۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
علامہ غلام عباس رئیسی

حوزہ / عَلَم مبارک کو صرف علم سمجھ کر نہ اٹھائیں بلکہ اس عَلَم کو پیغام کربلا کو دوسروں تک پہنچانے اور اس پر عمل کرنے کی احساس کے ساتھ اٹھائیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین غلام عباس رئیسی نے محرم الحرام کی مناسبت سے مجمع سیدالشہداء العالمیہ قم میں منعقدہ مجلسِ عزا سے خطاب میں کہا: باشرف انسان ہمیشہ احساس ذمہ داری کرتا ہے کہ میں انسان ہوں۔

انہوں نے کہا: منافق سے مقابلہ کرنے کے لئے بصیرت کی ضرورت ہے۔ منافق ہمیشہ مؤمن کے لباس میں سامنے آتا ہے اور ہمارے ائمہ علیہم السلام نے ہمیشہ منافقین کو رسوا کیا ہے۔

مجمع سیدالشہداء العالمیہ قم کے خطیب نے مزید کہا: عصر حاضر میں دو گروہ موجود ہیں؛ ایک وہ جو امامؑ کو نہیں مانتے لیکن دوسرا گروہ وہ ہے جو امامؑ کو تو مانتے ہیں لیکن امامؑ کے نظریے کو قبول نہیں کرتے۔ اس دوسرے گروہ کی تشخیص کے لئے چشم بصیرت کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا: منافقین کی وجہ سے ہی دشمنانِ اسلام سادہ لوح افراد کو حضرت علی علیہ السلام جیسی شخصیت کو بے نمازی دکھانے میں کامیاب ہوئے۔

حجت الاسلام رئیسی نے کہا: باشرف انسان ہمیشہ احساس ذمہ داری کرتا ہے کہ میں انسان ہوں۔ وه لوگ معاشرے کو کامیابی اور ترقی کی راہ پر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اس زمانے میں بھی احساس ذمہ داری نہیں کرتے حتی‌ کہ اسلام کو بھی خطرہ ہو تو بھی ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

مجمع سیدالشہداء العالمیہ قم کے خطیب نے علَم مبارک کو کربلا کا نمونہ قرار دیتے ہوئے کہا: اس عَلَم مبارک کو صرف علم سمجھ کر نہ اٹھائیں بلکہ اس عَلَم کو پیغام کربلا کو دوسروں تک پہنچانے اور اس پر عمل کرنے کی احساس کے ساتھ اٹھائیں۔ عَلَم کو علم کے تقاضے کے ساتھ اٹھائیں۔ اس عَلم کو اٹھانے کے بعد یہ عہد کریں کہ اگر ہاتھوں کو بھی قربان کرنا پڑا تب بھی حق پر کھڑے رہنا ہے۔

انہوں نے امام حسن(ع) کی صلح اور امام حسین (ع)کے قیام کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے کہا: ائمہ علیہم السلام کا ہدف ایک ہی ہے لیکن مقصد کے حصول کا طریقہ مختلف ہے۔ امام حسن علیہ السلام کے دور میں لوگ حقیقت کو نہیں پہنچانتے تھے، حق اور باطل لوگوں کے لئے واضح نہیں تھا، لوگ شک میں تھے کہ امام حسن علیہ السلام حق پر ہیں یا امیر شام؟ اس لئے امام حسن علیہ السلام نے صلح کی اور امیر شام نے صلح کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حق و باطل کو لوگوں میں ایسے مخلوط کر دیا کہ لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلا کہ امام حسن علیہ السلام حق ہیں اور امیرشام عینِ باطل ہے۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: اس وقت امام عالی مقام علیہ السلام نے صلح کرکے لوگوں کے شک کو دور کیا لیکن کربلا میں سب جانتے تھے کہ یزید فاسق و فاجر ہے اور اسلام کو نابود کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس لئے امام حسین علیہ السلام نے جان کی قربانی دے کر اسلام کو بچایا کیونکہ امام حسن علیہ السلام کا ہدف بھی دین مبین اسلام کو بچانا تھا اور امام حسن علیہ السلام کا ہدف بھی یہی تھا۔ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام مختلف نہیں ہیں لیکن دوست، دشمن اور وقت کا تقاضا مختلف تھا۔

انہوں نے مزید کہا: یزید کی حکومت سے پہلے اگر کبھی حکمران گناہ کرتے تھے تو اسے یا تو دوسروں کی نگاہوں سے چھپ کر انجام دیتے تھے یا اس گناہ کے انجام دینے کے جواز کے طور پر بعض جعلی احادیث کا سہارا لے کر پہلے اس گناہ کو شرعی طور پر جائز قرار دیتے تھے اور بعد میں اس گناہ کا ارتکاب کرتے تھے اور ان میں اس گناہ کو کھلم کھلا اور گناہ کے عنوان سے انجام دینے کی جراٴت نہ تھی لیکن یزید علی الاعلان گناہ کا ارتکاب کیا کرتا تھا جیسا کہ دربارِ ولید میں حضرت امام حسین علیہ السلام نے اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "یزید رجل فاجر معلن بالفسق و مثلی لا یبایع مثلہ" یعنی "یزید ایک فاسق و فاجر انسان ہے جو کھلم کھلا اور سرعام گناہ کرتا ہے اور مجھ جیساکبھی یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا"۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .