۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 366731
17 مارچ 2021 - 14:59
ولادت امام حسین علیه السلام

حوزہ/ امام حسین علیہ السلام تاریخ انسانی کی ایسی ہی لازوال و بے مثال منفرد شخصیت ہیں جنکی حیات طیبہ کو عہدِ طفلی سے ہی قرآن مجید کے مطابق اس انداز سے ڈھالا گیا کہ آپ کا ہرعمل آیات الہی کی تجلی بن کر اُفق عالم پرچمکا، یہی وجہ ہے کہ  آپ ؑکو عِدل و شریک قرآن کہا گیا ہے۔

تحریر: مولانا تقی عباس رضوی نائب صدر اہل بیت (ع) فاؤنڈیشن ہندوستان

حوزہ نیوز ایجنسی। زندگانی دنیا؛ بہت سے لوگوں کے لئے صرف ایک کھیل تماشا، آرائش، باہمی تفاخر، زیب و زینت اوراموال واولاد کی کثرت کے مقابلہ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ (سورہ ٔحدید کی آیت نمبر ۲۰)

لیکن انہیں لوگوں میں ایک ایسا بھی گروہ ہے، کچھ ایسے بھی بندگانِ خدا ہیں جو چند روزہ زندگی کی لذتوں کے فریب پرہرگز فریفتہ نہیں نہیں ہوتے۔

کتنا ذیشان ہے یہ عرش سے آنے والا اپنے گہوارے سے اعجاز دکھانے والا

نہ کوئی تھا نہ کوئی ہوگا شہہ دیں کے سوا 

رفعت ِ نیزہ سے قرآن سنانے والا

قرآن مجید کے مطابق: انہیں کوئی تجارت و خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتی۔۔۔ یہ لوگ اسی دنیا میں زندگی تو بسر کر رہے ہیں لیکن دنیا سے ہرگز وابستہ نہیں ہیں۔مگر ہاں! انہوں نے اپنے حرمِ وجود کو خدا کی معرفت سے منور اور اس کی محبت سے اپنے قلوب کو سرشارکر رکھا ہے۔ان کا مونس و ہمدرد کتابِ خدا اورآیات الہی ہیں اس طرح کے اگر دنیا کے تمام لوگ مرجائیں،اوران کے ہمراہ قرآن مجید ہوتو انہیں ہرگز وحشت وتنہائی اور اکیلا پن کا کبھی احساس نہیں ہوگا۔

امام حسین علیہ السلام تاریخ انسانی کی ایسی ہی لازوال و بے مثال منفرد شخصیت ہیں جنکی حیات طیبہ کو عہدِ طفلی سے ہی قرآن مجید کے مطابق اس انداز سے ڈھالا گیا کہ آپ کا ہرعمل آیات الہی کی تجلی بن کر اُفق عالم پرچمکا، یہی وجہ ہے کہ  آپ ؑکو عِدل و شریک قرآن کہا گیا ہے۔(بحارالانوار،ج 98،ص355)

سرکار سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام کو قرآن مجیدسے والہانہ عشق تھا۔آپؑ آیاتِ الہی پرغور و فکر کرتے اور بکثرت اپنے ارشادات و فرمودات میں آیات قرآنی کا استعمال کرتے اور ان کی توصیف،تبیین، توضیح اور تشریح فرمایا کرتے تھے۔مرزا دبیر نے کیا خوب کہا ہے کہ :

بے عیب حق کی ذات ہے یا ان کی ذات ہے حکم اِن کا اور کلام مجید ایک بات ہے

 سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے صادرشدہ حدیث ثقلین:« اِنی تارکُ فیکُمُ الثَّقلین کِتابَ الله وَ عِترَتی اَهْلَ بَیْتِی۔۔۔»  کے مطابق آپ ثقل اکبر یعنی قرآن ناطق ہونے کے مصداق اتم ہیں۔بطورعام ہمارے سارے امام معصومؑ اور بطور خاص حضرت امام حسین علیہ السلام کی سیرتِ طیبہ قرآن مجید کی تفسیر کا آئینہ دار اور آنحضرتؑ کے وجود پرنور میں  اس طرح قرآنی فضائل و کرامات  نہفتہ ہیں مولا ئے متقیان ارشاد فرماتے ہیں :«فیهم کرائم القرآن و هُم کنوزُ الرَّحمَان۔۔۔» انہی کے بارے میں قرآن کی نفیس آیتیں اتری ہیں،اوروہ اللہ کے خزینے ہیں۔

کس کے قلم سے ہوبیاں عظمت حسینؑ کی!

اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ وارثِ خُلقِ عظیم، مولائے رحیم و کریم ،پاسبانِ شریعت،پروردۂ آغوشِ رسالتؐ،محافظ فروع واصول،راکب دوش رسولؐ‘ جگر گوشۂ علیؑ و بتول ؑحضرت امام حسین علیہ السلام کی قرآنی زندگی اور آنحضرتؑ کے آئینۂ حیات کی توصیف اس مختصر سے مضمون   میں بیان کرنا دشوار ہی نہیں بلکہ محال بھی ہے؛مگر اجمالی طور پر یہاں ان کے  چند تابناک پہلو کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ۔

۱۔ بچپن میں قرآن سے عشق وشغف: حضرت امام حسین علیہ السلام بچپن سے ہی قرآن مجید سے بہت زیادہ مانوس تھے اس لئے کہ اُس گھر میں آنکھیں کھولیں جہاں قرآنِ صامت کو قوتِ نُطق و گویائی عطا کی گئی،جہاں کتاب الہی کی بہت سی آیتوں کا نزول ہوا،اورجہاں آیات قرآنی کو ضابطۂ حیات سمجھا گیا،جس کے لفظوں ،جملوں اور آیتوں کو زندگی کا دستور بنا کراس کا اتباع کیا گیا ،اس آغوش مقدس میں تربیت پائی جو رسالت کی آغوش تھی اس زبان سے علم و حکمت حاصل کیا جو سرچشمہ وحی الہی تھی ۔۔۔آپؑ عہد طفلی سے ہی قرائتِ قرآن،حفظ قرآن، تفسیرِقرآن اورتأویل قرآن کو اہمیت دیا کرتے تھے۔

۲۔ تعلیم قرآن پر استاد کو ہزاروں کا ہدیہ:عبد الرحمان نے جب امام حسین علیہ السلام کے فرزند جعفر کوسورہ مبارکہ حمدکی تعلیم دی اور اسے جعفر نے امام کو سنایا تو امام علیہ السلام نے ایک ہزار دیناراور کچھ سونا جعفر کے استاد کو ہدیہ کے طور پر دیا تو لوگوں نے اس بذل و بخشش کے اسباب پوچھے تو امام نے فرمایا : جعفر کے استاد کی زحمت(تعلیم قرآن) کا موازنہ اس مختصر اور ناچیز ہدیہ سے کیسے کیا جاسکتا ہے ۔(تفسیر البرهان ، ج 1 ص100)

۳۔ آیات قرآنی سے اُنس و محبت :گرچہ قرآن مجید کی تمام آیات کو سننا امام حسین علیہ السلام کے لئے لذت بخش تھا لیکن کبھی کبھی بعض قرآنی آیتوں کو اپنے پدر امیر المؤمنین علیہ السلام کی زبانی سننا انہیں بہت پسند تھا جس کی لذت سماعت امام حسین علیہ السلام کے سوا کوئی نہیں بتاسکتا۔

چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرے بابا سے منقول ہے کہ علیّ ابن ابی طالب علیه السلام کے حضور جب حسنین کریمین علیہم السلام ہوتے تھے تو آپ ؑ سورہ قدر’’ انّا انزلناه فی لیلة القدر‘‘ کی تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔ایک دفعہ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:اے بابا!آپ کی زبانی اس سورہ کو سننے کی لذت ہی کچھ اور ہے تو امام علی علیہ السلام نے جوابا ًفرمایا:اے فرزند رسولؐ اوراے  میرے  لخت جگر!اس سورہ کی نسبت جو یادگار میرے پاس ہے وہ تمہارے پاس نہیں ہے ۔جس وقت یہ سورہ نازل ہوا ۔آپ کے جد حضرت سرکار ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے اپنے پاس بلوایا اور اسے پڑھ کر مجھے سنایا ۔پھر میرے دائیں شانہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:اے میرے بھائی،اے میرے جانشین و وصی اوراے میری امت کے سرپرست و مدد گار یہ سورہ میرے بعد تمہارے لئے اورتمہارے بعد تمہاری اولاد کی شان میں نازل ہوا ہے ۔ جبرئیل امین نے مجھے امت کے حالات اورمیرے بعد رونما ہونے والے واقعات سے مجھے آگاہ اور خبردار کیا ہے۔ یہ سورہ تمہارے اور تمہارے اوصیا وجانشینوں کے قلوب میں قائم آل محمدعلیہ السلام کے طلوع فجر (ظہور)کے ہنگام تک نور بن کر چمکتا و دمکتا رہے گا۔

۴۔ تلاوت قرآن سے عشق و شغف:جیسا کہ پہلے یہ بیان کیا جاچکا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام بچپن سے ہی اس کتاب آسمانی سے ایک خاص شغف رکھتے تھے اور پوری زندگی قرآنی آیات کے سائے میں گزاری اور اس سے لمحہ بھر کے لئے بھی جدا نہ ہوئے یہاں تک کہ اپنے سفر کرب و بلا میں بھی قرآن سے غافل نہ ہوئے!مدینہ سے مکہ تک اور مکہ سے کربلا تک کے مختلف مراحل میں آپ سے جو خطبات،بیانات، نصايح اور مواعظ۔ صادر ہوئے اس میں  بھی قرآنی آیات اور اس کے مفاہیم  کا تذکرہ جابجا ملتا ہے یہی نہیں بلکہ قرآن سے محبت و رغبت کا اعلان اور اس پرعمل پیرا ہونے کی دعوت عام بھی ہے۔جیساکہ شاعر مشرق علامہ اقبال کہتے ہیں : ہم نے قرآن کے رموز و اسرار امام حسین سے سیکھے ہیں ان کی حرارت ایمانی سے ہم نے شعلہ ہائے حیات کو جمع کیا ہے۔

رمز قرآن از حسین آموختیم بہ آتش او شعلہ ھا اندوختیم

 حضرت امام حسین علیہ السلام کی سیرت طیبہ  کا درخشاں  قرآنی پہلو  اگر ہم !اپنی مجالس و محافل  میں بیان کیا کرتے اوراس پر عمل پیرا ہونے کوشش کرتے خاص کر ہمارے خطیب و  ذاکرین اور مقررین، منبر رسول ؐ پر کرتب دکھانے کے بجائے اپنے دینی اور شرعی فرائض کی ادائیگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے معارفِ قرآن اورتعلیمات ِ اہل بیت علیہم السلام کو احیا کرنے  کو اپنا ہدف اولین شمار کرتے اور منبر و محراب کو اپنے  نکات بیان کرنے کہ خالص محسن انسانیت حسینؑ ابن علیؑ کے حیات بخش پیغام سے لوگوں کو  آشنا  کرنے کا وسیلہ بنائے ہوتے تو آج دنیا میں ایسی بدعقیدگی ، گمراہی اور دین گریزی کا  نہ تسلسل جاری ہوتا اور نہ ہی قرآن کریم کی بے حرمتی کے شرمناک واقعات  منظر عام پر آتے ۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ محسن انسانیت حضرت امام حسین علیہ السلام کی سیرت و تعلیمات امت مسلمہ کی فلاح و کامیابی کا ذریعہ ہے خود امام عالی مقام  فرماتے ہیں : فَأَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِىٍّ، وَابْنُ فاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللّهِ(صلى الله علیه وآله)، نَفْسی مَعَ أَنْفُسِکُمْ، وَ أَهْلی مَعَ أَهْلیکُمْ، فَلَکُمْ فِىَّ أُسْوَةٌ، میں علی اور فاطمہ بنت رسول اللہ کا بیٹا حسین ہوں ،میں تمہارے ساتھ ہوں ،میرے اہل خانہ تمہارے اہل خانہ کے ساتھ ہیں ۔میں تمہارے لئے تمہارے لئے نمونہ عمل  ہوں؛ اور اس  کو اپنانے کا مفہوم بھی یہی ہے کہ آپ ؑ کی حیات طیبہ  ہر شعبہ زندگی میں جس طرح کامل واکمل تھی، اسی طرح ہمیں بھی  اپنی زندگی کے ہر شعبہ کو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے ، ہر انسان کوامام حسین علیہ السلام  کی حیات طیبہ کے اندر ایسا نمونہ مل سکتا ہے جس کی روشنی میں وہ اپنی روز مرہ کی زندگی گذار سکتا اور اسے اپنا آئیڈیل بنا کر اپنی زندگی کو کامیاب ومکمل کرسکتا ہے۔ 

امام حسین علیہ السلام کی پاکیزہ  سیرت تمام  امت مسلمہ خاص کر اپنے چاہنے والوں سے یہ خواہش مند ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت محض اسلام کا زبانی دعوی اور خود کو نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منسوب نہ کرے بلکہ اسلام کے آئین و اصول اور سیرت و اسوۂ رسولؐ پر عمل درآمد ہو۔

 آج ! بھی روح حسینؑ ،سیرت حسینؑ اور تعلیمات حسینؑ ہمیں یہ پکار پکار کہہ رہی ہے کہ صرف دین کا دعوی نہیں دین کو اپنی روز مرہ زندگی میں اتارو اور اس پر عمل کرو کیونکہ «الناس عبيد الدنيا والدين لعقٌ على ألسنتهم يحوطونه ما درت معائشهم... »  "لوگ دنیا کے بندے ہیں اور دین انکی زبان کی چاشنی ہے وہ اپنے دنیاوی مقصد پورے کرنے کیلئے دین کو استعمال کرتے ہیں...

اگرہم ! امام  علیہ السلام کے اس حدیث کے پیش نظر عہد حاضر کے حالات کا جائزہ لیں تو حالات اس زمانے سے کم نہیں! جس کا روز و شب ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔ دنیادنیۂ کی اندھی ہوس، حب جاہ، حب مال نے انسانیت کو انسانی لبادے سے نکال کر جانوروں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے، انسان کے لئے پیسہ اور شہرت اس کی زندگی کامحور ہوچکا ہے، اسی محور کے ارد گرد ساری دنیا چکر کاٹ رہی ہے اور یہی ہماری تمام مصائب و مشکلات کی جڑ ہے۔

نہ خوف خدا ہے نہ خوف خدائی

 بشر دے رہا ہے بشر کی دہائی

اگر امام حسین علیه السلام کی حیات طیبہ کے عظیم مقاصد و ہدف کو اجمالی طور پر تاریخ کے آئینے میں دیکھا جائے تو آپ علیہ السلام کی سیرت طیبہ کا نچوڑ سرکارختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دین و شریعت کے احیا میں سمٹ جاتا ہے جیساکہ خود آپ ؑ نے اپنی زندگی ،اپنی تحریک اور اپنے مشن کا مقصدامت کی اصلاح،معاشرہ میں امر بالمعروف، اور ماند اور مٹتی ہوئی سیرت رسولؐ اور سیرت علی ؑ کا احیا اور اس پر عمل ہے۔

امام علیہ السلام نے مدینہ سے مکہ اور مکہ سے عراق کی جو مسافت طے کی ہر منزل و محاذ پر آپؑ نے اپنے قول و فعل سے پوری عالم بشریت بالخصوص امت مسلمہ کو یہ بتانے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام محض نعرے بازی، ہلڑ ہنگامہ،مذمت اور بیان بازی کا دین نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا مذہب و دین ہے جو حیات بعد الممات کی بنیادوں پر کائنات انسانی کو رشدوہدایت کی عملی دعوت دیتا ہے۔ لہذا اسے محض دعوں ،نعروں ،مذمتوں اور بیان بازیوں میں محدود نہ کرو بلکہ اسے اپنے قول و عمل میں اتار لو مگرافسوس ! آج ہم اور ہمارے اعتقادات، عبادات، اصول حیات، اخلاقیات، معاملات اور معاشرت کا محور کیا ہے وہ راقم الحروف سے بہتر آپ خود جانتے ہیں !

عہد حاضر کی یزیدیت مسلمانان عالم کو اسلام کے حدود سے نکال کر کفر کے دہانے پرلا کر کھڑا کردینا چاہتی ہے  جس کی مثال ماضی بعید میں ابن  سعد و ابن زیاد اور عصر حاضر میں میں حالیہ منظر عام پر آنے والے شخص وسیم کی  قرآن  مخالف بیہودہ حرکتیں ہیں ... ابن مرجانہ ہوس اقتدار میں ڈوبا تو ناطق قرآن کی ہتک حرمت سے باز نہ آیا دوسرا یزیدی آلہ کار اٹھا تو صامت قرآن کی توہین کرڈالی۔ یہ سب ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں بس زمانہ الگ ہے ،چہرے الگ ہیں مگر ہدف سب کا ایک ہے۔ موجودہ عہد کی مغربی طاقتیں ایک عرصہ سے اس کوشش میں ہیں کہ مسلمانوں کی عملی زندگی کا قرآن کریم کے ساتھ تعلق قائم نہ رہے اور مسلمان قرآن کریم کو اسی طرح نظرانداز کر دیں جس طرح دنیا کی مسیحی اکثریت نے بائبل کو اپنی عملی زندگی سے لاتعلق کر رکھا ہے مسلمان بھی ان الہی نعمتوں اور فیض رساں وسائل سے دست بردار ہوجائیں ۔

حالیہ ہندوستان میں قرآن مجید کی ہتک حرمت کے پیش نظر یہ بات حق بجانب ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی کوئی قوم اتنی خوش قسمت نہیں کہ اس کے پاس ایسی بابرکت آفاقی کتاب موجود ہو اور کوئی قوم اتنی بدنصیب بھی نہیں کہ جو ایسی عظیم کتاب کی ناقدری کی مرتکب ہو۔اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو اس ناقدری اور ہتک حرمت میں غیر مباشر ہمارے رویے بھی شامل ہیں ! اس لئے کہ سیرت حسین اور تعلیمات قرآن تمام بنی نوع انسانی کے لئے  نسخۂ کیمیا ، دلوں کی شفاء،تعمیرِسماج کی بنیاداور لوگوں کو گمراہی سے نکالنے کا ذریعہ ہے جسے ہم نے محض اپنی جاگیر سمجھ  کر مسلمانوں سے مخصوص کرلیا اگر  گھر کے طاقچوں سے باہر نہیں نکال پائے اور اسے دوسروں تک نہیں پہنچا سکے۔ حالانکہ  قرآن کا ایک حق اس کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانا ‘ اس کی تعلیم کو عام کرنا ہے جسے ہم نہیں کر پائے یہ بات ناقبل تردید ہے کہ قرآن کا تعلیم عام بھی ہو اور دنیا میں فسق و فجور اور قتل و غارتگری کا بازار گرم بھی ہو قرآن کی سیرت عام بھی ہو اور سماج میں  بدعقیدگی ،بے عملی اور تفرقہ آرائی  کے بادل بھی منڈلا رہے ہوں ۔۔۔یہ بات ناقابل ہضم ہے ۔اگر ہماری قوم کے بیدار مغز دلسوز علما و مقررین اور دانشور  نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت کو اپنی نگاہ عقل و بصیرت میں مجسم کرلیں اور اس کا صحیح پیغام مؤمنین کرام تک پہنچائیں تو وہ دن دور نہیں ہے کہ ہماری قوم دنیاوی اعتبارسے دنیا کی تمام قوموں سے بہتر و برتر نظر آئے۔

مگر افسوس !امام حسین علیہ السلام کے فضائل و کمالات اور مصائب و آلام بیان کرنے والوں کی حالت زار یہ ہے کہ وہ دین کے اصول و فروع۔ نماز و قرآن اور ائمہ معصومین ؑ کے ہرارشادات و فرمودات کو مناتے تو ہیں پرنواسۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت امام حسین علیہ السلام  کہ  جوعملی کردار کے روشن نمونے پیش کیے ان پر عمل کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں!سیرت حسین ؑ اور تعلیمات قرآن سے اعراض اور اصول و فروع میں تفریح طبع کا شمول انہیں ہلاکت کے اس دہانے پر لا کھڑا کیا ہے کہ جس پر جتنا سروسینہ پیٹا جائے کم ہے۔

ضبط کرتا ہوں تو ہر زخم لہوں دیتا ہے شکوہ کرتا ہوں تو اندیشۂ رسوائی ہے۔

جس قوم کا ماضی اتنا شاندار تھا کہ اس کی ضیابار کرنوں سے دنیا والے اپنے دل کی اندھیر وادیوں میں روشنی کا دیا جلاتے تھے ،پر آج !اس کا حال اس قدر تاریک تر کیوں ہوگیا ؟ آج مسلسل دانشوران قوم کی طرف سے ان دینی، سماجی، معاشرتی اور اقتصادی پسماندگی کا رونا رویا جارہا ہے۔

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے

اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے

خدا را ! اپنی خواہشاتِ زندگی :"دولت و ثروت ،عزت و شہرت" کی تکمیل کے لئے حسینیت کا خون نہ کیجئے۔ ذرا غور کیجئے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .