ہے اور وہ ہر زمانہ میں اسی طرح نمایاں اور درخشاں ہے کسی دشمن خدا اور رسول کی توہین، تنقیص اور ہرزہ سرائی سے اس کی اعلیٰ و اَرفع شان میں نہ کوئی فرق پڑنے والا ہے اور نہ ہی اس روشنی میں  بال برابر بھی کوئی کمی ہونے والی ہے ، ہاں چاند پر منھ اٹھا کر تھوکنے کے نتیجے تھوک ضرور واپس اپنے منہ پر ہی گرتا ہے۔

خود بدلتے نہیں قرآن بدل دیتے ہیں!

تبصرہ ارسال

You are replying to: .