حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ماہرین تاریخ اور ملحدوں کی طرف سے شیعوں پر اکثر شکوک و شبہات وارد کئے جاتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی مسلمانوں اور اہل بیت (ع) کے درمیان خاندانی تنازعہ اور جھگڑا رہا ہے۔
ان کا عقیدہ ہے کہ شیعہ، لا علمی کی وجہ سے اہل بیت(ع) اور ان کے دشمنوں کے درمیان اختلاف میں گرفتار ہیں۔ مثال کے طور پر، ان کا دعویٰ ہے کہ ام البنین (ع) جو کہ امیر المومنین علی (ع) کی معزز زوجہ ہیں، وہ امام حسین (ع) کے قاتل شمر بن ذی الجوشن کی بہن ہیں؛ اس وجہ سے شیعوں کو شمر پر لعنت نہیں کرنی چاہیے، اسی طرح یہ کہ یزید کی بہن بھی امام حسن علیہ السلام کی بیوی ہے لہذا شیعہ یزید کی توہین نہ کریں۔
اس شبہ کے جواب میں چند نکات بیان کرنا لازمی ہے:
پہلا نکتہ:
گالی دینا کبھی بھی شیعوں کا شیوہ نہیں رہا ہے، نیز ائمہ اطہار علیہم السلام نے اپنی شیعوں کو تعلیم دی ہے اور منع فرمایا ہے کہ کبھی بھی دشمنان اہلبیت (ع) کو گالیاں نہ دینا۔ اس مدعا کو ثابت کرنے کے لیے یہ دلیل کافی ہے کہ امیر المومنین علی (ع) نے جنگ صفین کے دوران اپنے اصحاب سے فرمایا: "میں پسند نہیں کرتا کہ تم دشمنوں کو گالیاں دو، لیکن اگر تم ان کے اعمال بدکو بیان کرو اور ان کا طریقہ کار بیان کرو تو یہ حقیقت کے قریب تر ہو جائے گا۔ [1]
دوسرا نکتہ:
مورخین اور شیعہ دشمن تاریخ کو توڑ مروڑ کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ شمر کا تعلق ام البنین (س) سے تھا۔
مورخین کا دعویٰ ہے کہ شمر نے شب عاشور جب وہ حضرت ابو الفضل العباس (ع) کے پاس امان نامہ لے کر آیا تو حضرت کو اپنا بھانجا کہہ کر خطاب کیا، تاہم، مستند اسلامی کتب میں کسی طرح کا حضرت ام البنین (ع) اور شمر بن ذی الجوشن کے قریبی خاندانی تعلقات کا کوئی ذکر نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ ان کے درمیان قرابت داری اور رشتہ داری تھی۔ یا یہ کہ قمر بنی ہاشم (ع) اور شمر ابن ذی الجوشن کے درمیان کسی بھی اعتبار سے رشتہ ملتا ہو، نیز ام البنینؑ کے والد حزام بن خالد ربیعہ تھے اور شمر کا باپ جوشن بن شرجیل ابن الاعور تھا۔
البتہ یہ بات صحیح ہے کہ شمر بن ذی الجوشن اور ام البنین (س) دونوں قبیلہ بنی کلاب سے ہیں لیکن وہ کبھی بھائی یا بہن نہیں تھے۔ عربوں میں یہ رواج تھا کہ لڑکی کسی دوسرے قبیلے سے شادی کر لیتی، چاہے چند نسلیں ہی کیوں نہ گزر جائیں، اس کی اولاد کو انہی القاب و صفات سے یعنی بھانجا کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا۔
مرحوم مقرم نے اپنی کتاب میں صاحبان مقاتل سے اس قربت کے تعلق سے لکھا ہے، وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: "شمر ابن ذی الجوشن اور حضرت عباس کی والدہ دونوں قبیلہ "کلاب" سے ہیں۔ ان دونوں کا شجرہ نسب چند واسطوں کے بعد’’کلاب‘‘ تک پہنچتا ہے اور ’’کلاب‘‘ کے گیارہ بیٹے تھے۔ ان میں سے ایک کا نام "کعب" اور ایک کا نام "ضباب" تھا۔ "حضرت ام البنین کعب کی نسل سے ہیں اور شمر ضباب کی نسل سے ۔"
مرحوم مقرم ام البنینؑ اور شمر بن ذی الجوشن کے شجرہ نسب تذکرہ کرتے ہوئے شمر کے سلسلہ نسب کے بارے میں لکھتے ہیں: "شمر ابن ذی الجوشن (جمیل) ابن اعور (عمرو) ابن ضباب (معاویہ) ابن کلاب ہے۔" [2]۔
اگر ہم ان سطور کو یکجا کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کلاب کے نواسے تھے اور شمر بن ذی الجوشن ملعون کلاب کا پوتا تھا۔
تیسرا نکتہ:
اہل بیت (ع) کے دشمنوں کا دعویٰ ہے کہ امام حسن (ع) نے یزید کی بہن سے شادی کی تھی، البتہ ان کے پاس اپنے دعوے کی کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی کسی معتبر کتاب کا حوالہ دیا ہے۔ البتہ شیعہ اور سنی دونوں کی تاریخی کتابوں میں کسی بھی طرح کا کوئی ذکر نہیں کہ امام حسن علیہ السلام کی ازواج میں سے کوئی بھی معاویہ کی بیٹی رہی ہوں، اور اگر کوئی دعوی کرتا ہے تو اسی اس سلسلے میں ٹھوس دلیل اور معتبر کتابوں کا حوالہ پیش کرنا ہوگا۔
حوالہ:
[۱]. علامه مجلسی، بحار الأنوار، دار إحیاء التراث العربی - بیروت، چاپ دوم، ۱۴۰۳ هـ، ج۳۲، ص۵۶۱.
[۲]. سید عبد الرزق موسوی مقرم، مقتل الحسین، ص۲۰۹، منشورات دار الثقافه و النشر، نقل از جمهره انساب العرب، ص۲۶۱ الی ۲۷۰.