۲۰ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 9, 2024
کربلا

حوزہ/ انسانی تاریخ میں ان گنت تحریکوں نے جنم لیا بہت سے انقلابات رونما ہوئے۔ لیکن کسی ایک تحریک اور انقلاب کو عاشورہ جتنی دائمی اور لافانی حیثیت حاصل نہیں ہوئی۔

تحریر: مجتبیٰ علی شجاعی

در نوائے زندگی سوز از حسینؑ

اہلِ حق حریت آموز از حسینؑ

(اقبالؒ)

حوزہ نیوز ایجنسی| انسانی تاریخ میں ان گنت تحریکوں نے جنم لیا بہت سے انقلابات رونما ہوئے۔ لیکن کسی ایک تحریک اور انقلاب کو عاشورہ جتنی دائمی اور لافانی حیثیت حاصل نہیں ہوئی۔ تاریخ کا یہ پہلا انقلاب ہے جس میں تلوار پر خون فاتح ہوا اور لاکھوں یزیدی افواج کے مقابلے میں حزب اللہِ کربلا کے 72جوانوں نے ایسا عظیم کارنامہ انجام دیا جس کی تاریخ نہ ابتدائے آفرینش سے ملی نہ فنائے دنیا تک مل سکتی ہے۔ چودہ سوسال گزر جانے کے باوجود بھی کربلائی انقلاب ایسا تروتازہ ہے جیسے گزشتہ کل ہی کربلا بپا ہوئی ہے یہ انقلاب اتنا پائیدار ہے کہ بلا جھجھک یہ کہا جاسکتا ہےکہ کربلا عالمگیر بن گئی ہے۔

یزید ابن معاویہ کے کالے کارناموں پر انسانی تاریخ آج بھی شرمسار ہے، 61ھجری میں سرزمین کرب وبلا پر انسانیت سوز اور دل کو چھلنی چھلنی کرنے والا جو واقعہ رونما ہوا۔ اس نے تاریخ بشریت کا دھارا موڑ دیا اسلام اور انسانیت کی بنیادوں کو مستحکم کردیا۔ چودہ سو سال قبل کرب وبلا کی تپتی ریگزار پر مال ودولت اور حرص وہوس کے شکار انسان نما درندوں نےسفیر خدا، نواسہ رسولؐ، فرزند علیؑ وبتولؑ حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے رفقاء کو بڑی بے دردی کے ساتھ شہید کیا۔اشقیاء نے خانہ نبوتؐ کے چھوٹے چھوٹے اور تشنہ لب اطفال کو تماچے مارمار کر ابدی نیند سُلا دیا۔ شیرخوار علی اصغر ؑ کو پانی کے ایک گھونٹ کے بدلے تیر مار کر امام ؑکی گود میں شہید کر دیا۔ بوسہ گاہ رسولؐ پر خنجر چلا۔ بازوئے عباس ؑکٹے، شہداء کے مقدس لاشوں پر گوڑے دوڑائے۔لعینون نے سرہائے مقدس کو نیزوں پر سوار کیا۔اہلبیت ؑ کے خیمے جلائے۔ خواتین کی بے حرمتی کی، چادریں لوٹ لیں۔ خاندان رسالت کے مرد وخواتین کو طوق و زنجیر میں جکڑ کردشوار ترین راستوں سے ننگے پیر اور بے حجاب شام روانہ کرکے یذید پلید کے دربار میں پہنچایا اور اسلام و انسانیت کے تمام اقدار کو پامال کرکے دربار میں ملعون یزید نے اہلبیت رسولؐ کی توہین کی۔ دشمنان دین الٰہی نے ظلم وجور کا ہر حربہ استعمال کیا لیکن پھر بھی یہ باطل نظام لڑکھڑا رہا، کیونکہ وارثان کربلا نے باکمال کردار ادا کرکے باطل کے رخ سے نقاب کھینچ لیا۔ بعد از عاشورا امام سجاد ؑ کی قیادت میں نبیؐ کی نواسی اور علی ؑ کی بیٹی، زینب ؑ نے شجاعت و جرأت، صبر و رضا اور عزم و استقلال کا مظاہرہ کرکے تحریک کربلا کو عام کیا۔

نشہ سے چور ملعون ابن ذیاد نے جب دربار میں اہلبیت سے گستاخی کرتے ہوئے عقیلہ بنی ہاشم حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو کہا’’ "کیف صنع اللہ باخیک و اھل بیتک‘‘ " تم نے اللہ کے امر کو اپنے بھائی اور اہل بیتؑ کے بارے میں کیسا پایا ؟ زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا نے تاریخی اور طاغوت شکن جملہ ارشاد فرمایا ’’ما رایت الا جمیلا ‘‘یعنی میں نے اللہ سے بہتری کے سوا کچھ مشاہدہ نہیں کیا، اس جملے نے ایک تاریخ رقم کرکے یزیدیت کو بے نقاب کیا۔

چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی کربلا کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں بسا ہے ۔اور یزید کی تاریخی دہشت گردی پرچودہ صدیوں سے صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں، اس احتجاج کو دوسرے الفاظ میں عزاداری کہتے ہیں۔ یہ امام عالی مقام کے آفاقی پیغام کو عالمی سطح پر عام کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ آج کے دور میں ایسے بھی عناصر ہیں جن تک قیام کربلا کی بو تک بھی نہیں پہنچی۔ جو آج بھی اس انقلاب کو دو شہزدوں کی جنگ، دو صحابیوں کی جنگ، اقتدار کی جنگ اور حدثہ وسانحہ قرار دے رہے ہیں اور اپنی غلط بیانی، من گھڑت احادیث اور بے بنیاد روایتوں کے ذریعے عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے، عاشورا کوئی حادثہ نہیں تھا جو میدان کربلا میں اچانک پیش آیا۔ عاشورہ نہضت کربلا کی انتہا تھی۔ یہ اسلام کا احیاء اور انسانیت کی بقاء ہے۔ کربلا کی مثالی تحریک روز عاشورا ان تمام لازوال اور لافانی قربانیوں کے ساتھ کامیاب ہوئی۔ جو امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ اور آپ کے رفقاء نے اللہ کی راہ میں دے کر اس کی مرضی خرید لی۔ کربلا کے ان جانباز، دلیر، نڈر، بہادر اور شجاع بچوں، نوجوانوں، جوانوں اور بزرگوں نے امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ کی رکاب میں تبسم کے ساتھ جولافانی قربانیاں دیں ان قربانیوں کے بدولت ہی آج اسلام سربلند اور انسانیت زندہ باد ہے۔

تحریک کربلا کا باب روشن ہے اس کے اہداف ومقاصد واضح ہیں۔ نواسہ رسولؐ، امام عالی مقامؑ نے صاف اور سادہ لفظوں میں فرمایا:’’میں سرکشی اور مقام طلبی کی خاطر یا ظلم و فساد پھیلانے کی خاطر نہیں چلا ہوں بلکہ میرا مقصد صرف نانا کی امت کی اصلاح کرنا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا اور بابا کی سیرت پر عمل پیرا ہونا ہے۔

تاریخ کے اس جابر اور ظالم اموی حکمران یزید ملعون نے دین ناب محمدی ؐ کا چہرہ اپنے کالے کرتوتوں سے مسخ کیا تھا۔ امت کے مقدس منبر کو پائمال کیا تھا، اسی مقدس منبر پر خود ساختہ امیر المومنین کا حلیہ بنا کر حق و باطل، حلال وحرام، ظلم و ناانصافی، گناہ وثواب کی فرق مٹانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس مقدس منصب جو آل محمد ؐ کا حق تھا، اس حق کو غصب کرکے دین میں نئے نئے خرافات وبدعات جنم دے رہے تھے۔ اس جابر کو تو دین سے کوئی سروکارہی نہ تھا بلکہ جاہ وحشمت، بدکاری، ظلم و زیادتی، فساد، کینہ، حسد، حق تلفی، بداخلاقی، مفاد پرستی، شراب نوشی، جوا، قتل وغارت گری، زنا کاری، حرام خوری، جھوٹ اور حرص وہوس جیسی سینکڑوں بدیوں اور بُرائیوں کا دلدادہ تھا اور یہ تمام برائیاں دین میں بزور طاقت داخل کرنا چاہتا تھا۔

سراپا برائیوں کے اس ڈھانچے (یزید) نے سفیر خدا، سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے نواسے، مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی الطالب کے بیٹے اور خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے لال حضرت امام حسینؑ سے بیعت کا مطالبہ کیا (استغفراللہ)۔ امام عالی مقام ؑ نے دوٹوک الفاظ میں باطل شکن جواب دیتے ہوئے فرما یا’’مثلي لا يبايع مثله‘‘مجھ (حسینؑ) جیسا تجھ (یزید پلید) جیسے کی بیعت کبھی نہیں کرے گا۔امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ کے اس تاریخ ساز جملے سے یزیدی نظام، یزیدی کردار اور یزیدی افکارمیں بھونچال آگیا اور اس تاریخ ساز جملے نے حق وباطل کی کسوٹی مقرر کی۔

مولا حسین ؑ نے اس تاریخ ساز جملے کے ذریعے دنیا کو یہ واضع پیغام دیا کہ معرکہ کربلا اقتدار کاجنگ نہیں، دو حکمرانوں، دو صحابوں، دوقبیلوں یا دو گھرانوں کی جنگ نہیں بلکہ یہ حق اور باطل کا معرکہ ہے، صرف 61ھجری کا حسین ؑ یزید پلید کی بیعت سے انکار نہیں کررہا ہے، بلکہ ہر دور کا حسینؑ اور ہر دور کی حسینیتؑ ہر دور کے یزید سے انکار کرکے یزیدیت کو للکار رہی ہے، یزیدیت کو چلینج کر رہی ہے اور دنیا کو درس دیتی ہے احیائے اسلام اور بقائے انسانیت کے سلسلے میں دشمن سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا ہے۔

امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ نے نہ صرف بیعت یزید سے انکار کیا بلکہ اس جابرانہ، جاہلانہ، غاصبانہ اور باطلانہ نظام کے خلاف مصمم ارادے کے ساتھ شجاعت وبہادری کے ساتھ ایک پائیدار تحریک شروع کی۔ مکہ سے کربلا تک سینکڑوں لوگوں جن میں صحابہ کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی نے امام عالی مقام ؑ کو آپ کے ارادے سے روکنے کی کوشش کی ۔جو امام عالی مقام ؑ کو کہتے تھے کہ آپ کے جان کو خطرہ ہیں آپ اپنے ارادے سے پیچھے ہٹیں ،کربلا نہ جائے ، یزیدظالم ہے اس کے خلاف تحریک نہ چھیڑیں وغیرہ وغیرہ۔

لیکن امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ نےدوٹوک الفاظ میں فرمایا کہ ناموس رسالت ؐجب خطرے میں ہو،اسلام اور انسانیت جب خطرے میں ہوحسین ؑکسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ دو محرم کو آپ اپنے رفقا کے ہمراہ کربلا پہنچے اور دس محرم کو ان عظیم 72جانبازوں نے ناموس رسالت،بقائے انسانیت واحیائےدین کے لئےایسی قربانیاں پیش کی کہ تاریخ اس کی مثال دہرانے سے قاصر رہی اور تاروز ابدقاصر ہی رہے گی۔ ان قربانیوں کا خاصیت یہ رہی کہ یزید زندہ رہ کر بھی مردہ باد ہوگیا اور حسین ؑ سرکٹا کے بھی زندہ باد ہوگیا۔اسلام اور انسانیت زندہ باد ہوگئی۔

میدان کربلا میں اپنے کردار افکار اور لازوال قربانیوں کے بدولت حسین ؑ نے ایسا عظیم کارنامہ دکھایا کہ دنیا کا بچہ بچہ حسینیؑ بن گیا ۔حسینی افکار اور حسینی کردار دنیا پر چھاگئے۔ گھر گھر، گلی گلی، شہر شہر، نگر نگر حسینی ؑ پرچم لہرانے لگے۔ دنیا میں حسین نام کے لاکھوں،کروڑوں افراد موجود ہے لیکن آج تک دنیا میں کسی نےجرائت تک بھی نہ کی کہ اپنے بچے کا نام یزید ،عمر سعد ،شمر ذی الجوش ،اور حرملہ وغیرہ رکھے۔

بدنصیبی یہ ہے کہ امت نے اس عظیم سرمایہ یعنی ’’ کربلا‘‘کو فراموش کیا ۔اس بحر بیکراں کو کوزے میں قید کردیا۔ اس مصمم ارادے والی پائیدار تحریک کو پوری دنیا میں بطور حادثہ پیش کیا اور اس کے اصل اہداف ومقاصد کو حاصل کرنے اور ان اہداف کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں لیت ولعل سے کام لیا۔ دنیا کےبڑے سے بڑے غیر مسلم دانشوروں، سیاستدانوں اور انقلابی تحریکوں کے قائدین نے تحریک کربلا کو رول ماڈل قرار دے کر بڑے سے بڑے کارنامے انجام دیئے، لیکن افسوس صد افسوس مسلمانان عالم نے حسد کینہ اور بغض سے کام لیتے ہوئے تحریک کربلا سے کنارہ کشی اختیار کی جس کے باعث وہ بے پناہ مشکلات کے شکار ہوئے۔

کربلا کی مقد س تحریک کا مطالعہ کرکے یہی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ کربلا کے کلچر میں یزید کی حکمرانی دین کے استحصال کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑی معاشرتی برائی ہے ۔اس کلچر میں ظلم وزیادتی، لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ، فساد، کینہ، حسد، حق تلفی، ناانصافی، مفاد پرستی شراب خوری، جوا، چوری، قتل وغارت گری، زنا کاری، رشوت خوری، سود و حرام خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ، حرص وہوس اور فسق و فجور جیسی ڈھیر ساری برائیوں کا بالکل تصورتک بھی نہیں۔ ان برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے جدوجہد کرنا، نیکی کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا کربلائی کلچر کا بنیادی فلسفہ ہے۔ عزاداری کے رسم ورسوم کے ساتھ ساتھ اس فلسفے کو من وعن سمجھنے کی ضرورت ہے۔

کربلائی یا عاشورائی کلچر نے اس جعلی مذہبی ڈھانچے کے پرکھچے اُڑائے جس پر بنی امیہ اور ان کے کارندوں نے تسلط جمایا تھا۔جس ڈھانچے میں شراب وکباب بھی تھا اور صوم و صلواۃ بھی، ظلم وزیادتی بھی تھی اور حج و زکواۃ وغیرہ بھی تھا۔ امام عالی مقام نے صاف لفظوں میں کہا کہ دونوں کلچر ایک ساتھ نہیں چل سکتے ہیں یا تو کربلا جانا ہے یا پھر شہر ری کی حکومت کے پیچھے دوڑنا ہے، یا تو دین ناب محمدیؐ اپنانا ہے یا پھر یزیدکے پرموٹ کردہ جعلی دین کو گلے لگانا ہے۔

کربلا میں نواسہ رسول ؐ نےاپنے رفقا کے ہمراہ سر کٹا کرمقدس لہو سےامت کے لئے نجات کی لکیر کھینچی ۔جس کو شاعر مشرق علامہ اقبال ؔ نے نہایت ہی فصیح و بلیغ انداز میں بیان فرمایا:۔

نقش الا الله بر صحرا نوشت

سطر عنوان نجات ما نوشت

رمز قرآن از حسین آموختیم

ز آتش او شعله ھا اندوختیم

خون او تفسیر ایں اسرار کرد

ملت خوابیده را بیدار کرد

بهر حق در خاک و خوں غلطیده است

پس بنای لا اله گردیده است

امام عالی مقام ؑنےکربلا کے ذریعے ایثار وقربانی اور اعلیٰ اخلاقی و انسانی اقدار کو زندہ کیا۔انقلاب کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کیا۔مردہ ضمیروں کو جگا کر ان کے اندرظالم و جابرکے خلاف نفرت کا جذبہ بیدار کیا۔ظلمت وجہالت کے خلاف مزاحمت ،مقاومت اور استقامت کا انداز سکھایا۔اور بشریت کے لئے نجات کا راستہ دکھایا۔ کربلا کے خونین واقعہ کے بعد جس طرح شیر دل خاتون حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اس تحریک کو جلا بخشی وہ تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے درج ہیں اور عالم بشریت کے لئے نمونہ عمل ہے۔

پس عاشورہ سکھاتا ہے کہ احیائے اسلام اور بقائے انسانیت کے لیے قربانی دینی چاہیے۔ قرآن و سنت کی راہ میں جو چیزیں رکاوٹیں پیدا کررہی ہیں ان سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس مقدس تحریک اور محترم انقلاب سےہمیں یہ درس یہ ملتا ہے کہ حق و باطل کے میدان جنگ میں چھوٹے اور بڑے، مرد اور عورت، بوڑھے اور جوان، معزز اور عاجز، امام اور رعایا ایک ہی صف میں کھڑے ہوجائیں۔ یقیناً اسباق کربلا کسی قوم کو ذلت سے عزت کی طرف اٹھانے کے لیے کافی ہیں۔ یہی اسباق کفر اور تکبر کے سامنے شکست دے سکتے ہیں۔ پس نظام الٰہی کے خاطر ہر مرد حسینی ؑ اور ہر عورت زینبی ؑ کردار ادا کرے۔

فنا کی رہگزر پہ منزلِ بقا حُسینؑ ہے

یہی ہے قصہ مختصر ، یزید تھا ، حُسینؑ ہے

(شاعر رحمان فارس)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .