۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا تقی عباس رضوی

حوزہ/ شہدائے کربلا کے مشن و مقاصد کی تأسی اور عزاداری امام حسین علیہ السلام کے تئیں ایران و عراق، لبنان و ایران جیسے ممالک میں موجود بیداری ہی ہے جو نہ صرف انھیں داخلی بلکہ خارجی طور پر بھی مضبوط بناتی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید تقی عباس رضوینے مجلس امام حسین علیہ السلام کی افادیت کے سلسلے میں بیان دیتے ہوئے کہا: مجالس و ماتم کی اہمیت و افادیت اور ضرورت سے کسی بھی طرح انکار ممکن نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ عزائے امام مظلوم کربلا پر صرف ہماری فردی تعمیر و ترقی کا ہی انحصار نہیں بلکہ اس میں دنیا کی ساری قوم و ملت اور تمام معاشرہ کے احساس و شعور کو جلا بخشنے کی قوت بھی پنہاں ہے۔

انہوں نے کہا: شہدائے کربلا کے مشن و مقاصد کی تأسی اور عزاداری امام حسین علیہ السلام کے تئیں ایران و عراق، لبنان و ایران جیسے ممالک میں موجود بیداری ہی ہے جو نہ صرف انھیں داخلی بلکہ خارجی طور پر بھی مضبوط بناتی ہے۔لہذا امام خمینی نے اپنی قید حیات میں ساری دنیا بالاخص عزاداران شہدائے کربلا سے یہی کہا کہ :محرم الحرام کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں کہ آج ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ محرم و صفر کی بدولت ہے اور حقیقت میں ماہ محرم اور صفر نے اسلام کو زندہ رکھا ہوا ہے... شہدائے کربلا کی ایثار و فداکاری کا تسلسل اور امام حسین علیہ السلام کا مشن آج بھی جاری و ساری ہے جس نے قیام حسینی کی روشنی میں اسلام کو اپنی روشنی سے روشن اور اسی کے ذریعہ پوری انسانیت کو زندگی اور بندگی کا درس دیاہے...

مولانا نے مزید کہا: اب اگر ہم اپنے سماج بر صغیر کے حالات زار پر ایک اچٹتی نظر ڈالتے ہوئے یہ کہیں تو شاید بیجا نہ ہو کہ لوگوں نے اسے وسیلہ سمجھنے کے ہدف ہی بنا لیا ہے...

مولانا تقی عباس رضوی نے کہا: اے کاش! اگر ہماری قوم کے لوگ اسے اپنے اور اپنے ملک و قوم اور سماج کی اصلاح، تعمیر اور ترقی کے لئے ہتھیار سمجھتے تو ہمارا بھی شمار حسین ابن علی علیہ السلام کے بامعرفت پیروکاروں میں ہوتا اور ان کے الطاف و کرم ہمارے بھی شامل حال ہوتی مگر افسوس تو یہ ہے کہ تو ہمارے سماج کا ایک بڑا طبقہ مجالس حسین علیہ السلام کو صرف ذریعہ ثواب، وسیلہ نام و نمود اور کسب معاش کا ذریعہ سمجھ بیٹھا ہے! جس کی وجہ سے اتنے برسوں سے عزائے امام سے منسلک رہنے کے باوجود آج بھی ہم دنیا کی دیگر قوموں سے پیچھے اور پسماندہ ہیں

مولانا نے کہا: اس لئے کہ اس کی اصل وجہ ہمارا عزائے حسین علیہ السلام کی حقیقت و افادیت سے دوری اور اس کی عظمت و اہمیت سے بے خبری ہےجو ہمارے درمیان موجود ہماری فردی، اجتماعی اور قومی بے چارگی، لاچاری اور بے بسی کا حال بیان کر رہا ہے کہ ہم سب کچھ ہوتے ہوئے دنیاوی سطح پر دیگر اقوام و ملل کے مقابل کس سطح پر کھڑے ہیں!

انہوں نے مزید کہا: اگر ہم عزاداری امام حسین علیہ السلام کو پرسہ داری، ثواب اور ادائیگی فرائض سمجھنے کے ساتھ ساتھ اپنی طرز زندگی کے معیار کو اعلیٰ بنانے اور قوم و معاشرہ کی تعمیر و ترقی کے لئے اسے بطور ہتھیار استعمال کریں تو ہمارا یہ قدم نہ صرف ہمارے لئے ترقی کا باعث بنے گا، بلکہ پوری قوم اور پورا معاشرہ بھی ترقی کی راہ میں نئی منزلیں طے کر سکے گا۔

مولانا نے کہا: بس! ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں رائج فرسودہ نظام فکر اور عزائے حسین علیہ السلام میں آئے دن بڑھتے ہوئے مراسم نو کے بے سود نظام سے نکل کر بیدار اور متحرک ہونا پڑے گا....اور اس سلسلے میں قوم و سماج کے تمام بیدار مغز افرادسیاسی، سماجی خاص کر دینی رہنماؤں اور مقامی علماؤں کو بھی مشعل راہ کا کردار نبھانا ہوگاتب کہیں جاکر عزاداری کا حق ادا ہوسکے گا اور ہم بحیثیت قوم وقت کے امام کے سامنے سرخرو ہونے کے قابل ہوں گے وگرنہ مقصد حسین علیہ السلام کو سمجھے بنا ہم ساری زندگی عزاداری کرتے رہیں اس کا نہ کوئی خاص دنيوي فائدہ ہے اور نہ ہی اخروی اجر و ثواب کی کوئی امید....!

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .