حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مولانا ارشد حسین آرمو کشمیری نے شہادت امیر المومینین حضرت علی علیہ السلام کی مناسبت سے اپنے ایک بیان کہا کہ میں ائمہ اطہار (ع) کی پاک سیرت سے دشمنان بشریت کو ہمیشہ خطرہ نظر آتا ہے۔
انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ خطرہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیرت محمد وآل محمد دشمنان انسانیت کی من مانی اور جہالت کو چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے محمد وآل محمد علیہم السلام کی محبت انسان کو ان کی سیرت پر چلنے کی دعوت دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امام علی علیہ السلام سے حقیقی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ قاتل سے نفرت کے ساتھ ساتھ، حضرت امام علی علیہ السلام کی سیرت کو بھی زندہ رکھا جائے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سیرت کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان کے گفتار و رفتار سے آگاہ ہوں، قاتل امیرالمومنین علی بن ابی الطالب علیہ السلام کے افکار کی شناخت لازمی ہے تاکہ ہم جان سکیں کہ جو شخص حضرت امام علی علیہ السلام کے ساتھ ہمنشیں تھا کیا وجہ بنی کہ وہ قاتل امیرالمومنین علی علیہ السلام بن گیا افسوس کا مقام تب ہوتا ہے جب ہم فقط قاتل کو برا بھلا کہتے ہیں اور امام کے مشن اور سیرت پر عمل نہیں کرتے ہیں جو شخص سیرت امیرالمومنین علی علیہ السلام پر عمل نا کرے گویا وہ بھی قاتل کے مددگاروں میں سے ہے۔کیونکہ قاتل نے امام المتقین علیہ السلام کو اُن کے مشن اور سیرت کی وجہ سے قتل کیا ہے۔
مولانا موصوف نے سیرت امام پر عمل کرنا کیوں ضروری ہے کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ ابن ملجم اور اس کی سوچ رکھنے والے اشخاص کو شکست دینے کا ایک واحد ذریعہ امام کی سیرت پر عمل کرنا ہے یہ جو کچھ ممالک میں شیعیان علی پر حملہ کیے جاتے ہیں یہ وہی کام ہے جو مسجد کوفہ میں ابن ملجم نے 19 رمضان المبارک کی رات میں انجام دیا ۔جب ان کاموں کی طرف دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے ابن ملجم تو واصل جہنم ہوگیا تھا مگر اس کے تفکرات ابھی بھی جامعہ میں موجود ہے پس آج کے زمانے میں تفکرات علوی ،گفتار علوی ،رفتار علوی کی اشد ضرورت ہے۔لیکن اگر فقط ہماری زبان پر علی علی رہا اور ہم زبانوں سے قاتل کو برا بھلا کہتے رہے، لیکن اپنے اعمال کو سیرت علی ابن ابی طالب ؑ کے مطابق انجام نہ دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری محبت فقط چند آنسووں اور نعروں تک محدود ہے۔
آخر میں کہا کہ شہادت کا پیغام امیرالمومنین علی بن ابی الطالب علیہ السلام کا مہمترین پیغام یہ ہے کہ وہ محبت جو صرف زبانوں تک محدود ہو اور سیرت و عمل کی پابند نہ ہو، اسی سے خوارج اور ابن ملجم جنم لیتے ہیں۔