۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
عسکری امام خان

حوزہ/ | کربلا کے بعد سرہاے شہداء کہ جنہیں نیزوں پر چڑھا کے کوفہ و شام کی منزلوں سے گزارا گیا اور دربار یزید میں لا کر پیش کیا گیا، ان کے دفن کے سلسلے میں کہ کب اور کہاں دفن کیے گئے تاریخ میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔

تحریر: حجۃ الاسلام مولانا عسکری امام خان

حوزہ نیوز ایجنسی | کربلا کے بعد سرہاے شہداء کہ جنہیں نیزوں پر چڑھا کے کوفہ و شام کی منزلوں سے گزارا گیا اور دربار یزید میں لا کر پیش کیا گیا، ان کے دفن کے سلسلے میں کہ کب اور کہاں دفن کیے گئے تاریخ میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔

لہذا اس سلسلے میں نقل شدہ اقوال کی تحقیق بہت ضروری ہے ۔

البتہ مقبول ترین اور مشہور ترین قول شیعوں کے نزدیک یہ ہے کہ کچھ عرصے بعد سرہائے مبارک شہداء کے بدن سے ملحق ہوئے اور کربلا میں مدفون ہیں۔

ہم اس مقام پر تفصیلی آگاہی کیلئے ان اقوال کو ذکر کر رہے ہیں:

۱_ کربلا

علامہ مجلسی کے کہنے کے مطابق شیعہ علماء کے نزدیک مشہور ترین قول یہی ہے(۱) شیخ صدوق نے بھی اس سلسلے میں اپنی کتاب "امالی" میں نقل کیا ہے(۲) کہ شہداء کے سرہائے مبارک کربلا میں ان کے جسموں سے ملحق کر دیے گئے، البتہ کیفیت الحاق کے سلسلے میں اختلاف ہے،

بعض لوگوں کا عقیدہ ہے جیسا کہ سید بن طاوؤس کہتے ہیں کہ یہ کام مشیت الہی سے انجام پایا ہے یعنی خدا نے اپنی قدرت سے معجزے کے طور پر شہدا کے سروں کو ان کے مبارک جسموں سے ملحق فرما دیا، پھر اس کے بعد فرماتے ہیں کہ اس سلسلے میں کسی طرح کی چوں چرا کی گنجائش نہیں ہے(۳)۔

اور بعض لوگوں نے کچھ اس طرح کہا ہے کہ امام سجاد علیہ السلام نے خود شام سے رہائی کے بعد اربعین کے روز (۴) یا کسی اور دن ان سروں کو کربلا لا کر ان کے جسموں کے کنارے دفن فرما دیا(۵). اب سوال یہ ہے کہ آیا ان سروں کو ان کے بدن سے ملحق کر کے دفن کیا ہے یا ضریح سے قریب ان کی قبر سے ملا کر دفن کیا ہے؟ اس کے سلسلہ میں دقیق کوئی جانکاری نہیں ملتی اور یہاں پر بھی سید ابن طاؤس نے چوں و چرا کرنے سے نہی فرمائی ہے(۶).

اسی طرح بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ تین دن تک سروں کو دروازہ دمشق پر لٹکانے کے بعد کسی حکومتی گنج خانے میں رکھ دیا گیا اور یہ سرہائے مبارک سلیمان بن عبدالملک کے زمانے تک وہیں پر تھے پھر اس نے ان سروں کو باہر نکالا اور ان کو کفن کرنے کے بعد دمشق کے مسلمانوں کی قبرستان میں دفن کر دیا، پھر اس کے بعد سلیمان بن عبدالملک کے جانشین عمر بن عبدالعزیز نے ان سروں کو قبرستان سے نکلوایا لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ کیا کیا اور کہاں دفن کیا، البتہ چونکہ عمر بن عبدالعزیز ظاہری طور پر شریعت کا پابند تھا لہذا اس بات کا بہت زیادہ اندیشہ ہے کہ اس نے ان سروں کو دفن کے لئے کربلا بھجوا دیا ہوگا(۷).

اہل سنت کے بعض علماء جیسے شبراوی، شبلنجی، اور سبط بن حویزی بھی اجمالا اس بات کے قائل ہیں کہ شہداء کے سروں کو کربلا میں ہی دفن کیا گیا ہے(۸)۔

۲_ نجف اشرف

علامہ مجلسی کی عبارت اور روایتوں کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ امام حسین (ع) کا سر مبارک نجف میں حضرت علی علیہ السلام کے روضہ مبارک میں دفن ہے (۹)۔جملہ روایتوں میں سے ایک روایت یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل کے ہمراہ نجف میں نماز پڑھنے کے بعد اپنے جد حضرت علی علیہ السلام پر سلام بھیجا اور امام حسین علیہ السلام پر بھی سلام بھیجا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کا سر مبارک نجف میں دفن ہے(۱۰)، دوسری روایتیں بھی اس بات کی تائید کرتی ہیں، یہاں تک کہ شیعہ زیارت کی کتابوں میں بھی امام علی علیہ السلام کی قبر کے نزدیک ان کی زیارت کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کی زیارت بھی نقل ہوئی ہے۔

نیز روایت میں وارد ہوا ہے کہ یہ سر ہاے مبارک ایک مدت تک دمشق میں تھے پھر کوفہ ابن زیاد کے پاس پلٹا دیے گئے اور ابن زیاد نے شورش و احتجاج کے خوف سے انہیں کوفہ سے خارج کیا اور حضرت علی علیہ السلام کی قبر کے نزدیک دفن کر دیا۔

البتہ قابل غور بات یہ ہے کہ ان تمام روایتوں میں ایک اشکال واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ قبر حضرت علی علیہ السلام چھٹے امام کے زمانے تک لوگوں پر مخفی تھی۔

۳_ کوفہ

سبط بن جوزی نے یہ قول نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ عمرو ابن حریث مخدومی نے ابن زیاد سے سرہاے مبارک کو لے کر غسل و کفن کر کے اپنے گھر میں ہی دفن کرد دیا (۱۱)

۴_مدینہ

یہ قول "طبقات الکبری" کے مصنف ابن سعد کا ہے اور وہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ یزید نے امام حسین کے سر مبارک کو حاکم مدینہ عمرو بن سعید کے پاس بھیجا اور اس نے غسل و کفن کرکے قبرستان بقیع میں قبر شہزادی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے نزدیک دفن کر دیا(۱۲) اس نظریے کو بعض اہل سنت علماء نے قبول کیا ہے جیسے خوارزمی نے "مقتل الحسین" میں، اور ابن عماد حنبلی نے "شذرات الذھب" میں اسے نقل کیا ہے.

اشکال سب سے بڑا اس اشکال اس نظریہ پر یہ ہے کہ قبر حضرت زینب سلام اللہ علیہا اس وقت تک کسی کو معلوم نہیں تھی، اور آج بھی بقیع میں بی بی کی قبر کا ہونا ثابت اور قطعی نہیں ہے۔

۵_شام

زیادہ تر اہلسنت قائل ہیں کہ سر ہاے مبارک کو شام میں ہی دفن کیا گیا ہے، البتہ مقام دفن کے سلسلے میں اس قول کے قائلین کے درمیان آپس میں اختلاف ہے، جیسا کہ بعض کہتے ہیں کہ: سرہائے شہداء دروازہ فرادیس کے کنارے دفن کئے گئے ہیں کہ جہاں بعد میں مسجد الرأس تعمیر کرائی گئی، بعض کہتے ہیں "مسجد جامع اموی" کے کنارے ایک باغ میں دفن ہیں، بعض دار الامارۃ کہتے ہیں ،تو بعض دمشق کے کسی قبرستان کا نام لیتے ہیں ، اور بعض "دروازہ توما" کے کنارے بتاتے ہیں (۱۳) ۔

۶_ رقة

کہتے ہیں فرات کے کنارے رقہ نامی ایک شہر تھا یزید نے سرہائے شہداء کو وہاں آل ابی محیط کے لیے بھیجا، ( اس زمانے کے عثمانی خاندان کے لوگ جو اس شہر میں ساکن تھے) ان لوگوں نے ایک گھر میں ان سروں کو دفن کر دیا جہاں بعد میں مسجد تعمیر کرائی گئی(۱۴).

۷_مصر (قاہرہ)

کہتے ہیں کہ فاطمی خلفاء جو اسماعیلی شیعہ مذہب کے پیرو تھے تھے جو چوتھی صدی کے آخر سے ساتویں صدی کے آغاز تک مصر میں حکمرانی کر رہے تھے شام کے دروازہ فرادیس سے امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کو عسقلان لے گئے اور پھر وہاں سے قاہرہ منتقل کیا اور وہاں دفن کر دیا، پھر پانچویں صدی ہجری کے بعد اس مقام پر "تاج الحسین" نام کا مقبرہ بنوایا گیا (۱۵)۔

مقریزی لکھتے ہیں کہ عسقلان سے قاہرہ امام علیہ السلام کے سر مبارک کو سنہ ۵۴۸ ہجری قمری میں منتقل کیا گیا، نیز وہ لکھتے ہیں کے عسقلان سے جب سر مبارک کو باہر لایا گیا تو دیکھا گیا کہ ابھی تک خون تر و تازہ تھا، اور سوکھا نہیں تھا اور مشک جیسی خوشبو پھیلی ہوئی تھی(۱۶).

معاصر علماء میں سے علامہ سید محسن امین آملی لکھتے ہیں مصر میں مقام دفن پر بہت بڑی درگاہ بنی ہوئی ہے اور اس کے بغل میں ایک عظیم مسجد بھی تعمیر ہے، سنہ ۱۳۲۱ ھ، ق، میں میرا وہاں جانے کا اتفاق ہوا تھا، میں نے اس مقام کی زیارت کی ہے، مردوں اور عورتوں کا کافی مجمع وہاں اکٹھا ہوتا ہے لوگ زیارت کے لئے آتے ہیں تضرع و زاری کرتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں اور مرادیں حاصل کرتے ہیں، اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ کوئی سر ضرور عسقلان لایا گیا ہے، لیکن یہ کہ وہ سر امام حسین علیہ السلام کا تھا یا کسی اور کا اس میں شک ہے(۱۷).

خلاصہ یہ کہ: شیعوں کے نزدیک مشہور و مقبول قول یہ ہے کہ سرہاے شہداء کربلا میں دفن ہیں، اور اہل سنت کے علماء کی اکثریت قائل ہے کہ سرہاے شہداء شام میں دفن ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) بحار الانوار، جلد ۴۵ ،صفحہ ۱۴۵.

(۲) سید بن طاوس، اقبال الاعمال؛ صفحہ ۵۸۸.

(۳) شہید قاضی طباطبایی، تحقیق دربارہ اولین اربعین حضرت سید الشہداء؛ جلد ۳، صفحہ ۳۰۴.

(۴) لہوف، صفحہ ۲۳۲.

(۵) امالی صدوق، صفحہ ۲۳۱.

(۶) اقبال الاعمال، صفحہ ۵۸۸.

(۷) مقتل الخوارزمی، جلد ۲؛ صفحہ ۷۵.

(۸) محمد امین، امینی؛ مع الرکب الحسین؛ جلد ۶ صفحہ ۳۲۴.

(۹) بحار الانوار جلد ۴۵ صفحہ ۱۴۵.

(۱۰) کافی، جلد ۴، صفحہ ۵۷۱.

(۱۱) تذکرۃ الخواص، صفحہ ۲۵۹.

(۱۲) ابن سعد ، طبقات الکبری ، جلد ۵، صفحہ ۱۱۲.

(۱۳) مع الرکب الحسینی، جلد۶ ، صفحہ ۳۳۱.

(۱۴) تذکرۃ الخواص ، صفحہ ۲۶۵.

(۱۵) البدایہ و النہایہ ، جلد۸ ، صفحہ ۲۰۵.

(۱۶) مع الرکب الحسین ، جلد ۶، صفحہ ۳۳۷.

(۱۷) لواعج الاشجان فی مقتل الحسین ، صفحہ ۲۰۵.

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • امیر حسین ZA 21:31 - 2023/08/31
    0 0
    امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کو کتنے لوگ دیکھنے کے لیے جمع ہوۓ تھے