۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۲ شوال ۱۴۴۵ | May 1, 2024
محمد حبیب

حوزه/ اس سال ہندوستان کو آزاد ہوئے 76 سال مکمل ہو گئے اور 77 ویں ہندوستانی یوم آزادی  کا جشن منایا جا رہا ہے۔

تحریر: محمد جواد حبیب

حوزه نیوز ایجنسی| اس سال ہندوستان کو آزاد ہوئے 76 سال مکمل ہو گئے اور 77 ویں ہندوستانی یوم آزادی کا جشن منایا جا رہا ہے۔ہندوستان ان تمام رہنماؤں کو سلام کرتا ہے جنہوں نے ماضی میں ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کے لئے برطانوی حکمرانی سے آزادی حاصل کرنا آسان نہیں تھا، لیکن ہمارے رہنماؤں، آزادی پسندوں اور لوگوں نے مل کر آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا اور آزادی کے حصول کے لئے پرعزم تھے۔

یومِ آزادی ایک خاص اہمیت کا حامل اور حب الوطنی کے جذبہ سے بھرپور ایک خاص دن ہے۔ برطانوی تسلط سے آزادی ہندوستان کی عوام نے طویل جدوجہد کے بعد حاصل کی تھی۔ پندرہ اگست ملک کے یومِ آزادی کے طور پر ہی نہیں بلکہ اِسی اجتماعی جذبے کو یاد کرنے کیلئے منایا جاتا ہے۔ہندوستان کے سَوا سَو کروڑ عوام کو سوچنا چاہئے کہ جشنِ آزادی محض ایک رسم کا نام نہیں ہے بلکہ آزادی کے بعد سے اب تک ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا، اپنی قومی پیش رفت، ترقی و بہبود کی رفتار، آزادی کے ممکنہ ثمرات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ملک کی سالمیت کی بقاء کے سلسلے میں اپنی کاوشوں کے محاسبہ کا نام ہے۔ یومِ آزادی دراصل خود احتسابی کا دِن ہے۔ آج ہم یہ عہد کریں کہ جس طرح ہم سب نے مِل کر ملک کی آزادی حاصل کی ہے اُسی حوصلہ و جذبہ سے سرشار ہو کر ہندوستان کو عظیم ملک بنائیں گے۔

آزادی کی تاریخ:

سنہ 1757 میں ہندوستان میں برطانوی حکمرانی کا آغاز ہوا جس کے بعد پلاسی کی لڑائی میں انگلش ایسٹ انڈیا کمپنی کی فتح ہوئی اور اس نے ملک پر قبضہ حاصل کرلیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں تقریبا 100 سالوں تک اپنا اقتدار سنبھالا اور پھر 1857-58 میں برطانوی تاج نے اسے ہندوستانی بغاوت کے ذریعے تبدیل کیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران ، ہندوستان کی آزادی کی تحریک کا آغاز کیا گیا تھا اور اس کی قیادت مہاتما گاندھی نے کی تھی جس نے عدم تشدد، عدم تعاون کی تحریک کے طریقہ کار کی حمایت کی تھی جس کے بعد ‘سول ڈس اوبیڈینس مومنٹ’ کی تحریک چلائی گئ تھی۔
سنہ1946 میں برطانیہ کے خزانے لیبر گورنمنٹ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ان کے دارالحکومت میں ہونے والے نقصان کی وجہ سے ہندوستان پر اپنا اقتدار ختم کرنے کا سوچا۔ پھر، 1947 کے اوائل میں برطانوی حکومت نے جون 1948 تک تمام اختیارات ہندوستانیوں کو منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن ہندو اور مسلم کے مابین تشدد بنیادی طور پر پنجاب اور بنگال میں کم نہیں ہوئی ۔ در حقیقت، جون 1947 میں متعدد رہنماؤں جیسے پنڈت جواہر لال نہرو، محمد علی جناح، ابوالکلام آزاد، بی آر امبیڈکر وغیرہ نے ہندوستان کی تقسیم پر اتفاق کیا۔ مختلف مذہبی گروہوں کے لاکھوں افراد نے رہائش کے لئے جگہیں تلاش کرنا شروع کیں۔ اور اس کی وجہ سے 250،000 سے 500،000 افراد ہلاک ہوگئے۔ 15 اگست، 1947 کو آدھی رات کو ہندوستان کو آزادی ملی اور جواہر لال نہرو کی تقریر کے ساتھ اس کا اختتام ہوا۔
ہمارا ملک 15 اگست1947ء کو آزاد تو ہوگیا لیکن ابھی تک یہاں برطانوی پارلیمنٹ میں پاس ہونے والا "گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935” ہی رائج رہا۔ ہاں آزاد ہندوستان کے نئے دستور کیلئے تمام مذاہب، طبقات اور علاقوں کے نمائندوں پر مشتمل ڈاکٹر امبیڈکر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے کافی غور وخوض تفصیلی گفت و شنید مناقشہ، بحث ومباحثہ اور دنیا میں رائج دیگر دستوروں اور خاص طور پر ملک کے عناصر ترکیبی مختلف مذاہب، طبقات، علاقوں، زبانوں اور انکی تہذیب وثقافت کو مد نظر رکھ کر اس عظیم ملک کے لئے سب سے تفصیلی دستور آزادی کے 2 سال 3 ماہ اور 11 دن بعد 26 نومبر 1949 کو مکمل کیا اور مختلف صوبوں کے مجالس قانون ساز کی منظوری کے بعد 26 جنوری 1950ء کو اسے نافذ کردیا گیا۔
دستور میں ملک کو مذہب کے بجائے ایک سیکولر عوامی جمہوریہ بنانے، اس کے تمام باشندوں کو سیاسی سماجی اور معاشی انصاف فراہم کرنے، ہر ایک کو آزادانہ افکار و خیال رکھنے، مذہب و عقیدہ پر عمل، مذہبی اداروں کی تعمیر اور اس کی دعوت وتبلیغ،عبادت کرنے اور عبادت گاہ کی تعمیر اور اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ ساتھ حیثیت اور موقع کے اعتبار سے مساوات و برابری کا حق دیا گیا اور اتحاد و سا؎لمیت کو یقینی بنانے کے لئے اخوت و بھائی چارہ فروغ دینے کے عزمِ کا اظہار کیا گیا۔

