تحریر: حجۃ الاسلام مولانا عسکری امام خان
حوزہ نیوز ایجنسی| حقیقت میں واقعہ کربلا میں وہ چیز جو دشمن فوج کے سربراہوں کی جانب فوجیوں کو القاء کی جا رہی تھی، وہ دھوکہ ، فریب، گمراہی، فکری آلودگی، اور حقائق سے دوری کے علاوہ کچھ نہیں تھی، کہ جس میں آگے آگے مکاروں کا مکار "عمر بن سعد" تھا کہ جس نے اپنی فریبی اور وسوسہ انگیز گفتگو سے لوگوں کی فکری صلاحیتوں کو چھین لیا تھا، جیسا کہ یہ شخص کربلا میں روز عاشورا اپنے لشکریوں سے کہتا ہے: " یا خَیْلَ اللّهِ ارْكَبی وَ بِالْجَنَّةِ اَبْشِری"(١)
"اے خدا کے سپاہیو سوار ہو جاؤ اور تم کو جنت کی بشارت ہو"
اس طرح لشکر کو امام حسین علیہ السلام پر حملے کے لئے آمادہ کیا، لوگوں کو غیرت اور شجاعت دلا کر خود پہلا تیر امام علیہ السلام کی طرف روانہ کیا، یہ دیکھ کر لشکر کا ہر کوئی اپنے چلہ کمان میں تیر کس کر عمر بن سعد کے اتباع میں امام کی جانب تیر پھینکنے لگا، جس کے نتیجے میں امام (ع) کے کتنے ہی اصحاب جاں بحق ہو گئے ، البتہ دنیا کی متاع قلیل کے دلدادہ اور شہرت و مقام کے بھوکے لوگوں کو اس طرح فریب دینا بہت آسان اور معمولی کام ہے، اس لئے کہ ان کے شکم حرام سے بھرے ہوئے ہیں، لہذا اپنے وقت کے امام (ع) کے مقابلے آکر انہوں نے حقائق سے چشم پوشی کر لی اور فرزند فاطمہ کی نسبت، اپنے ظاہری اعتقاد کے باوجود ان کے قتل کے درپے ہوگئے اور ان کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے لگے، یقینا جو لوگ لشکر کفار میں تھے، وہ بخوبی جانتے تھے کہ امام حسین علیہ السلام سے جنگ خدا و پیغمبر سے جنگ ہے، اور یہی وجہ تھی کہ چونکہ امام (ع) کو پہچانتے تھے، لہذا درمیان راہ کتنے لوگ دشمن کے لشکر سے جدا ہوگئے اور فرار کرگئے، مورخین لکھتے ہیں کہ ایک حاکم کوفے سے ہزار سپاہیوں کے ساتھ چلا تھا اور کربلا پہنچتے پہنچتے اس کے ساتھ صرف چار سو یا تین سو یا اس سے بھی کم بچے تھے اور باقی اس خیال و اعتقاد کی بنیاد پر کہ یہ جنگ روا نہیں ہے بھاگ گئے تھے(۲) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روز عاشور جنگ شروع ہونے سے پہلے سارے یزیدی فوجی حقائق سے آگاہ ہو چکے تھے، وہ جانتے تھے کہ ان کے مد مقابل کون ہے اور وہ کس کے مقابل صف آرا ہیں اور کس کے قتل پر کمربستہ ہیں۔
نیز ان کی اس آگاہی پر جملہ دلیلوں میں سے ایک دلیل خود امام حسین (ع) کے عاشور کے دن کے وہ خطبات اور کلمات ہیں کہ جس میں امام نے اپنی معرفی کروائی اور پہچنوایا ہے، اور خود کو "آل اللہ" بتا کر "آل اللہ"کی حرمت پامال کرنے اور ان سے جنگ کرنے سے روکا ہے اور انہیں شقاوت و بدبختی کی راہ اختیار کرنے سے نہی فرمائی ہے (۳)
جیسا کہ آپ نے اپنے ایک خطبے میں دشمنوں کو خطاب کرکے (کہ جس کے درمیان خود عمر سعد بھی موجود تھا) فرمایا ہے کہ : میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ جس کام کی انجام دہی کے لیے یہاں اکٹھے ہوئے ہو، اس نے خدا کو تم پر غضبناک کر دیا ہے، لہذا خدا نے تم سے منہ پھیر لیا ہے اور تم کو اپنے عذاب کا مستحق اور رحمت سے دور کر دیا ہے، ہمارا پروردگار کیا ہی اچھا ہے اور تم اس کے کتنے ہی برے بندے ہو کہ اس پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہوے اور اس کی اطاعت کا اقرار کرتے ہوئے بھی اس کی ذریت و عترت کے قتل کے درپے ہو، شیطان تم پر غالب آ گیا ہے، جس کی وجہ سے تم یاد خدا سے غافل ہوگئے ہو ، جس کا تم ارادہ رکھتے ہو اس میں تمہاری ہلاکت و نابودی ہے۔" انا للّٰہ و الیہ راجعون" یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے۔ ۔ ۔ (۴)
یا ایک مقام پر امام نے فرمایا: ھل من مغيث يغيثنا لوجه الله؟ ھل من ذاب يذب عن حرم رسول الله؟(۵)
کیا کوئی فریاد رس ہے جو خدا کے لئے میری مدد کرے، کیا کوئی رسولِ خدا کے حرم کا دفاع کرنے والا ہے
نیز امام علیہ السلام سے ان کے آگاہ ہونے کی دلیل یہ بھی ہے کہ انہوں نے کربلا میں قتل و غارتگری کے بعد ابن زیاد اور یزید سے انعام مانگا اور ان کی طرف سے تشویقی پیغام و اکرام کے منتظر تھے، جب کہ لوگ امام کے خطبات میدان جنگ میں سن چکے تھے اور پہچان رہے تھے کہ یہ بنی کی پیاری بیٹی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے فرزند ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنا بڑا مجمع مسلمانوں کا، اتنے بڑے معرکہ میں آیا ہو اور سب اس بات سے غافل ہوں کہ ان کا مدمقابل کون ہے؟ لہذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کچھ لوگوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ ان کے مدمقابل کون سی شخصیت ہے، تو اس جنگ سے ان کا ارادہ خیر تھا، یہ صحیح نہیں ہو سکتا، ممکن ہے کہ کچھ لوگ ابتدا میں نہ جانتے رہے ہوں کہ یہ آل رسولِ ہیں اور ان پر اس حد تک ظلم روا ہوگا، لیکن ان کے درمیان بہت سے ملعون ایسے تھے جو امام کی شخصیت کو بر ملا کر کے ان کے نام و القاب، ان کی نسبت پیغمبر (ص) سے بیان کر کے انہیں برا بھلا کہتے تھے ، جیسا کہ ملتا ہے کہ سنان بن انس نخعی جب نشیب میں امام کے پیکر پاک کو دیکھا، تو خود بھی نشیب میں اترا اور تلوار امام کو مارتا تھا اور کہتا تھا میں تمہارا سر تن سے جدا کروں گا، جب کہ جانتا ہوں تم فرزند پیغمبر (ص) ہو، اور تمہارے ماں باپ سب سے بہتر ہیں ۔
خلاصہ یہ کہ:
کربلا کے معرکہ میں دشمن فوج کی کوئی بھی فرد جاھل قاصر نہیں تھی اور سب امام کو پہچانتے تھے اور ان کے مقدس ہدف کو جانتے تھے، نیز یہی لوگ تھے جنہوں نے کربلا کے بعد اہل حرم کو اسیر بنا یا اور شام و کوفہ کے بازاروں میں ننگے سر پھرایا، کیا اس پوری مدت میں انہیں معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کس پر ظلم روا رکھے ہوئے ہیں اور ان کا مدمقابل کون ہے؟
اس سلسلے میں تفصیلی مطالعہ کے لیے شیخ عباس قمی کی کتاب نفس المہموم کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔
..................................................
(١) وقعۃ الطف (تحقیق محمد ہادی یوسفی عروج) صفحہ ۱۹۳.
(۲) حیاۃ الامام الحسین ؛ جلد۳، صفحہ ۱۱۸.
(۳) حیاۃ الامام الحسین ؛ جلد۳؛ ۱۸۴.
(۴) بحار الانوار؛ جلد ۴۵، صفحہ ۴۵.
(۵) علی نظری منفرد، قصہ کربلا؛ جلد ۲، صفحہ ۲۹۰.