۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ/ مولانا سید علی ہاشم عابدی نے بیان کیا کہ وہ علمائے ربانی جن کی زندگیاں دین و مذہب کے لئے وقف تھیں اور انکی دینی و مذہبی خدمات اور کردار نسلوں کے لئے مشعل راہ ہے انھوں نے شہید ثالث رہ کی خدمت اور انکے جوار کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھا۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لکھنو/ شہید ثالث قاضی سید نور اللہ شوشتری رضوان اللہ تعالی علیہ کی شہادت کے موقع پر مسجد کالا امام باڑہ میں مجلس عزا منعقد ہوئی۔ جس میں مولانا سید علی ہاشم عابدی صاحب نے سورہ صف کی آٹھویں آیت "یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پوا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو" کو سر نامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ ظلمت چاہے جتنی بھی بڑھ جائے لیکن نور اس کے دامن کو چاک کر کے اپنے وجود کو ثابت کر دیتا ہے۔ شہید ثالث رہ کا جیسا نام تھا نوراللہ  آپ نے اپنے علم و فقاہت، جہاد و ایثار ، صبر اور شہادت سے رہتی دنیا تک کے لئے ثابت کر دیا کہ آپ واقعی نور خدا تھے۔ 

مولانا سید علی ہاشم عابدی نے بیان کیا کہ وہ علمائے ربانی جن کی زندگیاں دین و مذہب کے لئے وقف تھیں اور انکی دینی و مذہبی خدمات اور کردار نسلوں کے لئے مشعل راہ ہے انھوں نے شہید ثالث رہ کی خدمت اور انکے جوار کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھا۔ 

مولانا نے مزید بیان کیا قرآن کریم کی روشنی میں انبیاء و صدیقین کے بعد جو بندگان خدا صاحب فضیلت و شرافت ہیں وہ شہداء ہیں، روایات کے مطابق جیسے ہی شہید کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرے گا تو اللہ اسکی مغفرت کر دے گا۔ دوسری جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے علماء کے قلم کی روشنائی شہداء کے خون سے افضل ہے۔ اگر ان روایات کی روشنی میں شہید ثالث رہ کی زندگی کو دیکھیں تو وہ ایسے عالم تھے کہ جہاں علم کلام میں ان کا کوی ثانی نہیں ہے تو فقہ میں فقہ جعفری کے ساتھ ساتھ اہل سنت کی چاروں فقہوں پر ان کو تسلط تھا۔ راہ خدا میں انکے بدن کا خون بعد میں بہا ہے پہلے قلم کی روشنائی سے تقریبا 150 ایسی کتابیں لکھیں جو دین خدا اور مذہب حق کی پاسباں ہیں اور آپ کا خون آپ کے قلم کی آبرو بن گیا۔ 

مولانا عابدی نے کہا کہ شہید ثالث رہ ہمارے ولی نعمت ہیں انھوں نے ہمارے ملک میں دین خدا اور مذہب حق کی تبلیغ کی اور فروغ دیا اور اسی راہ میں آپ کی مظلومانہ شہادت ہوئی۔ لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ جہاگیر ملعون کو لوگ عادل کہتے ہیں اور اس کی زنجیر عدل کے قصیدہ پڑھے جاتے ہیں لیکن کوئی اس ظالم و ستمگر کے اس خاردار کوڑے کا ذکر نہیں کرتا کہ جس سے اس نے  شہید ثالث رہ جیسے قاضی عادل، عالم و فقیہ کو شہید کرایا اور پاک و پاکیزہ جنازے کو جنگل میں ڈلوا دیا کہ کوئی دفن نہ کر سکے۔ جہانگیر اور اس کے درباری مُلّا ظلم کر کے یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ شہید کو ختم کر دیں گے لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ شہید اسم با مسمی نوراللہ ہیں جنکی بقا کا ضامن پروردگار ہے چاہے کافروں کتنا ہی ناگوار گذرے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .