۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
علامہ ساجد نقوی

حوزہ / علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا: کربلا ایک کیفیت، ایک جذبے، ایک تحریک کا نام ہے۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ایک اور عاشورہ برپا کرنے کے لیے آمادہ رہا جائے،یہی ہر دور کا پیغام عاشور ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، پاکستان کے شمالی علاقہ جات سمیت بعض حصوں میں قدیم روایات کے مطابق شمسی لحاظ سے 10 اگست اور برج اسد کی 18 تاریخ کی مناسبت سے عاشورہ اسد منایا جاتا ہے۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے عاشورہ اسد کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا: یزید کا دور ایسا تھا کہ احکام اسلام کو کھلواڑ بنا کر، اطاعت خداوندی کو ترک کر کے، شیطان کی پیروی کو اپنا نصب العین بنا کر، قرآنی احکامات اور سنت رسول ؐ میں تحریف کر کے، اسلامی تعلیمات کو نابود کر کے، عدل اجتماعی کے تصور کا خاتمہ کر کے، بنیادی انسانی حقوق سلب کرکے، معاشی و سماجی ناانصافی قائم کر کے، خدا کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال میں بدل کر، بدعتیں زندہ کرکے، فحاشی وعریانی کو فروغ دے کر اور قومی خزانے کو اپنے ذاتی و حکومتی مفادات و مقاصد کے لیے استعمال کر کے دین الہٰی میں تبدیلی کی جارہی تھی، شریعت محمدی ؐ کا حلیہ بگاڑا جا رہا تھا۔

انہوں نے کہا: محسن انسانیت، نواسہ رسول (ص) حضرت سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام نے بزور مسلط کی جانیوالی حکمرانی کوماننے سے انکار کردیا، اسلامی اصولوں اور بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی نفی پر مبنی جابرانہ نظام کو تسلیم نہ کیا، اوپرے کلچر اور تہذیب کو ٹھکرا دیا اور اصلاح امت، معروف (نیکی) کو پھیلانے اورمنکر (برائی) کومٹانے کے لیے مدینہ سے ہجرت اختیار کی اور اس راستے میں جتنی بھی مشکلات پیش آئیں، برداشت کیں حتی ٰکہ شہادت کی سعادت کو بھی قبول کیا اس کے لیے ہمیں بھی اپنے آپ کو تیار رکھنا چاہیے۔

علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا: حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ایک اور عاشورہ برپا کرنے کے لیے آمادہ رہا جائے،یہی ہر دور کا پیغام عاشور ہے۔مزید برآں کربلا ایک کیفیت، ایک جذبے، ایک تحریک اورا یک عزم کا نام بن چکی ہے۔واقعہ کربلا میں اس قدر ہدایت، رہنمائی اور جاذبیت ہے کہ وہ ہر دور کے ہر انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔اس واقعہ کے پس منظر میں نواسہ رسول اکرم ؐ حضرت امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد، آفاقی اصول اور پختہ نظریات شامل ہیں۔

آپ نے واقعہ کربلا سے قبل مدینہ سے مکہ اور مکہ سے حج کے احرام کو عمرے میں تبدیل کرکے کربلا کے سفر کے دوران اپنے قیام کے اغراض و مقاصد کے بارے میں واشگاف انداز سے اظہار کیا اوردنیا کی ان غلط فہمیوں کو دور کیا کہ آپ کسی ذاتی اقتدار "جاہ و حشم کے حصول" ذاتی مفادات کے مدنظر یا کسی خاص شخصی مقصد کے تحت عازم سفر ہوئے ہیں اور موت جیسی اٹل حقیقت کے یقینی طور پر رونما ہونے کے باوجود بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .