تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | آٹھویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم، فقیہ، متکلم، شاعر، ادیب، مجاہد، شہید سعید جناب ابو عبداللہ محمد شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ سن 734 ہجری میں جبل عامل لبنان کے ایک دیندار اور علمی خانوادہ میں پیدا ہوئے، آپ کو شیخ الطائفه، علامه زمان، ابن مکی، امام الفقیه، شیخ شهید، شهید اول کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کی زوجہ جناب ام علی رحمۃ اللہ علیہا بھی عالمہ اور فقیہا تھیں، آپ کے تینوں بیٹے جناب رضی الدین ابوطالب محمد، جناب ضیاءالدین ابوالقاسم علی اور جناب جمال الدین ابومنصور حسن رضوان اللہ علیہم عالم اسلام کے عظیم اور نامور عالم و فقیہ تھے۔ آپ کی بیٹی جناب فاطمہ رضوان اللہ علیہا بھی فقیہ و عالمہ تھیں اور انھیں ’’ست المشائخ‘‘ یعنی فقہاء کی استاد کہا جاتا تھا۔
امام الفقیہ شہید اول رحمۃ اللہ علیہ جناب فخرالمحققین رحمۃ اللہ علیہ جیسے عظیم عالم و فقیہ کے شاگرد تھے اور جناب فاضل مقداد رضوان اللہ تعالیٰ علیہ جیسے عظیم علماء و فقہاء نے آپ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے۔ نیز مختلف موضوعات پر کتابیں تالیف فرمائی۔ آپ کی کتابوں کی طویل فہرست ہے جسمیں الدروس الشرعیه اور اللمعه الدمشقیه کی شہرت زباں زد خاص و عام ہے۔
شہید اول نہ فقط شیعہ فقہ کے عالم تھے بلکہ اہلسنت کی بھی چاروں فقہوں کے عالم تھے۔ ظاہر ہے آپؒ باب مدینۃ العلم امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے سچے شیعہ اور پیروکار تھے لہذا جب بھی کوئی فقہی سوال کیا جاتا تو آپ پوچھنے والے کو اسی کی فقہ کے مطابق جواب دیتے تھے۔
حکومت و سیاست کے سلسلہ میں شہید اول رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کا ماننا تھا کہ چونکہ لوگوں کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں، اس لئے ایک قانون ہونا چاہئیے اور وہ شریعت ہے اور حاکم معصوم امام یا ان کا نائب ہو۔ (القواعد و الفوائد، جلد 1، صفحہ 36 )
شہید اول رحمۃ اللہ علیہ حاکم کی تقرری اور اس کی شرعی حیثیت کو (انتخاب) الٰہی سمجھتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ ولی اور رہبر کے تقرر کا معاملہ دوسرے معاملات سے بہت مختلف ہے اور چونکہ اس سلسلہ میں الہی حکم معاشرے کے ایک مخصوص فرد (معصوم) کی طرف اشارہ کرتا ہے اس لئے آپ انکی اطاعت کو واجب سمجھتے تھے اور ان ہی کو معاشرے کا جائز رہنما سمجھتے تھے۔ لہٰذا جو کوئی اس معیار (نص الہی) کے علاوہ معاشرے پر حکومت کرے وہ غیر شرعی ہے۔ (القواعد و الفوائد، جلد 2، صفحہ 183 )
آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت، امام معصوم کی حکومت اور نائب امام کی ہی حکومت کو شرعی سمجھتے تھے۔ آپ نے نائب امام کے جو شرائط بیان کئے ان میں ایک ایمان یعنی شیعہ ہونا، دوسرے احکام الہی کے سلسلہ میں علم و اجتہاد (اللمعة الدمشقیه، صفحه 75) تیسرے عدالت کہ (مومن عالم و فقیہ میں) تقویٰ، مروت اور نیکی پائی جائے اور وہ انحرافات سے دور ہو۔ (الدروس الشرعیه، جلد 2، صفحہ 125) لہذا رہبر وہی ہو گا جسمیں عدالت، کمال اور فتویٰ دینے کی صلاحیت ہو۔ (اللمعۃ الدمشقیہ، صفحہ 79)
شہید اول رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کے ماننا ہے کہ عصر غیبت میں خاص نائب کے علاوہ عام نائبین بھی رہبر و حاکم ہو سکتے ہیں۔ آپ کے نزدیک عصر غیبت میں فقیہ جامع الشرائط کی پیروی امام معصوم کی جانب سے منصوب نائب کی پیروی کی طرح ہے۔ (الدروس الشرعیه، جلد 2، صفحہ 67) شہید اول رحمۃ اللہ علیہ نے واضح فرما دیا کہ فقیہ جامع الشرائط نائب امام کے حکم میں ہے اور ان کی پیروی اسی طرح واجب ہے جس طرح نائب امام کی پیروی واجب ہے اور ان سے انحراف گویا امام معصوم کے منتخب نائب سے انحراف ہے۔
9 جمادی الاول سن 786 ہجری کو ایک سال کی قید با مشقت کے بعد دردناک طریقے سے دمشق میں شہید اول رحمۃ اللہ علیہ کو شہید کیا گیا کہ پہلے سر و تن میں جدائی کی گئی، پھر لاش کو سولی پر چڑھایا گیا اور لوگوں کو جمع کر کے عصر تک سنگبارانی کی گئی اور آخر میں لاش کو اتار کر نذر آتش کر دیا گیا۔ دشمن یہ سمجھ رہا تھا کہ اس طرح وہ آپ کو ختم کر دے گا لیکن جب تک حوزات علمیہ و مدارس علمیہ قائم ہیں ، آپ کی کتابیں خصوصاً ’’لمعہ‘‘ پڑھی جاتی رہے گی آپ کا نام اور ذکر زندہ و جاوید رہے گا۔ہاں ! آپ کے دشمن تاریخ کے قبرستان میں ضرور گمنام ہو گئے۔
شہید اول رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب لمعہ جو آج حوزات علمیہ کے نصاب کی زینت ہے اسے آپ نے اذیت ناک قید خانہ میں فقط سات دن میں لکھا اور بعض روایات کے مطابق شہید اول ؒنے یہ کتاب اپنے خون سے لکھی ہے۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ’’علماء کے قلم کے روشنائی شہدا کے خون سے افضل ہے‘‘ پر غور کیا جائے تو ہمارے لئےشہید کی عظمت واضح ہو گی۔ اور خون سے تحریر کے ذریعہ شہید اولؒ نے بتا دیا کہ میرے قلم کی روشنائی اور خون میں فرق نہیں۔ شہدا کے خون پر علماء کے قلم کی روشنائی کو فضیلت حاصل ہے لیکن میرا خون ہی میرے قلم کی روشنائی ہے۔