تحریر: حسین حامد (نگراں سکریٹری معاون کمیٹی تنظیم المکاتب کشمیر)
أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم ﷽
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعالَمینَ۔اَلصَّلوٰۃُ ُوَالسَّلَامُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَاٰلِہٖ الطَاہِرِیْنْ
درنوائے زندگی سوز از حسین ؑ
اہلِ حق حریت آموز از حسین ؑ
(امام حسین ؑ کے اُسوہ سے نوائے زندگی میں سوز پیدا ہوا اور اہلِ حق نے آپ ؑ سے حریت کا درس لیا)
(علامہ اقبال ؒ)
تاریخ اسلام میں واقعہ کربلا ایک ایسا درخشاں باب ہے جو رہتی دنیا تک اللہ کی راہ میں حق‘صداقت‘شجاعت‘غیرت ایمانی اور جانثاری کا کبھی نہ مٹ سکنے والا نشان راہ قائم رہے گا۔امام عالی مقام سید الشھداء حضرت امام حسین علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے بے مثال قیام سے نہ صرف اسلامی اقدار کو نئی زندگی عطا کی، بلکہ انسانیت کو ظالم و جابر قوتوں کے سامنے کبھی سر نہ جھکنے کا درس جاودانی دیا۔ امام علیہ السلام کا قیام فقط رذالتوں اور کثافتوں کا مجموعہ یزید پلید کی بیعت سے انکار نہیں تھا، بلکہ یہ عظیم قیام ایک جامع الٰہی اور انقلابی پیغام کے اعلیٰ ترین مقام کا حامل ہے جو ہر دور کے انسان کے لئے چراغ ہدایت تسلیم ہے۔
قیام حسینی کا اولین مقصد دین مبین اسلام کے اصلی وحقیقی چہرے کو دنیا کے سامنے از سر نو پیش کرنا تھا جب اسلامی عقائد و احکام کو مسخ کیا گیا تھا‘دین حق کو ملوکیت و منافقت کے سانچے میں ڈالا گیا تھا اور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو یکسر پس پشت کردیا گیا تھا تب امام حسین علیہ السلام نے قیام کا مصمم ارادہ کیا اور اعزا و اقارب کو اپنے ساتھ اٹھا کر جب مدینہ سے روانہ ہوئے تو یہ اعلان فرما دیا:إِنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَ لَا بَطِرًا، وَ لَا مُفْسِدًا وَ لَا ظَالِمًا، وَ إِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلَاحِ فِي أُمَّةِ جَدِّي، أُرِيدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ، وَ أَسِيرَ بِسِيرَةِ جَدِّي وَ أَبِي عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، فَمَنْ قَبِلَنِي بِقَبُولِ الْحَقِّ فَاللَّهُ أَوْلَى بِالْحَقِّ، وَ مَنْ رَدَّ عَلَيَّ هَذَا أَصْبِرُ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ بَيْنِي وَ بَيْنَ الْقَوْمِ بِالْحَقِّ، وَ هُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ.
میں نے نہ تو کسی خوشی یا غرور کے لیے، نہ ہی فساد پھیلانے یا ظلم کرنے کے لیے قیام کیا ہے، بلکہ میں صرف اپنے نانا (رسول اللہ ﷺ) کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں۔ میرا ارادہ ہے کہ نیکی کا حکم دوں اور برائی سے روکوں اور اپنے ناناؑ اور اپنے والد علی بن ابی طالبؑ کی سیرت پر چلوں۔ پس جس نے مجھے حق کے ساتھ قبول کیا، تو اللہ حق کو قبول کرنے والوں کا بہتر حقدار ہے، اور جو مجھے رد کرے، تو میں صبر کروں گا یہاں تک کہ اللہ میرے اور ان لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
یہ اعلان جو تاریخ عالم میں نہایت ہی سنہری حروف سے ثبت ہے اس بات کا بین ثبوت ہے کہ آپ علیہ السلام نے اپنی جان ‘اپنا مقدس رسالت کا گھرانہ اور دیگرسب کچھ پروردگار عالم کی رضا کی خاطر قربان کرکے دین حق کوتاقیام قیامت زندہ رکھ دیا۔
دین اسلام ایک ایسا آفاقی دین ہے جو روز اول سے عدل‘انصاف‘صداقت اور راستی کی تعلیم دیتا آیا ہے۔پیغمبر اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد رفتہ رفتہ معاشرے میں ایسے فتنے سر اٹھانے لگے جنہوں نے اسلامی اقدار کو پامال کرنا شروع کردیا۔دینی احکام و عقائد میں تحریف‘شخصی مفادات کی پیروی اور قرآن و احادیث پیغمبرؐ کی روح کے خلاف احکامات کو فروغ دینا ان فتنوں کی علامات تھیں۔غرض اسلامی معاشرہ اندرونی طور زوال پذیر ہوچکا تھا۔یزید ملعون جیسے فاسق و فاجر شخص کو خلافت جیسے عظیم منصب پر براجمان کردیا گیا تھاجس کی غلیظ زندگی قرآن و سنت کے اصولوں کے یکسر خلاف تھی۔لوگ نفسانی خواہشات کے حد سے زیادہ غلام بن چکے تھے۔دنیا طلبی‘ اقتدار پرستی اور نجی مفادات نے حق و باطل کی تمیز کو مٹا دیا تھا۔اسی ظلم و فساد کے خلاف امام عالی مقام ؑ نے قیام کیا ۔اپنے اعزا و اقارب ‘یار و یاور کے ساتھ عملی میدان میں یہ دکھا دیا کہ جب دین پہ بن آئے تو دین پہ مٹ جانے کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔آپ ؑ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی وہ عظیم مثال قائم کی جو قیامت تک کے لئے مومنین کا نصب العین بن گئی۔آپ ؑ نے ان حالات میں فرمایا’’کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ حق پر عمل نہیں کیا جارہا ہے اور باطل سے پرہیز نہیں کیا جارہا ہے‘‘۔امام عالی مقامؑ کا یہ جامع کلام اُس دور کےمسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے کافی تھا اور اِس دور کے مسلمانان عالم کو بھی جھنجھوڑتا ہے کہ اگر باطل قوتوں کے خلاف آواز بلند نہ کی گئی تو دین کی روح ختم ہوجائے گی اور ان باطل قوتوں کی غلامی میں ہی زندگی اجیر بن گزارنی پڑے گی۔یہ ہے قیام حسینی کا وہ عظیم پیغام جو مظلومین و مستضعفین عالم کے لئے ایک ڈھارس اور ظالموں ‘ ناحق استعماری و استکبار ی قوتوںکے لئے ایک للکار ہے۔جب بھی دین پر ظلم ہو ‘ جب بھی قرآن کی تعلیمات کو مسخ کرنے کی بے جا کوشش ہو ‘ جب بھی اہل باطل متحد ہوکر اہل حق کو دبانےکے در پے ہو تو پیغام حسینی کا یہ موقف ہمیں سکھاتا ہے کہ خاموشی جرم اور قیام حق فرضِ اولین ہے جو اہل ایمان کی بہترین علامت ہے۔
لہذا ہر مسلمان بلکہ بلا لحاظ مذہب و ملت ہرانسان کا فرض ہے کہ امام عالی مقام حسین ؑ ابن علی ؑ کےاس پیغام کو سمجھے‘ اس پر عمل کرے اور موجودہ دور کے فتنوں کا مقابلہ علم‘ بصیرت اور حوصلے کے ساتھ کرتا رہے۔
تاریخ عالم گواہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اپنی وفات اور اس سے پہلے اپنی تمام تر علمی میراث حضرت علی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد کردی تاکہ یہ میراث حقیقی بتدریج باقی ائمہ طاہرین علیھم السلام یہاں تک کہ ہمارے آخری امام حضرت ولی العصر عج اللہ فرجہ الشریف تک پہونچ جائے۔وفات مرسل اعظم ﷺسے لے کر یزید ملعون کےغصب کردہ ناجائز دور خلافت تک وہ سارے عجیب حادثات و واقعات جیسےنئے نئے نظریات‘غیر اسلامی طرز فکراورارتجاعی افکار جو ناحق وجود میں لائی گئیں تھیں اور جنہوں نے دین کا اصل چہرہ مسخ کرکے رکھ دیا تھا‘مولائے کائینات علی ابن ابی طالب ؑ اور آپ کے متبرک خاندان پر سب و شتم کرنا جوبنو امیہ حکومت کے خاندان رسالت مخالف پراپگنڈے کا خاص حصہ تھا اور لوگوں کو اہلبیت رسول ؑ سے دور کرنے کا پروگرام سختی سے نافذ العمل بناناامام حسین ؑ کے زیر نظرتھے۔ بنو امیہ کی یہ ساری خیانتیں اور جنایتیں آنجناب ؑ مشاہدہ فرمارہے تھے کہ کیسے حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال کیا جارہا ہے‘کیسے زمانہ جاہلیت کے منحوس دور جیسے قبائلی اور نسلی تعصبات کو پھر سے ہوا دی جارہی ہے‘بیت المال کی بربادی اور اس کی ناعادلانہ تقسیم کاری عملائی جارہی ہے۔ریاست و منصب پانے کا معیار رشتہ داروں کو قرار دیا جارہا ہے۔رسول خدا ؐ کی جس خلافت و جانشینی کا اعلان آغاز رسالت ہی سے ہوا تھا اُس خلافت کو اس بلندی سے نیچے اتارا گیا ہے‘فاسق و فاجر یزید ملعون کی مخالفت حرام شمار ہونے لگی ہے اور مخالفت کرنے والوں کو واجب القتل سمجھا جانے لگا ہے۔
ان ہی خرافات‘گمراہیوں‘ناقابل برداشت ظلم و ستم‘نا انصافی اور حد سے زیادہ زیادتیوں کے خلاف امام حسین ؑ نے قیام فرمایا اور قرآن کریم کی اس آیہ مبارک’’قُل ْجَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا‘‘ کے مصداق ٹھہرے۔عصر عاشور اپنی اور اپنے باوفا اصحاب و اقارب کی جانگداز شہادت عظمیٰ سے حق کا بول بالا کردیا اور باطل کو ہمیشہ کے لئے ذلیل کرکے رکھ دیا۔
مذکورہ بالا بیان سے معلوم ہوا کہ قیام حسین دراصل نبی کریم ؐ اور حضرت علی ؑ کا عملی تسلسل تھا۔آپ ؑ نے ان دونوں عظیم ہستیوں کی سیرت پاک کو اپنا اسوہ بنایا اور رہتی دنیا پر واضح کردیا کہ جو شخص حق پر ہے وہ تنہا بھی ہو تو غالب ہے۔
امام حسین علیہ السلام سے یزید ملعون کی بیعت کا تقاضا کیا جارہا ہے جسکے جواب میں امام عالی مقام برملا فرماتے ہیں کہ:
’’یزید ایک فاسق و فاجر ‘شراب خور اور قاتل انسان ہے کہ اس کا فسق و فجور عیاں ہے اور مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا‘‘۔
اس طرح قیام امام حسین ؑ صرف ایک واقع نہیں بلکہ ایک فکر‘ایک تحریک‘ایک اصلاحی انقلاب اور ایک روحانی پیغام ہے اور ایک مکمل نظام حیات ہےجو ہر دور کے انسان کو جگاتا رہے گا۔یہ ہر زمانے میں مظلوموں کے لئے حوصلہ‘اہل ایمان کے لئے بیداری اور ظالموں کے لئے لرزہ ہے۔قیام حسینی نے یہ پیغام دے کے رکھا ہے کہ باطل کے ساتھ کوئی صلح نہیں ہوسکتی چاہے اس کی قیمت جان ہی کیوں نہ ہو۔باطل کو ہر صورت میں روکا جائے۔اس کے پھیلاؤ کو محدود کیا جائے۔لوگوں کو گمراہی کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت روشنی اور خدا کی طرف بلایا جائے۔۔یہ امت کو احساس ذمہ داری دلانے اور اُنکو غفلت‘جمود اور فرائض دینی سے بے خبری کی دلدل سے نکالنے کا بہترین ذریعہ ہے۔اس قیام نے واضح کردیا ہے کہ ایک مسلان کا فرض صرف عبادات تک محدود نہیں بلکہ ظلم کے خلاف ڈٹ جانا‘مظلوم کا ساتھ دینا اور حق کی حمایت کرنا بھی دین کا حصہ ہے۔
یہ قیام حسینی دین کی روح‘انسانیت کی فلاح اور ظلم و جور کے خلاف بغاوت کا ایسا پیغام ہے جو نہ صرف مسلمانان عالم کے لئے ہے بلکہ تمام انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔اس عظیم پیغام کو سمجھنا‘ اس پر عمل کرنا اور نسل نو تک پہونچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم پیغا م حسینی کو صرف مجالس و ماتم تک محدود نہ رکھیں‘بلکہ اس کے عملی پہلو ؤ کو اپنی زندگی میں نافذ کریں اور حق و صداقت کی راہ امام عالی مقام ؑ کی پیروی میں استقامت سے قائم رہیں۔
اللہ ہم سب کو پیغام قیام حسینی کو سمجھنے اور عملانے کی توفیق خیر عنایت فرمائے۔









آپ کا تبصرہ