تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی। راوی کا بیان ہے کہ میں بغداد میں بزرگان و اشراف کی ایک محفل میں پہنچا۔ وہاں حضرت ولی عصر امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے چوتھے نائب خاص جناب ابوالحسن علی بن محمد سمری رضوان اللہ تعالیٰ علیہ بھی موجود تھے۔
آپ نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا: ’’خدا علی بن بابویہ قمی ؒ(جناب شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد) پر رحمت نازل کرے۔‘‘ حاضرین نے وہ دن، تاریخ اور وقت لکھ لیا۔ جب چند دنوں بعد خبر پہنچی کہ جناب علی بن بابویہ قمی رحمۃ اللہ علیہ کی فلاں دن فلاں وقت رحلت ہو گئی تو ان لوگوں نے اپنی تحریر سے ملایا تو پتہ چلا کہ انکی رحلت اسی وقت ہوئی تھی جس وقت جناب علی بن سمری رضوان اللہ علیہ نے ان کے لئے دعائے رحمت کی تھی۔ (کمال الدین تمام النعمۃ ۔ جلد ۲، صفحہ ۵۰۳)
ہمارے ولی و وارث حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے چوتھے نائب خاص جناب علی بن محمد سمری رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کا تعلق ایک دیندار شیعہ گھرانے سے تھا اور ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کی اطاعت اور خدمت اس خاندان کی پہچان تھی۔ اس عظیم خاندان کے کچھ لوگوں کی بصرہ میں کافی جاگیر تھی جسکی آدھی منفعت ان لوگوں نے امام حسن عسکری علیہ السلام کے لئے وقف کر دی تھی اور اسے وہ لوگ امامؑ تک پہنچاتے بھی تھے۔ اسی خاندان سے تعلق رکھنے والے جناب علی بن محمد بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہما السلام کے وکیل تھے۔
روایات کے مطابق جناب علی بن محمد سمری رضوان اللہ علیہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے بھی وکیل رہ چکے تھے اور امام حسن عسکری علیہ السلام سے خط و کتابت کے ذریعہ رابطے میں بھی تھے۔
امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے تیسرے نائب خاص جناب حسین بن روح نوبختی رضوان اللہ علیہ کا آخری وقت آیا تو انہوں نے حکم امامؑ سے جناب علی محمد سمری رضوان اللہ علیہ کی نیابت کا اعلان کیا۔ تمام شیعوں نے گذشتہ تین نواب ؒکی طرح آپ کو بھی اپنے مولا و آقا حضرت ولی عصر علیہ السلام کا نائب خاص مانا اور آپ کی اطاعت کو خدا، رسول ؐ اور امامؑ کی اطاعت سمجھا۔
جناب علی بن محمد سمری رضوان اللہ علیہ کے زمانے میں ظالم عباسی حکمرانوں کا ظلم و ستم اور خونریزی کافی بڑھ چکی تھی اس لئے گذشتہ تین نواب خاص کے بنسبت آپ نے زیادہ احتیاط اور مخفی انداز میں خدمات انجام دیں۔
آپ کی وفات سے ۶ دن قبل یعنی ۹ ؍ شعبان المعظم ۲۲۹ ھ کو آقا امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی توقیع و فرمان پہنچا جو مندرجہ ذیل ہے۔
خدا وند عالم آپ کی وفات پر آپ کے بھائیوں کو اجر عطا کرے۔ آپ چھ دن بعد وفات پا جائیں گے۔ لہذا اپنے کام کو تمام کریں اور کسی کو اپنا جانشین معین نہ کریں کیوں کہ اب غیبت کبریٰ کا آغاز ہو رہا ہے۔ طولانی مدت تک جب تک خدا اجازت نہیں دے گا میرا ظہور نہیں ہو گا یہاں تک کہ لوگوں کا دل سخت اور دنیا ظلم سے بھر جائے گی۔ کچھ لوگ ہمارے چاہنے والوں (شیعوں) کے پاس آئیں گے اور دعویٰ کریں گے کہ انہوں نے مجھے دیکھا ہے۔ لیکن یاد رہے جو بھی سفیانی کے خروج اور ندائے آسمانی سے قبل میرے دیدار کا دعویٰ کرے وہ تہمت لگانے والا اور جھوٹا ہے۔ (کمال الدین و تمام النعمۃ۔ جلد۲، صفجہ ۵۱۶)
حضرت امام عصر علیہ السلام کے فرمان کے مطابق ۱۵ ؍ شعبان المعظم ۲۲۹ ھ کو حضرت علی بن محمد سمری رضوان اللہ تعالیٰ کی وفات ہو گئی اور غیبت کبریٰ کا آغاز ہو گیا ۔
امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کی توقیع مبارک میں مندرجہ ذیل نکات قابل غور ہیں۔
۱۔ ’’اپنے کام کو تمام کرو۔‘‘ انسان کو اپنی زندگی میں ہی اپنی ذمہ داریوں کی ادائگی کی فکر رہنی چاہئیے اور کوشش کرے کہ اسے انجام دے دے۔
۲۔ صرف امامت ہی نہیں بلکہ نیابت خاصہ میں بھی انتخاب جانشین کا اختیار نائب کو نہیں بلکہ امام ؑ کو ہے۔
۳۔ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کا ظہور بغیر اذن خدا کے ممکن نہیں ہے۔
۴۔ خروج سفیانی اور ندائے آسمانی سے قبل امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے دیدار اور ملاقات کا دعویٰ کرنے والا جھوٹا ہے۔
۵۔ علامات ظہور الگ ہے اور علت ظہور الگ ہے۔
۶۔جب ظہور سے قبل لوگوں کا قصی القلب ہو جانا، دنیا کا ظلم و جور سے بھر جانا ، سفیانی کا خروج اور ندائے آسمانی کا آنا یقینی ہے تو ایسے ماحول میں ایمان، اخلاص اور عمل کے ذریعہ ظہور کی تیاری کرنا ہر چاہنے والی کی اہم ذم داری ہے۔