حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کے معروف خطیب و مبلغ حجۃ الاسلام مولانا گلزار جعفری نے پشاور حادثے پر اپنا بیان دیتے ہوئے کہا کہ جس وقت حضرت علی علیہ السلام کے سر پر انیس رمضان المبارک کو ضربت لگائی گئی تھی تو آپ اس وقت سجدہ کی حالت میں نماز کی کیفیت میں اور خانہ خدا یعنی مسجد میں تھے جس نے ضربت لگائی بظاہر وہ بھی نمازی تھا ، ریشہ دراز تھا ، مسلمان تھا مگر ایک ایسا مسلمان جسے نہ مسجد کی حرمت کا پاس تھا نہ ، نماز کی عظمت کا لحاظ، وہ نماز پڑھنے نہیں بلکہ حکومت شام کی جانب سے امام وقت کو قتل کرنے آیا تھا شاید اسی وجہ سے امام نے ضربت لگنے کے بعد ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا :
ایھا الناس لا یفو تکم ابن الیہودیہ
اے لوگوں دیکھو یہ یہودیہ کا بیٹا بھاگنے نہ پایے یعنی امام چاہتے تھے کی قاتل پکڑا جائے۔
خطاب میں ابن یہودیہ کا لفظ اس شبہ کا ازالہ ہے کی ابن ملجم مسلمان ہے اس لیے کہ امام معصوم یعنی بے گناہ انسان کا قاتل چہرے پر نقاب اسلام تو ڈال سکتا ہے دل میں شمع ایمان نہیں جلا سکتا اس کی رگوں میں دوڑتے ہویے نجس اور ناپاک لہو کا تقاضا یہی ہے کہ وہ غیر انسانی اور غیر اخلاقی حرکت کرے تاریخ شاہد ہے کہ بے گناہ افراد کو قتل کرنے والے حتی کے اس جرم کا ارادہ کرنے والوں کے شجرہ نسب تک کو عصمت نے صاف لفظوں میں بیان فرمایا
جب دربار ولید بن عتبہ بن ابی سفیان میں مروان بن حکم طریر رسول ص نے ولید کو یہ مشورہ دیا کہ اگر آج حسین ابن علی ع تیرے ہاتھ سے نکل گیے تو پھر ہاتھ نہیں آینگے یا بیعت لو یا قتل کردو تو اس وقت امام حسین ابن علی ع نے دربار میں با آواز بلند یہ فقرہ ارشاد فرمایا تھا
یابن الزرقائ
اے زن نیلگوں چشم کی اولاد یعنی اے خیانت کار ماں کے جنے
اسکا مطلب ہیکہ امام معصوم ایک قاعدہ کلیہ بتا رہے تھے کہ بے گناہ انسان کا قاتل صرف غیر حلالی ہی ہو سکتا ہے لہذا اگر آج بھی آل یہود و آل سعود کے زنا زادہ اپنے اس نجس لہو کی تاثیر دیکھا رہے ہیں تو محل تعجب نہیں ہے گندہ خون ، نیچ ذات ،پست فطرت،گھٹیا لوگ ، اپنا اثر ضرور دیکھاتے ہیں امت مسلمہ کی ذمہداری ہے کہ اولاد بنی امیہ اور نسل ابن ملجم و ابن زیادو پسر سعد سے ہو شیار رہیں ان کے چہرے سے نقاب اسلام ضرور نوچ لیں اس لیے کی یہ ملک ری کی گندم پر رال ٹپکانے والے حریص ، سگ صفت درندہ صرف ہوای و ہوس کے پجاری ہیں انھیں مسلمان گرداننا اسلام اور مسلمانوں کی توہین ہے چونکہ ایک مسلمان کا مختصر ترین محکم و مستحکم عقیدہ یہ ہیکہ مسجد اللہ کا گھر ہے اس میں قرآن مجید موجود ہوتی ہے جو لوگ نمازی کہے جاتے ہیں وہ کلمہ شہادتین جاری کرتے ہیں لہذا وہ مسلمان ہیں جو مسجد میں نماز و تلاوت قرآن مجید کرتے ہیں اب کون مسلمان ہے جو قرآن مجید کو نذر آتش کرنے، اور بے گناہوں کے قتل عام اور حرمت خانہ خدا کو پایمال کرنے کے بعد یہ سوچے کہ میں شہید ہو رہا ہوں سیدھا جنت میں حورالعین کی آغوش میں جا رہا ہوں یہ عقیدہ اور یہ سوچ کار احمقانہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور یہی استعمار کا استحصال ہے جو وہ سادہ لو افراد کا کر رہا ہے مساجد میں خود کش دھماکہ کرنے والوں کو مسلمان سمجھنے والے صرف نسل سفیانی ہی ہو سکتے ہیں رحمانی مسلمان نہیں عالم اسلام کی اس وقت سب سے بڑی ذمہداری یہ کہ وہ اپنے اندر چھپے ہویے دہشتگردوں کو مسلمان کہنا اور ماننا بند کریں آل سعود و آل یہود کی پالیسیوں کو سمجھیں اور ان کے سیاسی مفادات کا حصہ بن کر اپنے اسلامی، فکری، ثقافتی،اقتصادی ، اور اخلاقی فریضہ کو مجروح نہ کریں سانحہ پیشاور مکتب تشیع کی حقانیت کی ایک اور محکم دلیل ہے دشمن ہم سے شہادت کا عزم و حوصلہ کبھی نہیں چھین سکتا مساجد میں خود کش دھماکہ ابن ملجم کی سیرت ہے اور سجدہ میں شرف شہادت سیرت امیر بیان و سخن حضرت علی علیہ السلام ہے گویا آج بھی دونوں فکریں موجود ہیں ایک ظالم کی فکر ایک مظلوم کی فکر امت مسلمہ کو اختیار ہے جسے چاہے رضی اللہ کہے جسے چاہے لعنت اللہ کہے ۔
پیشاور میں ہو نے والی شہادتیں ہماری قوم تشیع کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے ہم نے کٹے ہویے سر سے سر دار تلاوت کی، تو کٹی ہوئی زبان سے تخت دار پہ مدح حیدر کرار کی، بازوں کٹا کر بھی شہ کی وفاداری کی ، سینۂ پہ برچھی کا پھل قبول کر کے وحدت کی تجلی کا اعلان کیا ، ظلم نے جسم کو قید کیا مگر روح نے ہمیشہ حریت کے چراغ جلانے ہیں ہاتھوں کی ہتکڑیوں نے مظلوں کی حمایت سے کبھی نہیں روکا ، پیروں کی گراں قدر بیڑیوں نے صراط صبر پر لرزہ بر اندام نہ ہونے دیا ، گلے کے طوق خار دار کو فتح و ظفر کا ہار بنایا ناکامی و نامرادی کا تصور بھی نہیں کیا کربلا کے ہولناک سناٹے سے لیکر دربار شام کے شور شرابہ تک ہمارا ہی شعور شراب نوشوں کے سامنے ابھرتا رہا ظلم کی آنکھوں میں ہمیشہ ہی تشیع کی شجاعت کھٹکتی رہی ہے مگر زمین کے ذرے اور فلک ستارے شاہد ہیں کی شہادت میں کثرت ، برکت اور حیات ہمارے ہی مقدر میں کاتب تقدیر نے لکھی ہے ہر دور میں شہادت کا شیریں جام ہماری قوم کے با شعور افراد نے نوش کیا ہے زہر کے پیالوں سے لیکر کوفہ کے گلیاروں تک ہمارے ہی خون کے قطرے ملیں گے ، جب جب اسلام کی رگوں کا لہو بنی امیہ بھیڑیوں نے چوس کر لب گور پہونچانے کی سعی لا حاصل کی تب تب خاندان عصمت و طہارت نے قربانیوں کے لیے مقتل سجایے ہم تو ہمیشہ قبائ شہادت کو شانوں پر سجایے مصلی عبادت پر نظر آیے دنیا کی سوشل میڈیا نے یہ نظارہ بھی دیکھ ہی لیا کہ جس مسجد میں نماز جمعہ میں تقریبا ٥٨ سے زیادہ افراد جاں بحق ہویے اسی مسجد میں اسی روز نماز مغرب میں ایک کثیر تعداد موجود دیکھائی دی دن بھر لاشیں اٹھا نے والے ، اپنی نگاہوں سے مسجد کے سرخ رنگ میں ڈوبے ہویے نظارہ کو دیکھنے والے ، دھماکہ کی آواز کو اپنے کانوں سے سننے والے ، اپنے کاندھوں پر جنازے اٹھا نے والے ، خون میں غلطاں معصوم نمازیوں کے پر نور چہروں کے دیدار کے باوجود شہیدوں کے بکھرے ہویے اعضائ و جوارح کو ملاحظہ کرنے کے بعد بھی، وحشت و دہشت ، خوف ہراس کے ماحول میں بھی استقامت اطمینان نفس کے ساتھ نماز مغربین میں شرکت سوایے کربلا سے متصل قوم کے کسی کے بس میں نہیں ۔
سلام ہونماز مغربین کے ان مشتاق شہادت افراد کی شجاعت پر ،
سلام ہو باقی رہ جانے والے ان نمازیوں پر جو استقامت و پائیداری کا ثبوت بنے،
سلام ہو صراط صبر پر ثبات قدم کا مظاہرہ کرنے والوں پر ،
سلام ہو ان جیالوں کی بہادر ماووں پر جنھوں نے دوبارہ میدان شہادت میں سنوار کے بھیجا ،
سلام ہو ان شہیدوں پر جنھوں نے علی علیہ السلام جیسے شہید کی سیرت کا لباس شہادت زیب تن کیا ،
سلام ہو محراب جمعہ کے ان شجاع ترین شہیدوں پر،
پیشاور میں ہو نے والے اس دردناک عمل شنیع کی پر زور مذمت کرتے ہیں اور حکومت پاکستان سے دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی اپیل کرتے ہیں اس مشورہ کے ساتھ کے کفر سے حکومت چل سکتی ہے مگر ظلم سے نہیں چلائی جا سکتی جو لوگ خانہ خدا کی حرمت پایمال کر رہے ہیں وہ با قول آپ کے مملکت خدا داد کا احترام کیا کریں گے، قبل اس کے کی یہ انسانیت کے دشمن درندہ صفت افراد آپ کی پاک سرزمین کو نجس کریں ان کے ناپاک عزایم کو بظاہر پاک سرزمین سے پاک کردیں، ملک کی سالمیت کے لیے عبادت گاہوں کے دشمنوں کو نست و نابود کرنا ضروری ہے ۔
آخر میں دعا ہے ذات رب ذوالجلال والاکرام سے کی ظالمین کا قلعہ قمع فرما اور مظلومین عالم کی حفاظت فرما مالک تیرے گھر کو ڈھانے والوں کو تیرے غضب کا مزہ چکھا ہمارے شہیدوں پر رحمتوں کا نزول فرما پسماندگان ، کو صبر جمیل عطا جزیل مرحمت فرما ئے۔
بانی ادارہ حبل المتین