کیا ہندوستان کو واقعی آزادی ملی ؟:

ہمارے ملک کو آزاد ہوئے۷۶ سال ہوچکے ہیں۔ ہم سب اِس سے واقف ہیں کہ کس طرح ہندوستان انگریزوں کے ظلم و ستم، جابرانہ پالیسیوں اور غلامی کی زنجیروں سے ۱۵/اگست ۱۹۴۷ء کو آزاد ہوا۔ آزادی کے متوالوں نے بلند حوصلوں کے ساتھ کیسی کیسی قربانیاں پیش کیں۔ مجاہدینِ آزادی کی سخت جدوجہد کے بعد ہمیں آزادی جیسی نعمتِ عظمیٰ حاصل ہوئی لیکن حقیقت یہ ہےکہ ہندوستان آج بھی صحیح معنوں میں آزادی کا منتظر ہے۔ آج حالات یہ ہیں کہ ملک میں غریب، مزدور، خواتین، دلِت اور مسلمان محفوظ نہیں ہیں۔
آج اِس ملک کی تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے اور آزادی کے حقیقی ثمرات سے ہندوستان کے عوام محروم دکھائی دیتے ہیں۔ جدوجہد آزادی کے معماروں نے ہندوستان کو جس راہ پر گامزن کرنے کا خواب دیکھا تھا، اُس راہ سے ہندوستان نے خود کو الگ کر لیا ہے اور اب عالمی طاقتوں کا آلہ کار بنتا جا رہا ہے۔ ایسے میں یہ سوال اب بھی تشنہ جواب ہے کہ کیا واقعی آزاد ملک کا خواب پورا ہوا ہے؟ آزاد ہندوستان کا خواب اُسی وقت پورا ہوگا جب پورا ہندوستان ترقی کرے گا۔ پسماندہ افراد کو ترقی کے عمل میں شامل کیا جائے گا۔ مجروح اور پچھڑے ہوئے لوگوں کو مین اِسٹریم میں لایا جائے گا۔ ہم اکثر اپنے ماضی کی حصولیابیوں پر اِنتہائی مسرت کا اظہار کرتے ہیں، لیکن اُن کامیابیوں پر مطمئن ہوجانا غلط ہوگا۔
آزادی کا مطلب ہر شخص کو کھلی فضا میں سانس لینے کا حق ہے۔ آزادی ایک بیش بہا نعمت، قدرت کا بیحد انمول تحفہ اور زندگی جینے کا اصل احساس ہے۔ اِس کے برعکس غلامی و عبودیت ایک فطری برائی، کربناک اذیت اور خوفناک زنجیر ہے۔ اِس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ جس طرح معاشرے میں شخصی آزادی نہایت اہم ہے اُس سے کہیں زیادہ اجتماعی آزادی کی اہمیت و ضرورت ہے۔ یا یوں کہئے کہ آزادی ایک عظیم نعمت ہے، اِس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی چیز نہیں اور اِس کی حفاظت ہماری اجتماعی اور قومی ذمہ داری ہے۔

ملک کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار:

ہمارا ملک ہندوستان ایک آزاد اور سیکولر ملک ہے جہاں تمام ادیان ومذاہب کےمتبعین وپیروکاروں کو اپنی بات کہنے، سننے ،پھیلانے اور اپنی شریعت کے احکام وفرامین پر عمل کرنے کا پورا پوراحق حاصل ہے۔ یہ ملک 15؍اگست 1947ء کو انگریزوں کے شکنجوں اور ظلم واستبداد سے آزادہوا،اس میں اہل وطن اور خصوصا مسلمانوں کوکثیر تعداد میں اپنی جان ومال کا نذرانہ پیش کرنا پڑاہے۔ مسلمانوں نے آزادی کی خاطر انگریزوں کے خلاف تحریکیں چلائیں، پھانسی کے پھندے پر لٹکے،جان ومال اور اہل وعیال کی قربانیاں پیش کیں اور کالاپانی کی خوفناک وہیبت ناک سزائیں برداشت کیں۔ غرضیکہ ہر طرح کے مصائب وآلام برداشت کرنے کے باوجود بھی ان کے پائے ثبات میں ذرہ برابر بھی لغزش نہ آئی بلکہ وہ بخوشی اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہے۔
دراصل 1947ءکی آزادی سے پہلے ہمارا ملک انگریزوں کے ظلم واستبداد کا شکار تھا وہ انگریز جو اس ملک میں 1600ء میں تجارت کی خاطرداخل ہوئے تھے، آہستہ آہستہ انہوں نے اپنی سیاسی چالوں، عیاریوں ومکاریوں کے ذریعہ مسلمانوں کوشکست فاش دے کرسونے کی چڑیا کہے جانے والے اس ملک کے کرسی اقتدار پر اپنا تسلط قائم کرلیا تھا اور قابض ہونے کے بعد ہندوستانیوں اور خصوصا مسلمانوں کو اپنے ظلم وستم کا نشانہ بنانا شروع کردیا یہاں تک کہ مسلمانوں کا جینا دوبھر ہو گیا تھا۔چنانچہ اس وقت مسلمانوں نے ملک کے حالات اور موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے انفرادی واجتماعی طور پر انگریزوں کے خلاف تحریکیں چلائیں، ان کے ظلم وستم اور سیاسی چالبازیوں کواپنی تقریروں وتحریروں کے ذریعہ عوام الناس کے سامنے طشت ازبام کیا، علمائے کرام نے خصوصی طور پر اس تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور عوام میں آزادی کی روح پھونکی۔
لہٰذا آج حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی حقیقت کو پہچانیں، اسلاف کے کارناموں کو یاد کریں، اسلام کی روشن تعلیمات کو پوری دنیا میں عام کریں، سنگھیوں اور اغیار کے رخساروں پر تاریخ کے ان سنہرے واقعات وحادثات اور مجاہدین آزادی کی خدمات جلیلہ کوبیان کرکے ان کے ذہن ودماغ کے دریچوں کو کھولیں اور انھیں بتائیں کہ یہ ملک جتنا تمہارا ہے اتنا ہی ہمارا بھی ۔ اس لئے ملک میں سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔ کیونکہ اس کی ملک کی آزادی میں سب نے مل کر اپنے جان ومال ،اعزہ واقارب اور آباء واجداد کی قربانیاں پیش کی ہیں ۔ یہ ملک سب کا ہے اور سب کا رہے گا اور اس ملک میں سب کو امن وسکون سے رہنے کا حق حاصل ہے۔ اسی میں سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کا نعرہ مضمر ہے ۔ہم سب کو چاہیئے کہ موجودہ حالات سے گھبرائیں نہیں، حالات پر کڑی نظر رکھیں اور حکمت و ایمانی بصیرت سے مردانہ وار مقابلہ کریں۔
دنیا سے آج پوچھو، پیچھے نہیں تھے ہم انگریز لے رہا تھا جب امتحان ہمارا
زد میں بھی گولیوں کی مقصد نہ ہم چھوڑا قیدوں میں بھی نہ بدلا عزم جواں ہمارا
ریلوں میں، راستوں میں، جیلوں میں، محفلوں میں نعرہ تھا ہم کو دے دو ہندوستاں ہمارا
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل صرف تعلیم میں ہے۔ آرٹیکل 301 میں کہا گیا ہے کہ ہر اقلیت چاہے وہ مذہبی یا لسانی ہو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق تعلیمی ادارے قائم کرے اور چلائے۔ تعلیم ہی بے یارومددگار مسلم قوم کے لئے نسخہ کیمیا ہے اور اس کی بھی ذمہ داریاں قائدین اور علمائے کرام پر ہے۔ اللہ ہم تمام لوگوں کواپنی ذمہ داری لینے اور نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .