تحریر: حسین مہدی، یسرچ اسکالر، خواجہ معین الدین چشتی زبان یونیورسٹی لکھنؤ
حوزہ نیوز ایجنسی | یوں تو دنیا میں بہت سے شہداء ہیں مگر جو عظمت و مرتبہ شہید قاضی نوراللّہ حسینی مرعشی رحمۃ اللہ علیہ کو حاصل ہے وہ بہت کم شہداء کو حاصل ہے۔ آپ کو دختر رسول صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنا بیٹا کہا ہے۔آپ کا آبائی وطن جبل عامل جو یورپ اور شام کے درمیان میں ایک علاقہ تھا، جسے ’’مرعش‘‘ کہا جاتا تھا، اسی مرعش کی مناسبت سے ایران میں بھی ایک علاقہ جہاں ’’مرعش‘‘ کے لوگ آباد ہوگئے تھے ’’مرعشیان‘‘ کہلایا جانے لگا۔ بنی امیہ اور بنی عباس کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے امام زین العابدین علیہ السّلام کی نسل کے سادات میں سے کچھ خانوادے اسی ’’مرعش‘‘ کے علاقے کو محفوظ مقام پا کر یہاں آباد ہوگئے تھے۔ اس لئے یہاں کے سادات مرعشی سادات کہلائے جانے لگے۔ سادات مرعشی کا ایران اور عراق میں بڑا علمی مقام رہا ہے اور یہ بہت پرانی بات نہیں ہے بلکہ لوگوں کو آیت اللہ سید شہاب الدین مرعشی نجفی رحمۃ اللہ علیہ کا نام آج بھی یاد ہے جو گذشتہ صدی کے نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ دور حاضر میں قم المقدس میں ان کا قائم کردہ کتب خانہ دنیا کے چند بڑے کتاب خانوں میں شمار ہوتا ہے۔
نویں صدی ہجری میں سادات مرعشی کی ایک شاخ خوزستان میں آکر آباد ہوگئی، اسی خوزستان کے ایک شہر ’’شوشتر‘‘ میں ایک عظیم و جلیل شخصیت سید نور اللہ حسینی مرعشی المعروف بہ شہید ثالث سن ۹۵۶ ہجری میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدِ گرامی جناب علامہ محمد شریف حسینی رحمۃ اللہ علیہ بھی نامور عالم دین تھے۔
امام سجادؑ کی نسل سے ایک پاک اور شریف گھرانے میں تشریف لانے والے اس بچے کا نام ”نوراللہ‘‘ رکھا گیا۔ جب آپ منصب قضاوت پر فائز ہوئے تو قاضی کے لقب ایسا پہچانے گئے کہ یہ لقب آپ کے نام کا جز بن گیا۔
قاضی نوراللہ شوشتری رحمۃ اللہ علیہ نے ادبیات، منطق، فقہ، اصول، حدیث، تفسیر، کلام اور ریاضی کا علم اپنے والدِ گرامی سے وطن میں حاصل کیا، شہید قاضی خود مجالس المومنین میں تحریر فرماتے ہیں کہ ناچیز نے مبادی تحصیل علم طب، مختصر کتاب معالم الشفاء مسمی بہ شافیہ جو غیاث الدین منصوری شیرازی کی تالیف ہے کا علم حکیم فاضل حاذق مولانا عماد الدین محمود طبیب شیرازی سے حاصل کیا، اعلی تعلیم اور امام رضا علیہ السّلام کی زیارت کے قصد سے ربیع الثانی ۹۷۹ ہجری کو مشہد مقدس کا سفر کیا اور اول رمضان المبارک ۹۷۹ کو مشہد مقدس پہنچ گئے۔ اور یہاں حوزہ علمیہ کے جلیل القدر علماء سے تحصیل علم میں مشغول ہوئے۔ یہ درس وتدریس کا سلسلہ بارہ برس ہی جاری رہا۔ یہ زمانہ ہندوستان میں تشیع کی زبوں حالی کا زمانہ تھا، کچھ عرصے کے لئے دہلی میں شیعوں کو آزادی حاصل ہوئی تھی لیکن فیروز شاہ تغلق نے جب دہلی فتح کیا تو شیعوں کو رافضی قرار دے کر اتنا قتل عام کیا کہ دہلی سے یا تو شیعہ ختم ہوگئے یا جنوبی علاقوں کی طرف ہجرت کر گئے۔ جنوب ہند میں نامور شیعہ عالم ملا محمد طاہر کی محنت سے ایک بڑی تعداد مذہب حقہ میں شامل ہوگئی اور کئی جگہوں پر جمعہ کے خطبات میں بارہ اماموں کا ذکر ہونے لگا، یہی وہ زمانہ ہے جب شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو شکست دی اور ہمایوں کو ایران جاکر پناہ لینا پڑی۔ ایران میں گزارے گئے تیرہ سال نے ہمایوں کی ذہنی اور قلبی کیفیت کو کافی تبدیل کیا۔ سیاسی وجوہات کی بناء پر اس نے شیعہ ہونے کا اعلان تو نہیں کیا، مگر شیعوں سے اس کی نفرت اور دشمنی ختم ہوگئی اور جب تیرہ سال بعد ایرانی لشکر کی مدد سے ہمایوں کو تخت دہلی واپس ملا تو اس کے ساتھ آئے ہوئے لشکر کے سردار اور سپاہی سارے ہندوستان میں پھیل گئے اور یوں شیعوں کو ایک بار پھر آزادی نصیب ہوئی۔ ہمایوں کے ساتھ ایک بہت ہی اہم سردار اور عالم سید شیر علی بھی تشریف لائے تھے، جنہیں ہمایوں نے ریاست خوشاب کا والی بنا دیا تھا۔ سید شیر علی کی اولاد ’’ سیدن شاہ‘‘ اور سیدن شاہ کی نسل سے سید میر حسن ہیں، جو علامہ اقبال کے استاد ہیں۔ انہیں میر حسن کا لقب ”شمس العلما‘‘ تھا۔ ہمایوں کے دور تک معاملات شیعوں کے لئے بہتر تھے، لیکن جب تیرہ سال کا اکبر تخت نشیں ہوا تو بغض و حسد کی آگ میں جلنے والے لوگوں کا داؤ اس نوعمر بادشاہ پر چل گیا۔
سب سے پہلے بیرم خان جو ہمایوں کی طرف سے اکبر کا اتالیق مقرر تھا، انہیں سازش کے ذریعے قتل کر دیا گیا اور پھر پوری حکومت نے ہندوستان میں شیعوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا، جو عزاداری ہمایوں کے دور میں شروع ہوئی تھی، اس پر تقریباً پابندی لگا دی گئی۔ ایسے میں چار شیعہ علماء جو صرف فقہ کے عالم نہیں تھے بلکہ سائنسدان بھی تھے اور ماہر تعمیرات بھی تھے، جن میں ایک بہت بڑا نام ’’ملا احمد ٹھٹھوی“ کا ہے، جو ایک بشارت کے نتیجے میں اہل سنت سے اہل تشیع میں داخل ہوگئے تھے۔ دوسرے دو نام ’’فیضی“ اور ”ابوالفضل‘“ کے ہیں، جو اکبر کے نورتن میں تھے اور تقیہ میں تھے، چوتھا نام ’’فتح اللہ شیرازی‘‘ کا ہے، یہ اپنے زمانے کے عظیم ماہر تعمیرات تھے۔ آج اکبر اور جہانگیر کے زمانے کی جتنی بھی مغل تعمیرات موجود ہیں، سب شیرازی کی یادگار ہیں۔ یہ چاروں تقیہ میں تھے اور ان کے بغیر اکبر حکومت کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا، ان چاروں کو شدت سے اس بات کا احساس تھا کہ ہندوستان میں ایک ایسے شیعہ فقیہ کی شدت سے ضرورت ہے، جو مسلمانوں کی دیگر فقہوں پر بھی کامل عبور رکھتا ہو، آخر انہیں خبر ملی کہ مشہد میں ایک ۳۵ سالہ فقیہ جو تمام فقہوں پر کامل عبور رکھتے ہیں، موجود ہیں اور یہ فقیہ ’’سید نوراللہ شوشتری رحمۃ اللہ علیہ‘‘ تھے۔
انہیں خط لکھا گیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا کہ مشہد کی جنت مثال زندگی کے مقابلے میں ہندوستان ایک جہنم سے کم نہیں، مگر آپ نے جواب میں فرمایا ”ہندوستان کی زحمتیں وہاں کی پریشانیاں، وہاں کی مصیبتیں اگر دین آل محمدؑ کی تبلیغ کے لئے ہوں تو یہاں کی نعمتوں سے ہزار درجے بہتر ہیں۔“ ہندوستان سے خط آتے ہی آپ نے خراسان کو ترک کیا اور ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔ ہندوستان میں آپ کا استقبال فیضی، ابوالفضل، ملا احمد اور فتح اللہ شیرازی نے کیا، اکبر کے دربار میں آپ کا تعارف کرایا گیا۔ اکبر آپ کے علم و فضل سے بہت متاثر ہوا، اکبر کشمیر کی طرف سے بہت پریشان تھا۔ سید نوراللہ شوشتری رحمۃ اللہ علیہ نے دو سال کے عرصے میں کشمیر کے چپے چپے کی مکمل معلومات آبادی کے ساتھ اکبر کو فراہم کر دیں۔ اکبر تو پہلے ہی متاثر تھا، اب اور زیادہ عقیدت مند ہوگیا۔ انہیں دنوں جب اکبر نے لاہور کا سفر کیا تو آپ کو بھی اپنے ہمراہ لے گیا، جس وقت بادشاہ اکبر لاہور میں داخل ہوا تو استقبال کے واسطے قاضی معین الدین بھی تشریف لائے مگر پیری اس قدر تھی کہ عصا بھی سنبھالنے سے قاصر تھے اور قاضی لاہور زمین خوردہ ہوگئے، اکبر نے فوراً قاضی معین الدین کو منصب قضاوت سے منسوخ کرتے ہوئے یہ منصب سید نور اللہ حسینی مرعشی شوشتری رحمۃ اللہ علیہ کو تفویض کر دیا، لیکن شہید ثالث نے منصب قبول کرنے کے لئے یہ شرط لگا دی ”مجھے یہ آزادی چاہیئے کہ میں چاروں فقہوں( حنفی، شافعی، حنبلی، مالکی) میں سے جس فقہ سے چاہوں فتویٰ دوں اور فیصلہ سناؤں، اکبر نے فوراً ہی یہ شرط یہ کہہ کر قبول کر لی کہ بالکل درست ہے، کیونکہ یہ چاروں فقہیں تمام مسلمانوں کے لئے قابل قبول ہیں۔
یوں آپ نے وحدت اسلامی کی بنیاد رکھی اور قاضی کے لقب سے سرفراز ہوئے، آپ لاہور کے قاضی القضات مقرر ہوئے، آپ نے یہ عہدہ سنبھالتے ہی دین مبین کی تبلیغ شروع کردی آپ کی پوری کوشش یہ تھی کہ امت مسلمہ میں اختلاف اور انتشار نہ ہونے پائے اسی واسطے آپ چاروں فقہوں کے مطابق فتویٰ اور فیصلہ سنایا کرتے تھے آپ کے عدل اور صداقت کی گواہی ملا عبد القادر بدایونی نے کچھ اس طرح سے دی ہے کہ
توای آن کس که نکردی همهٔ عمر قبول
در قضا هیچ ز کس جز که شهادت ز گواه
آپ کے عدل، صداقت اور تبلیغ دین مبین کی تیز رفتاری کو دیکھ کر کچھ ہی عرصے میں دیگر مکاتب کے علماء اور فقہاء گھبرا گئے اور پریشان ہو کر آپ پر تہمتیں اور الزامات لگانے لگے کہ قاضی نوراللہ ہر فیصلہ فقہ جعفری کے مطابق کرتے ہیں، اکبر کے دربار میں شکایتیں شروع گئیں ، اس نے شہید کو طلب کر لیا اور دیگر مکاتب کے بھی بڑے بڑے علماء کو طلب کیا۔ دربار میں آپ پر الزام لگایا گیا کہ آپ ہر فتویٰ اور فیصلہ فقہ جعفریہ کے مطابق دیتے ہیں، آپ نے بھرے دربار میں جواب دیا کہ ’’میں اپنے عہد پر قائم ہوں اور فقہ اربع کے مطابق فتویٰ اور فیصلہ دیتا ہوں۔“ اکبر نے حکم دیا کہ ان کے مقدمات اور فیصلوں کی تفصیل پیش کی جائے، علماء اور فقہاء ایک ایک کرکے شہید ثالث کے فتوے اور فیصلے پیش کرتے چلے گئے اور قاضی نوراللہ شوشتری بڑے ہی اطمینان سے ہر فتویٰ اور فیصلے کو فقہ اربع میں سے ایک نہ ایک فقہ سے نکال کر بتاتے رہے۔ تمام علماء کو اکبر کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا اور شکست کھانی پڑی۔ اکبر نے پہلے سے بھی زیادہ تکریم سے انہیں رخصت کیا۔ ایک مسئلہ بڑا ہی سخت آ پڑا جو خود بادشاہ اکبر سے متعلق تھا اور وہ تھا متعہ کا مسئلہ، اکبر نے تمام فقہ کے علماء کو طلب کیا اور فتویٰ طلب کیا گیا، سب نے بالاتفاق حرام کا فتویٰ دے دیا، مگر قاضی نوراللہ رحمۃ اللہ علیہ نے حلال کا فتویٰ دے دیا۔ تمام علماء چلا اٹھے کہ ”یہ شیعوں کا فتویٰ ہے۔“ مگر شہید ثالث نے فرمایا کہ ”یہ فقہ مالکی کا فتویٰ ہے۔“ مالکی علماء کو طلب کیا گیا، انہوں نے گواہی دی کہ امام مالک کے نزدیک عقد متعہ حلال ہے، اکبر مطمئن ہوگیا اور باقی علماء کو واپس بھیج دیا ۔ اکبر کے زمانے تک حالات اچھے رہے اور قاضی صاحب چاروں فقہوں کے مطابق فیصلہ کرتے ہوئے وحدت اسلامی کے علمبردار بنے رہے۔
لیکن جہانگیر کے زمانے میں آپ کے دشمن غالب آگئے، کیونکہ اب فیضی، ابوالفضل، ملا احمد اور شیرازی بھی دنیا سے جاچکے تھے اور جہانگیر پوری طرح مخالفین کے قبضے میں تھا، جہانگیر کے دربار میں شہید ثالث کی کوئی حمایت نہ ہونے کے سبب آپ کے مخالفین اور دشمن اپنے ہدف میں کامیاب ہو گئے اور وحدت اسلامی کے علمبردار کو عہد جہانگیر ۱۰۱۹ هجری میں قتل کر دیا گیا۔
منابع و مأخذ
۱. ارشاد ، فرهنگ ( ١٣٧٦ ) مهاجرت تاریخی ایرانیان به هند . قم دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه ، تهران : موسسه مطالعات و تحقیقات اسلامی
۲. آزاد کشمیری ، محمد علی بن محمد صادق ( ۱۳۸۲ ) نجوم السماء في تراجم العلماء ، مصحح هاشم محدث . تهران : سازمان تبلیغات اسلامی
۳. استرآبادی ، محمد قاسم هندوشاه ( ۱۳۸۷ ) ، تاریخ فرشته ( تصيحيح محمدرضا نصیری خ تهران : انجمن آثار و مفاخر فرهنگی .
٤. اطهر رضوی ، عباس ( ۱۳۷۶ ) شیعه در هند ، ( ترجمه مرکز مطالعات و تحقیقات اسلامی ) قم : دفتر تبلیغات اسلامی -
ه . افندی اصبهانی ، میرزا عبدالله ( ۱۳۷۶ ) رياض العلماء و حياض الاصلاء خترجمة محمد باقر ساعدی ، مشهد : آستان قدس رضوی ، چاپ اول - ۳۰۷
۶. افندى الاصبهانی ، عبدالله ( رياض العلماء و حياض الفضلاء ) ترجمه محمد باقر ساعدی ، مشهد ، آستان مقدس رضوی ، چاپ اول .
۷ . امام شوشتری ، محمد علی ، ( ۱۳۳۱ ) تاریخ جغرافیایی خوزستان ، ناشر : موسسه مطبوعاتی امیر کبیر ۔
۸. امینی ، علامه عبدالحسین ( ۱۳۶۳ ) شهیدان راه فضیلت ( مترجم : جلال الدین فارسی ) تهران : انتشارات روزیه
۹. بدانونی ، عبدالقادرين ملوک شاه ( ۱۳۷۹ ) منتخب التواريخ ( تصحيح مولوی احمد علی صاحب ) تهران : انجمن آثار و مفاخر فرهنگی
۱۰. براون ، ادوارد (۱۳۶۹) تاریخ ادبیات ایران از صفویه تا عصر حاضر ترجمه بهرام مقدادی ، تهران : مروارید .
.۱۱ بروکلمان ، کارل (۱۳۶۴) تاریخ ملل و دول اسلامی ترجمه : هادی جزایری تهران : بنگاه ترجمه و نشر کتاب .
۱۲. پیر نیا ( مشیر الدوله ) ، حسن ( ١٣٨٤ ) تاريخ مفصل ایران از آغاز تا انقراض قاجاریه مترجم : عباس اقبال ، آشتیانی تهران : نشر علم .
۱۳.پیری ، خواجه ( بی تا ) یادداشتها آقای دکتر خواجه پیری.
۱۴. التسترى ، القاضي نورالله ( ۱۳۶۷ ) الصوارم المحرقه في نقد الصواعق المحرقه ويتقدمه رساله ( فيض الاله في ترجمه القاضی نورالله ) با تصحیح جلال الدین الحسینی ، تهران .
۱۵.جعفریان ، رسول ( ۱۳۸۸ ) اسئلة يوسفيه ( مكاتبات مير يوسف على استرآبادی و شهید قاضی نورالله شوشتری ) تهران : کتابخانه ، اسناد مجلس شورای اسلامی.
۱۶. فرشته ،محمد قاسم فرشته ، تاریخ فرشته.ج.۳
ترجمه عبدالحئ خواجه(مشفق خواجه)
۱۷.دکتر، ضمیر اختر نقوی، شهید علمائے حق،ناشر: مرکز علوم اسلامیہ کراچی،پاکستان.