۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
علامہ شفقت شیرازی

حوزه/ مجلس علمائے امامیہ پاکستان کے سربراہ اور سیکرٹری امور خارجہ ایم ڈبلیو ایم ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے قم المقدسہ میں محرم الحرام کے سلسلے میں منعقدہ مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ واقعۂ کربلا کے وقوع پذیر ہونے کے اسباب و عوامل میں سے سب سے اہم ترین سبب یہ تھا کہ لوگوں نے ولایت کا انکار کر دیا تھا۔

حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجلس علمائے امامیہ پاکستان کے سربراہ اور سیکرٹری امور خارجہ ایم ڈبلیو ایم ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے قم المقدسہ میں محرم الحرام کے سلسلے میں منعقدہ مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ واقعۂ کربلا کے وقوع پذیر ہونے کے اسباب و عوامل میں سے سب سے اہم ترین سبب یہ تھا کہ لوگوں نے ولایت کا انکار کر دیا تھا، اگر تمام مسلمان ولایت امیر المؤمنین علیہ السّلام پر متفق ہو جاتے تو کربلا میں نواسہ رسول و خانوادہ رسول علیہم السّلام کو قتل نہ کیا جاتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ولایت کے انکار کا مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کے حاکم کو سلطان بنا لیا جائے چاہیے وہ فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہو۔ فاسق و فاجر حکمرانوں کو سیاسی بیانیے کی بنیاد پر مسلمانوں پر مسلط کیا گیا، حالانکہ اس طرح کے حاکم و سلطان کی اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جب کہ رسالت مآب نے بھی نفی کی ہے اور خود سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے اس طرح کے حاکم کے خلاف قیام کر کے بتایا کہ دین محمدی میں اس طرح کے حکمرانوں اور ان کی حاکمیت کی کوئی اہمیت نہیں ہے، بلکہ سید الشہداء نے اس طرح کے حاکم کے خلاف قیام کا درس بھی دیا ہے۔

حجت الاسلام ڈاکٹر شفقت شیرازی نے واقعۂ کربلا کے رونما ہونے والے عوامل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بنو امیہ کی پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے فاسق و فاجر حکمرانوں کے خلاف قیام کو حرام قرار دیا گیا اور ان کی حاکمیت کو بچانے کیلئے تاریخی حقائق مسخ کئے گئے اور حتیٰ جعلی و من گھڑت احادیث و روایات گھڑی گئیں۔ آج تاریخی حقائق کو چھپانے کیلئے پاکستانی امپورٹڈ حکومت ایسی قانون سازی کرنے میں دلچسبی رکھتی ہے کہ بہت جلد ایسا قانون پاس کروایا جائے کہ جس میں توہین کے نام پر تاریخی حقائق کو مسخ کر کے زبردستی مسلمانوں پہ مسلط کرنے کی کوشش کہ جارہی ہے۔ اس بیانیے کو تقویت دینے کیلئے دجالی میڈیا کا سہارا لیا جا رہا ہے اور مسلسل میڈیائی تکفیری ذہنیت رکھنے والے اینکرز کے ذریعے اس قانون سازی کیلئے راہ ہموار کی جارہی ہے۔ جب کہ ملت تشیع ہمیشہ تاریخی حقائق کو دلیل کے ساتھ بیان کرتی ہے۔

انہوں نے حالیہ سوئیڈن کے اندر ہونے والے قرآن سوزی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک آزادی اظہارِ رائے کے دوہرے معیار رکھتے ہیں۔ قرآن سوزی قطعاً آزادی اظہارِ رائے میں شمار نہیں ہوتی۔

علامہ شفقت شیرازی نے مزید کہا کہ عالم اسلام کو عراق و لبنان کی پیروی کرتے ہوئے سوئیڈن کے سفارت کاروں کو ملک بدر کر دینا چاہیئے اور عالمی فورمز ہر بھر پور احتجاج کرنا چاہیئے۔ دنیا بھر میں اسلامو فوبیا کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ ان واقعات کے تکرار سے عالم اسلام میں غم و غصّے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ملت تشیع کے ہر فرد سے گزارش ہے کہ ایام عزاء میں ہر مجلس، جلوس و دیگر عزاء کے پروگراموں میں اہانت قرآن کے خلاف بھر پور احتجاج ریکارڈ کروائیں۔

ایم ڈبلیو ایم پاکستان کی خارجہ پالیسی کے سربراہ نے شیعہ لاپتہ افراد کے حوالے سے کہا کہ پاکستان میں مسنگ پرسنز کا معاملہ اہم ترین معاملہ ہے۔ ہمارے اداروں کے پاس جب کوئی دلیل نہ ہو تو وہ اس طرح کے حربے اپناتے ہیں۔ جب کہ اداروں کا یہ رویہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے منافی ہے اور آئین پاکستان کی سراسر مخالفت ہے۔ ہمارے بے جرم مؤمنین کو بنا کسی جرم کے حبس بے جا میں رکھا جاتا ہے اور انہیں سالہا سال عدالتوں میں پیش تک نہیں کیا جاتا، تاکہ وہ اپنا قانونی دفاع تو کر سکیں اور ظلم کی انتہا یہ ہے خاندان والوں کو خبر تک نہیں دی جاتی ہے کہ ان کے پیارے زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ اس انداز کا ظلم ناقابلِ تحمل ہے، کیونکہ اس کے اثرات پورے خاندان پر پڑتے ہوتے ہیں۔

مجلس عزاء میں ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے مصائب علی اکبر علیہ السّلام پڑھتے ہوئے کہا کہ حضرت علی اکبر علیہ السّلام کی شہادت ہمارے جوانوں کو راہ حق میں ہر قسم کی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہ کرنے کا درس دیتی ہے۔ آج کے جوان کو چاہیئے کہ وہ سنت جناب علی اکبر علیہ السّلام اپناتے ہوئے موجودہ حالات میں اپنی ذمہ داریوں کو بھرپور انداز سے پورا کرے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .