۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
News ID: 391959
16 جولائی 2023 - 14:53
ضیاء

حوزہ/ اگر ہَم واقعی مقصد امام حسین (علیہ السلام) کو سمجھیں اور ہر میدان میں امّت کی اصلاح كے لئے اٹھ کھڑے ہوں تو ہماری قوم دُنیا میں ایک آئیڈیل (ideal) قوم اور ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن کر سامنے آئے گا- اِس سے نہ صرف ہماری قوم کا فائدہ ہو گا بلکہ ہَم دوسری دبی کچلی قوموں كے لئے سہارا بن کر انہیں بھی پستی سے بلندی کی طرف لا سکیں گےـ

تحریر: جناب ضیاء زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | امام حسین (علیہ السلام) نے مدینہ سے روانہ ہوتے وقت اپنے بھائی حضرت محمد حنفیہ سے وصیت کی جس میں یہ لکھا کہ میں اپنے نانا کی امّت کی اصلاح كے لئے نکل رہا ہوں- میں چاہتا ہوں کہ لوگوں کو نیکی کی طرف بلاؤں اور برائیوں سے روکوں اور اپنے نانا اور بابا حضرت علی ابن ابیطالب (علیہ السلام) کی سیرت پر چلوں۔

اِس وصیت سے امام کا مقصد بھی واضح ہو رہا ہے اور اس مقصد کو پُورا کرنے كے لئے کیا Line of action ہونا چاہئے اور کیا Guidelines ہونی چاہئے یہ بھی واضح ہو رہا ہے-
یعنی امام کا مقصد یا Objective ہے : اُمّت کی اِصلاح
اس مقصد یا Objective کو پُورا کرنے كے لئے جو Line of action ہے وہ ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی لوگوں کو اچھائی کی طرف بلانا اور برائی سے روکنا-
اور اِس Line of action كے لئے ہمارے سامنے Guidelines ہونی چاہئے، اچھائی اور برائی کا کیا معیار ہے یہ طے ہونا چاہئے- اس کے لئے ہم کو رسولؐ اور امامؑ کی سیرت کو معیار بنانا ہو گا-

جو امام حسین (علیہ السلام) کا مقصد تھا، جو ان کا مشن تھا، وہ دسویں محرم سن 61 ھجری کو ختم نہیں ہوا بلکہ اس نے عالمی سطح کی ایک تحریک اور ظہورامامؑ زمانہ تک جاری رہنے والے ایک Movement کی شکل اختیار کرلی- عزاداری اسی تحریک اور Movement کا نام ہے- قیامت تک آنے والی نسلیں جنہیں امام کی آوازِاستغاثہ سنائی دے رہی ہے اور جو یہ خواہش ظاہر کرتے ہیں کی کاش ہَم کربلا میں ہوتے، وہ آج بھی امام كے اِس تحریک اور مِشن کا حصہ بن سکتے ہیں-

اِس عزاداری كے ذریعے سے ہم کو چاہئے كہ سب سے پہلے ہَم خود اپنی اصلاح کریں- پِھر اپنے اہل وعیال اور اپنے گھر کی پِھر اپنے رشتہ داروں اورمعاشرے کی-

اس کے لئے ہمیں رسول اللہؐ اور ائمئہ معصومین کی سیرت کو ریفرنس لائن (Reference Line) مان کر دیکھنا ہو گا کی کہاں کہاں ہَم لائن سے ہٹ رہے ہیں۔

ہم کو ہرField اور ہر میدان میں یہ دیکھنا ہو گا کہ معصومین کی سیرت کیا ہے اور ہَم کہاں اسٹینڈ (Stand) کر رہے ہیں-

1- کیا ہمارے عقائد وہی ہیں جو معصومین نے بتائے ہیں؟ کیا ہم نے اپنے بچّوں کو عقائد کی تعلیم دی ہے؟ نہ جانے کتنے رسم و رواج ہمارے سماج میں ایسے ہیں جو ہمارے کمزورعقائد کا نتیجہ ہیں- اس کے لئے ہَم کیا کر رہے ہیں؟

2- کیا ہَم اپنی زندگی میں حرام و حلال کا لحاظ رکھتے ہیں؟ کیا ہَم اور ہماری قوم كے بچّے حرام و حلال اور احكام دین سے واقف ہیں؟ جب معاشرے میں حرام کو رائج کیا جا رہا ہو تو کیا ہَم اسکے خلاف کوئی قدم اٹھاتے ہیں؟

3- کیا ہمارا اخلاق وہ ہے جیسا معصومین نے سکھایا ہے؟ کیا غیرمسلیمین كے ساتھ، جس اخلاق کا مظاہرہ معصومین نے کیا تھا، ہَم کرتے ہیں؟

4- کیا ہمارا معاشرہ تعلیم میں اس مقام پر ہے جہاں معصومین نے پہنچانا چاہا ہے؟ کیا اس کے لئے ہَم کچھ کر رہے ہیں؟

5- کیا ہماری اقتصادی حالت (economy) اس لیول پر ہے جس لیول پر معصومین ہمیں لانا چاہتے ہیں؟ کیا ہَم نوجوانوں كے روزگار كے لئے صرف سرکارکوذمہ دارٹھہراتے رہینگے یا خود بھی کچھ کرینگے؟

6- کیا ہم کو politicallyاتنا مضبوط نہیں ہونا چاہئے کہ قوم کو منظم و متحد رکھیں اور ظالم حکمرانوں كے مکرو فریب اور سازشوں میں پھنسنے سے بچاتے رہیں؟ قوم کی ترقّی میں آنے والی مشکلات اور رکاوٹوں کو دور کرتے رہیں؟

اگر ہَم واقعی مقصد امام حسین (علیہ السلام) کو سمجھیں اور ہر میدان میں امّت کی اصلاح كے لئے اٹھ کھڑے ہوں تو ہماری قوم دُنیا میں ایک آئیڈیل (ideal) قوم اور ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن کر سامنے آئے گا- اِس سے نہ صرف ہماری قوم کا فائدہ ہو گا بلکہ ہَم دوسری دبی کچلی قوموں كے لئے سہارا بن کر انہیں بھی پستی سے بلندی کی طرف لا سکیں گےـ
اللہ ہمیں اس قابل بنا دے کہ ہم امام حسین (علیہ السلام) کے مِشن کا حصّہ بن سکیں اور ان کی آوازِ استغاثہ پر لبیک کہتے ہوئے کھڑے ہو سکیں-

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .