حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان سے ایران تشریف لائے عالم دین المصطفی پبلیکیشن کے انچارج اور مرکز افکار اسلامی پاکستان کے مدیر حجت الاسلام والمسلمین لیاقت علی اعوان نے حوزہ نیوز کے نامہ نگار کے ساتھ ایک انٹرویو میں مختلف موضوعات پر گفتگو کی ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
حوزہ: دنیا بھر میں علماء و مدارس کی فعالیت میں میڈیا کے کردار پر روشنی ڈالیں؟
حجت الاسلام لیاقت علی اعوان:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے تو مجھے حوزہ نیوز ایجنسی کے مرکزی دفتر آنے اور اس کی فعالیت کو نزدیک سے دیکھنے پر بڑی خوشی ہوئی اور اس فرصت کے مہیا کرنے پر میں آپ سب احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
جہاں تک علماء و مدارس کی فعالیت میں میڈیا کے کردار کی بات ہے تو سب سے پہلے آج کے دور میں کوئی بھی میڈیا کے کردار اور اس کے اثرات سے انکار نہیں کر سکتا۔ بلکہ یہ دور ہی میڈیا کا دور ہے جہاں دنیا بھر کی کوئی بھی خبر پلک جھپکنے سے پہلے آپ کی دسترس میں ہوتی ہے اور میڈیا پر آنے والی ایک خبر اس کے مصدقہ ہونے سے ہٹ کر بھی اثر رکھتی ہے لہذا ایسے میں مومنین کرام بالخصوص روحانی طبقہ کو اگر حوزہ علمیہ قم کے متعکق کسی خبر کی تصدیق کرنا ہو تو وہ حوزہ نیوز جیسے پلیٹ فارمز کی طرف رجوع کرتا ہے۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو مراکز حضوری تعلیم کے ساتھ ساتھ آنلائن تعلیم کا بھی اجراء کر رہے ہیں ان میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے، خصوصا کرونا کے بعد سے حوزہ علمیہ قم کو نمونہ بنا کر دروس کا آنلائن سسٹم بھی رائج ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ علماء کرام گھر بیٹھے جو تبلیغ اور مکتبِ اہلبیت (ع) کا پیغام سوشل میڈیا کے ذریعہ پوری دنیا تک پہنچا سکتے ہیں اس کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لہذا علماء کرام اور مدارس دینیہ کو چاہئے کہ وہ موجودہ دور کی ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے علوم محمد و آل محمد (ص) کو دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچائیں۔
حوزہ: مدارس علمیہ پاکستان کی علمی، دینی اور ثقافتی سرگرمیوں کے بارے میں بتائیں؟
حجت الاسلام لیاقت علی اعوان:
الحمد للہ پاکستان میں شیعہ مدارس ایک مناسب بلکہ اچھی تعداد میں موجود ہیں۔تازہ اعداد وشمار کے مطابق اس وقت 600 شیعہ دینی مدارس پاکستان میں موجود ہیں اگرچہ طلبا کی تعداد کم ہے جس میں اضافہ ہونا چاہیے اور اسی طرح علماء کرام کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں مشغولِ خدمت ہے اور اس میں بھی یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ ان علماء کرام میں بھی بڑی تعداد ان علماء کی ہے کہ جو حوزہ علمیہ قم اور جامعۃ المصطفی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعدمختلف خدمات انجام دے رہے ہیں۔ علماء کرام مختلف میدانوں میں اپنا وظیفہ انجام دے رہے ہیں ۔ جن میں سے کئی ایک مدارس میں خدمت انجام دے رہے ہیں اور شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں ، تو کئی دوسروں نے مساجد کو سنبھال رکھا ہے اور ایک تعداد وہ ہے کہ جو منبر پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں البتہ منبر پر موجود علماء کی تعداد نسبتا کم ہے کہ جس میں اضافہ ہونا چاہئے۔ اب الحمد للہ جوان علماء منبر پر آئے ہیں اور ان کے بڑے اچھے اثرات ہیں، ان کا بیان بھی اچھا ہے۔ جوان علماء کا منبر پر آنا اور نئے اور جذاب انداز سے گفتگو کرنا احسن اقدام ہے۔ جن سے لوگ استفادہ کر رہے ہیں اور لوگوں نے بھی ان جوان علماء کا بہت استقبال بھی کیا ہے۔ اور کچھ علما سوشل میڈیا پر اپنی دینی خدمات انجام دے رہے ہیں جو کہ انتہائی مثبت ہے۔
سوشل میڈیا پر علماء کرام کی فعالیت بہت ضروری ہے اور اس میں اضافہ کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کچھ علماء میڈیا یا ٹی وی چینلز پر بھی سرگرم ہیں اگرچہ ان کی تعداد بہت ہی کم ہے لیکن الحمد للہ وہ مکتبِ اہلبیت علیہم السلام کا پیغام دنیا تک پہنچا رہے ہیں چونکہ ایک چینل یا ایک پروگرام کو دیکھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے اور اس طرح اس شخص تک بھی مکتبِ تشیع کا پیغام پہنچتا ہے جو شاید شیعہ سےواقفیت بھی نہ رکھتا ہو یا اس تک شیعہ کے بارے میں صحیح معلومات کو نہ پہنچایا گیا ہو۔ خصوصا محرم الحرام میں مجالس، تقاریر، جلوس و عزاداری کے ذریعہ مکتب اہل بیت کا حقیقی پیغام ہر مسلک کے لوگوں تک پہنچتا ہے ۔ البتہ اس میں بھی مکتب اہل بیت (ع) کے ماننے والوں کو مزید کوشش کرنی چاہئے کہ وہ ٹی وی چینلز کے ساتھ روابط بڑھائیں بلکہ ٹی وی چینلز سے ڈیمانڈ کرنی چاہئے کہ شیعہ علماء کرام کو اپنا نکتہ نظر پہنچانے کے لیے بلائیں اور مختلف پروگرامز کی کوریج ہونی چاہئے اور پھر علماء کرام کو بھی چاہئے کہ وہ ٹی وی چینلز پر جائیں اور مکتبِ تشیع کو متعارف کرائیں اور اپنے پیغام کو دنیا تک پہنچائیں تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں اس سے عالم اسلام میں اتحاد و وحدت کی فضا میں اضافہ ہوگا۔
حوزہ: آپ چونکہ نمائندگی جامعة المصطفی میں المصطفی پبلیکیشن کے مسئول ہیں تو ہمیں دینی مدارس کی نصابی کتب کی تیاری اور پرنٹنگ کے بارے میں بتائیں اور یہ کتب طلاب کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
حجت الاسلام لیاقت علی اعوان:
دیکھیں "جامعۃ المصطفی" وہ تنہا مرکز ہے جو کتبِ درسی و حوزوی کی طباعت کا کام انجام دیتا ہے اس کے علاوہ حوزوی کتب کی طباعت پاکستان میں کہیں نہیں ہوتی۔ لہذا علماء کرام اور مدارسِ دینیہ کے لئے حوزوی کتب کا تہیا کرنا بہت بڑی پریشانی ہوا کرتی تھی اور وہ اکثر یہاں قم سے کتب منگوایا کرتے تھے۔ اس کی بھی ظاہر ہے اپنی مشکلات تھیں۔ خرچ بڑھ جاتا تھا، کتب منگوانا بہت مشکل تھا، بعض اوقات سال درسی ختم ہو جاتا تھا اور کتب طلباء کرام کے ہاتھ تک پہنچتی ہی نہیں تھیں۔ الحمد للہ جامعۃ المصطفی نے اس مشکل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے اور کافی تعداد میں مدارس علمیہ کی نصابی کتب کی طباعت ہورہی ہے ۔ مدارس کے ضرورت کے مطابق جو بھی کتبِ حوزوی ہیں ان کی طباعت جامعۃ المصطفی میں ہوتی ہے اور بغیر کسی منافع کے ان کو طلباء، مدرسین اور مدارس تک کتب کو پہنچایا جاتا ہے۔
حوزہ: حوزہ نیوز ایجنسی کو علماء و مدارس تک ان سے مربوطہ اخبار پہنچانے میں آپ کیسا دیکھتے ہیں؟
حجت الاسلام لیاقت علی اعوان:
میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ علما و طلبا کو جب بھی حوزہ علمیہ اور مواجع کرام سے متعلق کسی خبر کی تصدیق کرنا ہو تو وہ بحمد اللہ حوزہ نیوز کی طرف رجوع کرتا ہے۔اس کے علاوہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج میڈیا کی بھرمار ہے لیکن اس دوران جو سب سے بڑی مشکل ہے وہ مصدقہ خبر یا کسی بھی گروہ سے بے طرف ہو کر کسی خبر کا آنا دکھائی نہیں دیتا تو ایسے میں حوزہ علمیہ کی جانب سے منتشر ہونے والی خبر کی اپنی منفرد اہمیت ہے کہ جہاں حوزہ علمیہ اور روحانیت سے مربوطہ خبر بھی آپ مشاہدہ کرتے ہیں کہ جو کسی بھی میڈیا پر نظر نہیں آتی۔ اس سے بڑھ کر یہ روحانیت اور حوزہ علمیہ کی پیشرفت اور ترقی کا باعث بھی ہے چونکہ جب آپ ایک علمی نشست اور فعالیت کی خبر کو دیکھتے ہیں تو میں بعنوان ایک طالب علم یا کوئی ایک روحانی، عالم دین طلبہ یا استاد اسے اپنے لئے نمونہ قرار دیتے ہوئے کوشش کرتا ہوں کہ اس جیسی فعالیت انجام دیں مثلا میں اپنی مثال دوں تو حوزہ نیوز پر آپ کی طرف سے "کتابِ سالِ حوزہ" کے عنوان سے ایک کتاب معرفی کی جاتی ہے تو ہم بھی چونکہ مرکز افکار اسلامی میں نہج البلاغہ کی خدمت میں مشغول ہیں، تو اس کو نمونہ قرار دیتے ہوئے ہم بھی کوشش کریں گے کہ ہم بھی ہر سال نہج البلاغہ کے بارے ایک کتاب کو مثالی اور نمونہ کتاب کے طور پر پیش کریں اور نشر کریں ۔ لہذا علماء کرام اس سے بہترین استفادہ کر سکتے ہیں۔ جب ان تک یہ اخبار اور متعلقہ رپورٹس پہنچیں گی تو مدارس ان سے استفادہ کریں گے ۔
یہیں پر میں فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے آپ کی خدمت میں بھی عرض کروں گا کہ حوزات علمیہ اور علماء کرام کی فعالیت کو اس سے بھی زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے چونکہ ابھی بھی بہت سارے مقامات ایسے ہیں جہاں حوزہ نیوز ایجنسی سے لوگ ناآشنا ہیں اور حوزہ علمیہ قم کی بہترین خدمات سے آگاہی نہیں ہے تو کام کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ پاکستان و ہندوستان کے تمام مدارس اور حتی مومنین کرام تک حوزہ نیوز کی خبریں پہنچائی جائیں۔ ان شاء اللہ اس کے بہت اچھے اور مفید اثرات مرتب ہوں گے۔ مکتب اہل بیت (ع) کے پیروکاروں تک رہبر معظم، مراجع کرام اور علماء کرام کے بیانات کا پہنچنا بھی بہت ہی ضروری ہے۔ لوگ رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور اس سے لوگوں کا علماء و روحانیت سے تعلق بھی مضبوط ہو گا۔