۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
عسکری امام خان

حوزہ/ امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے جب شب عاشور یہ درخواست کی کہ یہ دشمن صرف ہمارے خون کے پیاسے ہیں، لہذا وہ انہیں چھوڑ کر چلے جائیں تو متفقہ طور پر سب نے کہا کہ اگر ہمیں میں ہزار بار بھی مارا جائے اور پھر زندہ کیا جائے اور پھر مارا جائے جب بھی ہم آپ کے قدموں میں جان نثار کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔

تحریر: حجۃ الاسلام مولانا عسکری امام خان

حوزہ نیوز ایجنسی | تاریخ کی کتب نے (مقاتل نے) شب عاشور کے واقعات تحریر کرتے ہوئے ہوئے اس نکتہ کی طرف خاص توجہ کی ہے کہ امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے جب شب عاشور یہ درخواست کی: کہ یہ دشمن صرف ہمارے خون کے پیاسے ہیں، لہذا وہ انہیں چھوڑ کر چلے جائیں تو متفقہ طور پر سب نے کہا کہ اگر ہمیں میں ہزار بار بھی مارا جائے اور پھر زندہ کیا جائے اور پھر مارا جائے جب بھی ہم آپ کے قدموں میں جان نثار کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔

جیسا کہ زیارت ناحیہ مقدسہ میں امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف نے سعید بن عبداللہ حنفی کو یاد فرمایا ہے: "السَّلامُ عَلى سَعدِ بنِ عَبدِ اللّهِ الحَنَفِيِّ، القائِلِ لِلحُسَينِ وقَد أذِنَ لَهُ فِي الانصِرافِ: «لا وَاللّهِ لا نُخَلّيكَ حَتّى يَعلَمَ اللّهُ أنّا قَد حَفِظنا غَيبَةَ رَسولِ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيهِ وآلِهِ فيكَ، وَاللّهِ لَو أعلَمُ أنّي اقتَلُ ثُمَّ احيى ثُمَّ احَرُقُ ثُمَّ اذرى، ويُفعَلُ بي ذلِكَ سَبعينَ مَرَّةً ما فارَقتُكَ، حَتّى ألقى حِمامي دونَكَ"(۱).

" سلام ہو سعد بن عبداللہ حنفی پر، اس وقت کہ جب حسین علیہ السلام نے ان کو جانے کے لیے کہا، تو کہنے لگے: نہیں خدا کی قسم ہم آپ کو ترک نہیں کر سکتے، یہاں تک کہ خدا جان لے کہ اس کے رسول کی غیر موجودگی میں ہم نے آپ کی پاسداری کی ہے ، خدا کی قسم اگر مجھے معلوم بھی ہو کہ آپ کی راہ میں مارا جاؤں گا اور پھر زندہ کیا جاؤں گا، پھر جلا دیا جاؤں گا، پھر ہواؤں میں منتشر کر دیا جاؤں گا، اور ہمارے ساتھ ستر بار یہ کیا جائے گا، تو بھی ہم آپ سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ اپنی جان کا نذرانہ آپ کی راہ میں پیش کردیں ۔ ۔ ۔ "

تمام اصحاب و انصار اور اقرباء نے امام (ع) کی رکاب میں شہید ہونے کو اپنے لئے افتخار جانا اور کوئی بھی امام کو چھوڑ کر جانے پر حاضر نہ ہوا، یہاں تک کہ امام (ع) نے شمع گل کر دی، کہ اگر کوئی جانے سے شرم کرے تو تاریکی کا فائدہ اٹھا کر چلا جائے۔

اتنا ہی نہیں بلکہ بعض مورخین نے یہاں تک لکھا ہے کہ امام (ع) نے کہا: میرے عزیزوں میں سے کسی کا ہاتھ پکڑ کر یہاں سے نکل جاؤ، ہم تمہاری جنت کی ضمانت لیتے ہیں،پھر بھی امام کو تنہا چھوڑ کر جانے پر کوئی راضی نہ ہوا، اس مقام پر امام کا وہ معروف جملہ نقل کیا جاتا ہے کہ آپ نے فرمایا: فإني لا أعلمُ أصحاباً أولى ولا خيراً من أصحابي، ولا أهلَ بيت أبرَّ ولا أوصل من أهل بيتي " (٢)

"مجھے نہیں معلوم کہ میرے اصحاب سے بہتر اور برتر کسی کو اصحاب ملے ہوں اور نہ ہی میرے اہل بیت سے سے نیک اور جڑنے والے(صلہ رحمی کرنے والے) اہلبیت کسی کو ملے ہوں"

البتہ کربلا سے پہلے پہلے بعض کتابوں میں ملتا ہے کہ کچھ لوگوں نے امام (ع) کا ساتھ چھوڑا ہے، "زبالہ نامی مقام پر جناب مسلم ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن یقطر کی خبر شہادت کے بعد امام (ع) نے اس خبر کو اعلان کرتے ہوئے فرمایا: " فمن احب منكم الانصراف فلينصرف ليس عليه منا ذمام"(۳)

"پس تم میں سے جو جانا چاہتا ہے وہ چلا جائے، میں اپنی بیعت اس پر سے اٹھا رہا ہوں"

لکھتے ہیں کہ اس وقت گروہ گروہ لوگوں نے امام کو چھوڑا ہے، یہاں تک کہ صرف چند لوگوں کی تعداد امام کے ساتھ باقی بچی تھی اور وہ تقریبا وہی لوگ تھے جو امام کے ساتھ مدینہ سے چلے تھے ،

اور ترک کرنے والے لوگوں میں بھی اکثریت اعرابی کی تھی، جو اس خیال سے امام علیہ السلام کی ہمراہی کر رہے تھے کہ امام (ع) وہاں پہنچ کر حکومت قائم کریں گے، اور یہ لوگ امام (ع) کی حکومت میں سکون کی زندگی گزاریں گے ، لیکن اہل کوفہ کی بے وفائی اور جناب مسلم کی شہادت کی خبر کے بعد ان کے ان ارمانوں پر پانی پھر گیا (۴) ، لہذا ایسے لوگ ظاہر سی بات ہے کہ جب ان کا ہدف فوت ہو گیا تو وہ امام (ع) کا ساتھ کیوں دیں گے۔

اس منزل کے بعد کسی بھی معتبر منابع میں نہیں ملتا کہ کسی نے امام (ع) کو ترک کیا ہو ، جز ایک غیر معتبر اور مجہول کتاب بنام " نور العیون" جو کہ بہت بعد میں بھی لکھی گئی ہے ، اس کتاب میں سکینہ بنت الحسین سے ایک روایت منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ایک لشکر نے دس دس، بیس بیس، کر کے میرے بابا کو تنہا چھوڑ دیا، اور پھر اس روایت کے آخر میں ذکر ہے کہ جناب سکینہ نے ان لوگوں پر نفرین بھی کی ہے(۵)

بہر کیف واضح سی بات ہے کہ یہ ضعیف روایت ان تمام معتبر روایتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی ، خاص کر شب عاشور سے متعلق وہ روایتیں جس میں امام علیہ السلام کی گفتگو اپنے اصحاب اور اہل بیت کے ساتھ ذکر ہوئی ہے، یا اصحاب و اہلبیت کی گفتگو امام علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے، جو مشہور بھی ہے، اور معتبر کتابوں میں منقول بھی، ہرگز وہ روایت ان روایتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی ، لہذا اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

بہرحال معتبر منابع سے معلوم ہوتا ہے کہ کربلا پہنچنے کے بعد امام کے اصحاب و انصار میں سے کسی نے بھی آپ کو ترک نہیں کیا ہے ۔

اب سوال کے دوسرے حصے پر نظر کرتے ہیں کہ شب عاشور امام (ع) کے ساتھیوں کی تعداد کتنی تھی.

روز عاشور امام (ع) کے ساتھیوں کی تعداد مختلف منابع میں مختلف بیان کی گئی ہے۔

جیسا کہ بعض مورخین نے جیسے طبری نے سو لوگوں کی تعداد رقم کی ہے، کہ جس میں پانچ فرزندان علی علیہ السلام سولہ بنی ہاشم اور باقی مختلف قبیلوں کے لوگ شامل ہیں (۶).

ابن شہر آشوب نے ۸۲ لوگوں کی تعداد تحریر کی ہے (۷).

"ابن نما" کی جن کا شمار چھٹیں اور ساتویں ہجری کے بزرگ شیعہ علماء میں ہوتا ہے، آپ امام (ع) کے اصحاب کی تعداد ایک سو پینتالیس لکھتے ہیں(۸)، اور یہی تعداد سبط بن جوزی کے نزدیک بھی مورد تائید ہے(۹)، اور امام باقر علیہ السلام کی ایک روایت سے بھی اس قول کی تائید ہوتی ہے(۱۰).

اور سب سے عجیب قول یہ ہے کہ مسعودی نے اپنی کتاب "مروج الذھب" میں تحریر کیا ہے کہ کربلا پہنچتے پہنچتے امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کی تعداد پانچ سو(۵۰۰) سوار اور سو (۱۰۰) پیدل کی تھی(۱۱).

لیکن مشہور قول جو آج تک اکثریت کے درمیان شہرت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کی تعداد کربلا میں بہتر تھی جس میں بتیس (۳۲) سوار تھے اور چالیس (۴۰) پیدل ، (۱۲)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) احمد بن یحیی بلاذری ؛ انساب الاشراف؛ جلد ۱۲ صفحہ ۲۴۸.

(٢) وقعة الطف ، صفحہ ۱۹۷، طبقات ابن سعد، جلد ۵، صفحہ ۱۹۹. شيخ مفيد، الارشاد؛ صفحہ ۴۴۲, تاریخ طبری ، جلد ۵، صفحہ ۴۱۸.

(۳) وقعۃ الطف ؛ صفحہ ۱۶۶.

(۴) وقعۃ الطف ؛ صفحہ ۱۶۶.

(۵) اكسير العبادات في اسرار الشهادات؛ جلد ٢ ، صفحہ ۱۸۲.

(۶) تاریخ طبری؛ جلد ۵ ، صفحہ ۳۹۳.

(۷) المناقب؛ جلد ۴، صفحہ ۹۸.

(۸) مثیر الاحزان؛ صفحہ ۲ و ۲۸۔

(۹) تذکرۃ الخواص؛ صفحہ ۱۴۳.

(۱۰) بحارالانوار، جلد ۴۵ صفحہ ۴.

(۱۱) مروج الذھب؛ جلد ۳ ، صفحہ ۷۰.

(۱۲) انساب الاشراف؛ جلد ۳ صفحہ ۱۸۷؛ _ دینوری؛ الاخبار الطوال؛ صفحہ ۲۵۴.ابن اعثم، الفتوح؛ جلد ۵، صفحہ ۱۸۳. بحار الانوار ، جلد ۴۵، صفحہ ۴._ فتال نیشاپوری؛ روضۃ الواعظین ؛ صفحہ ۱۵۸. و ۔ ۔ ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .