۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
علامہ ساجد نقوی

حوزہ / قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا: امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا مقصد ذات، مفادات، شہرت، دولت، حکومت یا نمود و نمائش نہیں بلکہ اصلاح امت اور فلاح اُمت تھا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، 8اگست 2022ء کو قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے عاشورہ محرم الحرام 1444ھ کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا: نواسۂ پیغمبر اکرم (ص)، سید الشہداءؑ، امام عالی مقام کسی خاص مکتب یا گروہ کے نہیں بلکہ پوری امت کے ہادی، پیشوا اور امام ہیں۔

انہوں نے کہا: آپ علیہ السلام کے خطبات، مکتوبات اور وصایا نے واضح کردیا کہ آپ کی جدوجہد، آپ کا سفر، آپ کا قیام، آپ کی شہادت اور پھر آپ کے خانوادے کے پابہ زنجیر طویل سفر کا مقصد ذات، مفادات ، شہرت ، دولت ، فقط حکومت یا نمود و نمائش نہیں تھا بلکہ صرف اور صرف اصلاح امت اور فلاح امت تھا۔ اس جدوجہد نے اس اصول کی بنیاد ڈال دی ہے کہ جب بھی، جس دور میں بھی، جس خطے میں بھی اور جن حالات میں بھی اس قسم کی صورت حال درپیش ہو تو عظیم مقاصد اور اجتماعی مفادات کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔

تاریخ شاہد ہے کہ 10 محرم 61 ھ کے بعد جب بھی حریت کی تاریخ رقم ہوئی، جب بھی ظلم کے خلاف قیام کا مرحلہ آیا، جب بھی فساد کے خاتمے کی جدوجہد ہوئی اور جب بھی جبر سے مسلط رہنے والی حکومتوں کی مزاحمت کی بات نکلی تو سب حریت پسندوں اور تمام تحریکوں نے حسین اور کربلا سے ضرور استفادہ کیا۔

قبل ازیں عاشورہ کا لغوی اور لفظی مفہوم علمی حد تک تو عیاں تھا لیکن 61 ھ کے بعد روز عاشور امام حسین ؑ کے اسم گرامی کے ساتھ منسوب ہوگیا اور عاشورہ کی عملی شکل امام عالی مقام کے کردار سے سامنے آئی اور اس انداز سے اجاگر ہوئی کہ عاشورہ حریت کی ایک تعبیر بن گیا اور جب بھی عاشورہ کا ذکر ہوا تو انسان کے ذہن میں امام حسینؑ اور ان کی لازوال قربانی کا نقش اجاگر ہوا۔

روز عاشور سے قبل شب عاشور بھی اپنے اندر ایک الگ تاریخ کی حامل ہے جب امام عالی مقام نے عاشورا کے حقائق سے اپنے ساتھیوں ، جانثاروں اور بنو ہاشم کو آگاہ کیا اور انہیں بتایا کہ عاشورا برپا ہونے کی عملی شکل کیا ہوگی؟ اور اس میں کس کس کو کیا کیا قربانی دینا پڑے گی؟ آپ نے جب اپنے اصحاب و انصارکو عاشورا کی حقیقت یعنی اٹل موت سے باخبر کیا تو ساتھ ساتھ انہیں اپنے راستے کے انتخاب کی آزادی بھی فراہم کی اور کسی قسم کا حکم یا جبر اختیار نہیں کیا بلکہ انہیں اختیار دیا کہ وہ عاشورا کے راستے کا انتخاب کریں یا کربلا سے چلے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ شب عاشور جب چراغ گل کرایا گیا تو انسانوں کی تقسیم نہ ہوئی بلکہ ضمیروں کی شناخت ہوئی۔ کھوکھلے دعووں کی بجائے نظریہ کی پختگی کا اندازہ ہوا اور چند لمحوں کی وابستگی دائمی نجات کی ضامن بن گئی۔تعلیمات اور سیرت امام حسین ؑ کی روشنی میں اصلاح امت کا سلسلہ ماضی میں بھی جاری رہا اور اب بھی جاری ہے۔

برائیوں اور مفاسد کو دور کرنے اور دنیا کو ایک ہمہ گیرعادلانہ نظام فراہم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اصلاح امت کا بنیادی فریضہ انجام دیا جائے۔ یہ فریضہ انجام دینے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ امام حسین ؑ کے فرامین، کردار، سیرت، انداز عمل اور جدوجہد سے استفادہ کریں۔ اصلاح امت کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے اپنے مسلکی، فروعی، ذاتی اور جماعتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اتحاد امت، وحدت امت اور اصلاح امت کا مشن جاری رکھیں۔آج کی صورت حال 61 ھ کی صورت حال کے مشابہ ہے لیکن انداز و ماحول نیا ہے۔آج بھی حسین ؑ ابن علی ؑ کربلا سے صدائیں بلند کر رہے ہیں کہ کوئی آئے اور ہمارا ساتھ دے۔آئیے ہم حسین ؑ ابن علی ؑ کا ساتھ دیں اور ان کی صدا پر لبیک کہیں۔

احکام خداوندی اور شریعت نبوی پر عمل پیرا ہو کر اپنے اچھے اور مضبوط کردار کے ذریعے، کردار سیدہ زینب ؑ اور سیرت حضرت زین العابدین ؑ پر عمل کے ذریعے، مشن حسین ؑ اور اسلام کے عادلانہ نظام کے لیے عملی جدو جہد کے ذریعے، دشمن کے عزائم اور مظالم سے اتحاد و اخوت اور وحدت کے ساتھ نبرد آزما ہونے کے ذریعے ....اور اس راستے میں اگر مشکلات پیش آئیں حتی کہ شہادت کی سعادت بھی نصیب ہو تو اس کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھا جائے بلکہ حالات کا تقاضا ہے کہ ایک اور عاشورہ برپا کرنے کے لیے آمادہ رہا جائے۔

آخر میں علامہ سید ساجد علی نقوی نے فلسطینی دارالحکومت غزہ کے مختلف مقامات پر تیسرے روز بھی اسرائیلی طیاروں کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں معصوم شہریوں کے شہادتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل کی غزہ پر مسلسل وحشیانہ بمباری پر اقوام عالم کی مجرمانہ خاموشی قرار دیتے ہوئے حملوں کی شدیدی الفاظ میں مذمت کی اور عالم اسلام سے مطالبہ کیا کہ نہتے فسلطینیوں پر اسرائیلی حملے رکوانے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .