حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجلسِ علمائے امامیہ کے سربراہ اور ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے سیکرٹری امور خارجہ نے اپنے ایک بیان میں توہین صحابہ بل کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا اور کہا ہے کہ مذہبی قوانین میں کسی قسم کی تبدیلی سے پہلے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا اور اعتدال و سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جانا چاہیئے تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایسا موضوع نہیں ہے جس پر سیاسی اہداف کی خاطر عجلت میں اقدامات کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے مجتہدین کی اقتداء میں کسی مکتب فکر کے بنیادی مقدسات کی توہین کو حرام سمجھتے ہیں لیکن ہم دشمنانِ اہل بیتؑ کے لئے بھی کسی قسم کے احترام کے قائل نہیں ہیں۔
انہوں نے بل کے ذریعے دشمنان اہل بیت کو صحابیت کا لبادہ پہنا کر محفوظ کرنے کی ناپاک کوشش کو بے بنیاد قرار دیا۔
بل مسترد کرنے کی وجوہات:
اس بل میں لفظ توہین اور تنقیص کی کوئی واضح تعریف نہیں کی گئی جس کیوجہ سے اختلاف رائے کی گنجائش ختم ہوگئی ہے۔ کیا ہر اختلاف تنقیص ہے؟ کیا تاریخی واقعات اور کرداروں پر بات چیت کرنا ان کی تنقیص ہے؟ جب تک توہین اور تنقیص کے لیے حدو مرز کا تعین نہیں کیا جاتا اس قانون پر کیسے درست عملدرآمد کیا جاسکتا ہے؟۔
یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ قرآن و سنت کی رو سے وہ کون لوگ ہیں جن کی توہین اور تنقیص جرم قرار دی جانی چاہئے۔ کیا نبی اکرمؐ کی مصاحبت اختیار کرنے والے تمام لوگ تقدس کے اس درجے پر فائز ہیں کہ ان کے بارے قانون سازی کی جائے؟۔ اس بل میں اس عنوان سے کوئی تحدید نہیں ہے۔
اس بل میں نبیؐ مکرم اسلام کے چچا، والدین اور دیگر اعزا و اقارب کو نظر انداز کیا گیا اور انہیں مسلمانوں کے مسلمہ مقدسات کا حصہ نہیں سمجھا گیا۔
اس بل میں ارادے اور نیت کا عنصر بھی مخدوش ہے جبکہ کسی بھی جرم کی تشکیل کے لیے ارادے اور نیت کا ہونا ایک مسلمہ قانونی اصول ہے۔
ہمارا موقف:
شیعہ فقہا اور علماء صحابہ سمیت دیگر مذاہب کے بنیادی مقدسات کی توہین کو حرام قرار دیتے ہیں۔ لیکن نبی اکرمؐ اور اہل بیت اطہارؑ کے دشمنوں کے لیے ہم کسی احترام کے قائل نہیں ہیں۔ اس بل کے ذریعے دشمنان اہل بیتؑ کو صحابہ کا لبادہ پہنا کر انہیں محفوظ بنایا جارہا ہے۔
صحابی کی حد و مرز کے تعین اور توہین کی درست تعریف کیے بغیر ایسے قوانین میں مزید سخت گیری انتہا پسندوں کے ہاتھ میں تیز دھار آلہ دینے کے مترادف ہے جس سے انہیں معمولی اختلاف پر کسی بھی عام شہری کا گلا کاٹنے یا اسے تا حیات پابند سلاسل کروانے کا جواز مل جائے گا۔
یہ بل ایسے وقت میں منظور کیا گیا جب عوام کی حقیقی ترجمان پارلیمنٹ موجود نہیں تھی جس کیوجہ سے بل کے مفاسد و مصالح پر ضروری غور و خوض نہیں ہوسکا۔
پاکستان میں مذہبی قوانین کا غلط استعمال ایک عام معمول ہے بجائے اس کے توہین مذہب کے قوانین میں موجود نقائص کو دور کیا جاتا اس کی سزائیں سخت کر دی گئی ہیں جو کسی بھی طرح سنجیدہ عمل نہیں ہے۔
پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کیا جانے والا حالیہ توہین صحابہ و اہل بیت بل جس کے ذریعے اس جرم کی سزاوں میں عمر قید تک کا اضافہ کر دیا گیا ہے پاکستان کو مسلکی پاکستان بنانے کی ایک سوچی سمجھی کوشش ہے۔ اگر صورتحال یہی رہی تو بہت جلد یہ ملک دیگر مذہبی اکائیوں کے رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔
ہماری تجویز:
مذہبی شخصیات کی توہین کے جرم کو آئمہ اہل بیتؑ، امہات المومنین، سابقہ انبیاء کرام اور خلفائے اربعہ تک محدود ہونا چاہیئے اور دیگر تاریخی کرداروں کے حوالے سے ایسی کوئی قانون سازی نہیں ہونی چاہیئے۔
اس قانون میں درج جرم کو قابل ضمانت ہی رہنا چاہیئے تاکہ جھوٹے الزام کی صورت میں قید و بند کی طویل صعوبت سے بے گناہ افراد کو بچایا جاسکے۔
اس قانون میں نیت اور ارادے کو ضروری قرار دیا جانا چاہیئے اور بغیر توہین کے ارادے، لاعلمی، دیوانگی وغیرہ کی صورت میں انجام دئیے گئے فعل کو مکمل جرم نہیں سمجھا جانا چاہیئے۔
عمائدین ملت، دانشوروں اور سول و مذہبی سوسائٹی کے متحرک افراد کو آگے بڑھ کر مقننہ کے اس اقدام جس کے پیچھے نیک نیتی ہرگز نہیں ہے اس کا راستہ روکنا چاہیئے۔ پاکستانی معاشرے اس سے پہلے ہی علاقائی، لسانی اور مذہبی تقسیم کا بری طرح شکار ہے۔ یہ بل اس تقسیم کو مزید گہرا کر دے گا اور قومی و ملی یکجہتی بری طرح متاثر ہوگی۔