۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
میثم ہمدانی

حوزہ / پاکستان کے عالم دین حجۃ الاسلام والمسلمین میثم ہمدانی نے پاکستان میں حالیہ  متنازعہ فوجداری بل کے متعلق حوزہ نیوز کے نامہ نگار کے ساتھ ایک انٹرویو میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے عالم دین حجۃ الاسلام والمسلمین میثم ہمدانی نے پاکستان میں حالیہ متنازعہ فوجداری بل کے متعلق حوزہ نیوز کے نامہ نگار کے ساتھ ایک انٹرویو میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

حوزہ: حالیہ دنوں میں سینٹ آف پاکستان سے ناموس صحابہ بل کے پاس ہونے کی خبریں آرہی ہیں، ناموس صحابہ بل کیا ہے؟

حجۃ الاسلام والمسلمین میثم ہمدانی: پاکستان میں مذہبی اور دینی مسائل کے حوالے سے مختلف قوانین بنائے گئے ہیں جن میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین اور ختم نبوت کے حوالے سے قوانین کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے ، اسی طرح تقریبا نوے کی دہائی میں ناموس صحابہ بل کے حوالے سے بحث شروع ہوئی اور اس حوالے سے قانون بنایا گیا جس کو انہی سالوں میں پارلیمنٹ سے پاس کیا گیا ہے، اگرچہ یہ ناموس صحابہ کے نام سے مشہور ہوا لیکن درحقیقت یہ ناموس امہات المومنین، اہل بیت اور خلفائے راشدین بل ہے۔

حالیہ دنوں میں درحقیقت اسی قانون کے حوالے سے بات ہو رہی ہے وہ ایک ترمیمی بل ہے جس کو جماعت اسلامی کے مولوی چترالی نے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔ بہ بل قومی اسمبلی میں 2020 میں ترمیمی بل کے طور پر پیش کیا گیا تھا جس کو جنوری 2023 میں قومی اسمبلی سے پاس کیا گیا۔

اس بل میں چند ایک قوانین میں تبدیلی کی بات کی گئی ہے، ان قوانین میں توہین صحابہ کی سزا تین سال سے بڑھا کر کم از کم 10 سال اور سنگین توہین کی صورت میں عمرقید کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس جرم کو ناقبل ضمانت قرار دیا گیا ہے اور اسی طرح فوری گرفتاری اور کیس کو واپس لینے کی سہولت کو ختم کرنے کی بات کی گئی ہے، جبکہ ایف آئی آر درج ہونے کے بعد نئے وارنٹ کی ضرورت نہیں ہے اور قبل از گرفتاری ضمانت بھی نہیں لی جا سکتی۔

ان قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک تو انسانی حقوق کے بنیادی مسئلہ کا معاملہ ہے اور دوسرا ان قوانین سے غلط فائدہ اٹھانے کا مسئلہ ہے، یہ پاکستان میں کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اس بے پہلے بھی مختلف بلاسفی کیسز میں دیکھنے کو ملا ہے کہ اصل وجہ کوئی اور ہوتی ہے مثلا کچھ علاقوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ مسیحی علاقہ پر قبضہ کرنے کیلئے وہاں ایک مذہبی مسئلہ اٹھایا گیا اور پھر اس کے بہانے پوری آبادی کو نشانہ بنا کر از زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا۔ الزام لگانا بہت آسان کام ہے لیکن ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں موجودہ عدالتی نظام کے اندر دسیوں سال لگ جاتے ہیں جبکہ اس بل میں اس بات کا کچھ خیال نہیں رکھا گیا کہ اگر غلط الزام لگایا جائے تو اس کیلئے ملزم کے پاس کونسا قانونی راستہ ہو گا جس کے ذریعے وہ جیل کا عذاب جھیلنے اور عدالتوں میں انصاف کی بھیک مانگنے سے بچ سکے۔

حوزہ: اس قانون کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟

حجۃ الاسلام والمسلمین میثم ہمدانی: دیکھیں بل پیش کرنے والے تو اس کے اغراض و مقاصد میں اصحاب کی عزت اور فرقہ واریت کو کنٹرول کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا واقعی طور پر یہ بل ان اغراض و مقاصد کو حاصل بھی کرسکتا ہے یا ہو سکتا ہے اس کے بہانے انتقامی کاروائیوں کے نتیجے میں فرقہ واریت مزید پروان چڑھے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بل پیش کرنے والی قوتوں اور ان کے آلہ کاروں کا کردار کبھی ایسا نہیں رہا کہ جن سے خیر کی توقع رکھی جائے اور وہ ہمیشہ ہی خصوصا پاکستان کے اندر شیعہ مسلمانوں کیلئے تکلیف اور اذیت کا باعث بنے ہیں لہذا ان کی زبان سے ایسی بات قابل قبول نہیں ہے جبکہ دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو یہ ملت تشیع اور اہلسنت مسلمانوں میں منصف مزاج علما اور عوام بھی موجود ہیں کہ جنہوں نے ہمیشہ وحدت، پیار اور محبت کی بات کی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی قانون پیش کیا جاتا ہے اور یا قانون بنایا جاتا ہے تو اس کے اندر جو ٹرمنالوجی یعنی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں ان کیلئے کوئی متفقہ تعریف موجود ہونی چاہیئے۔ یہ قانون جو بننے جارہا ہے اس میں اتنا ابہام ہے کہ اگر کوئی بین الاقوامی کمیٹی جو قانون کو سمجھتی ہو وہ اس کو پرکھے تو اس کی حقیقت سب کے سامنے واضح ہو جائے گی۔

اس بل میں جہاں اصحاب کی ناموس کی بات کی گئی ہے تو سب سے پہلے تو اصحاب کی متفقہ تعریف ضروری ہے، اصحاب سے کیا مراد ہے؟ کیا خلفائے راشدین کو اصحاب مانا جائے یا بنی امیہ کو اور قاتلین امام حسین (ع) کو بھی اصحاب کی لسٹ میں داخل کیا جائے؟ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ جو خود اہلسنت کے درمیان بھی مورد اتفاق نہیں ہے؟ اب اس بنا پر کسی طرح کسی بھی ملزم کو جس کو چاہیں اپنی مراد کے مطابق ٹرائل کریں اور اتنی سخت سزائیں دیں!

تیسری بات یہ ہے کہ ایسی کونسی ضرورت ہے کہ جس کے تحت ملزم کو ضمانت جیسی قانونی سہولت سے بھی فائدہ اٹھانے کی اجازت نہ دی جائے جبکہ کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ جو الزام لگایا جا رہا ہے وہ واقعا سوفیصد درست الزام ہے۔ ان سب سے بڑھ کر اس قانون کے اندر جو انتہائی کمزور پہلو ہے کہ اگر کسی کے اشارے، کنایہ یا گفتگو کے انداز سے بھی کوئی یہ سمجھے کہ کسی صحابی کی توہین ہو گئی ہے تو فورا اس کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جائے! یعنی فرض کریں اگر کوئی فیلم بناتا ہے یا ناول لکھتا ہے کہ جس کا عنوان تین بے وقوف ہوں تو اگر اس سے کوئی یہ سمجھے کے اس لکھاری نے اصحاب کی توہین کی ہے تو فورا اس کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جائے گا، یہ تو ایسی بے منطقی اور بے تکی بات ہے کہ اس قسم کی چیز ہمیں قرون وسطی کی ڈکٹیٹر مسیحی حکومتوں میں بھی نظر نہیں آتی۔

پھر ان سب سے بڑھ کر آپ یہ دیکھیں کہ ملت تشیع کے اندر پہلے ہی مراجع عظام اور خصوصا رہبر انقلاب اسلامی امہات المومنین اور خلفائے راشدین کے حوالے سے ان کی اہانت کو حرام قرار دے چکے، مراجع عظام اور علمائے کرام عوام کو وحدت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور ایسے طبقہ کو جو مسلمانوں کے اندر فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانا چاہتے ہے ان کی مذمت کرتے ہیں، اگر واقعا یہ لوگ جو اس بل کے ذریعے فرقہ واریت کو کنٹرول کرنے کی بات کرتے ہیں، وہ اپنی نیت میں ٹھیک ہیں تو ان کو چاہیئے کہ ملک کے اندر علماء اور مراجع عظام کی رٹ کو قائم کیا جائے، ان کے احترام میں اضافہ کیا جائے اور ایسا ماحول فراہم کیا جائے کہ جہاں ان علمائے کرام کا فتوی قانونی حیثیت حاصل کرسکے لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ اس بل کے پیچھے جو لوگ اپنی بل میں چھپے ہوئے ہیں وہ انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں اور اپنی اس آگ کی تسکین کیلئے کوئی قانونی ڈھال بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ کام ملک کی سلامتی اور ملک کے اندر موجود برادری کے ماحول کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔

آج کے دور میں فیک آئی ڈیز کے ذریعے ساری دنیا میں شدت پسندی پھیلائی جاتی ہے، آج میڈیا کا دور ہے اس طرح نفرت کی دیواریں کھڑی کر کے آپ کسی سے کسی جھوٹے خدا کا احترام نہیں کروا سکتے۔ لیکن واضح ہے کہ ان لوگوں کا ہدف و مقصد صحابہ کا احترام نہیں بلکہ فرقہ واریت پھیلانے اور ملکی استحکام کو نقصان پہنچانے کیلئے ایک قانونی بہانے کی تلاش ہے۔

حوزہ: اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟

حجۃ الاسلام والمسلمین میثم ہمدانی: فی الحال تو یہ بل سینٹ سے پاس ہو کر صدر مملکت کی میز پر ہے، پہلے مرحلہ پر تو یہ کوشش ہونی چاہیئے تھی کہ اس قسم کی فرقہ واریت ملک کی پارلیمنٹ میں ہی داخل نہ ہو سکے لیکن جو ہوا وہ تو ہوا اب بھی ملک کے اندر جو حلقہ اور جو ملک کا درد رکھتے ہیں وہ کوشش کریں کہ صدر صاحب اس بل کو واپس پارلیمنٹ میں بھیجیں اور وہاں خصوصی کمیٹیوں پر اس پر بات ہو، اول تو ایسے کسی قانون کی ضرورت ہی نہیں ہے لیکن اگر بہرحال ضرورت محسوس ہوتی ہو تو اس کو درست طریقہ سے تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام اور بااثر شخصیات کے ساتھ مشورے کے بعد درست انداز سے اور منطقی قانون کی صورت میں پیش کیا جائے اور پھر بھی اگر یہ کام نہیں ہوتا اور یہ بل بالاخر قانون بن جاتا ہے تو اس کا درست استعمال کرنے کیلئے کسی ضمانت کی ضرورت ہو گی ورنہ ایک ہی راستہ ہے کہ اگر اس قانون سے غلط فائدہ اٹھایا جاتا ہے تو اس کا مقابلہ بالمثل کیا جائے۔

اس بات کی طرف توجہ رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ جتنی صحابہ کی توہین اہلسنت کی اپنی کتابوں میں موجود ہے اتنی کہیں نہیں ہے، یہ ایک پنڈورہ باکس ہے کہ اگر کھل گیا تو یہ کتابیں پاکستان کے اندر نہ قابل فروش ہوں گی اور نہ قابل تدریس اور مطالعہ ہوں گی۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اہلسنت کی مسلمہ احادیث کی کتب صحاح ستہ کے اندر یا تاریخ کی کتابوں اور ایسی ہزاروں کتابوں میں اصحاب کی آپس کی لڑائیوں یا ان کے واقعات یا ان کے کردار کے بارے میں کیا کچھ لکھا گیا ہے۔

کیا اس قانون کے تحت جو حضرت ابوطالب علیہ السلام کو کافر کہتے ہیں؟ یا محرم الحرام میں جو اہل بیت کی توہین کرتے ہوئے خلیفہ دوم کا ماتم کرتے ہیں؟ یا جو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین کرتے ہیں اور میلاد کے جلوسوں اور نذر نیاز کو برابھلا کہتے ہیں؟ یا جو خدا کے جسم کے قائل ہیں اور نعوذ باللہ اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ خدا جہنم کی بھوک مٹانے کیلئے اپنی ٹانگ جہنم میں ڈال دے گا؟ وغیرہ وغیرہ کیا ان پر بھی یہ قانون لاگو ہو گا؟!

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • علی عباس PK 00:16 - 2023/08/13
    0 0
    جزاک اللہ، قبلہ محترم ۔ بہترین انداز تحریر۔ آپ لکھتے رہا کریں۔