تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی। منجی عالم بشریت، قطب عالم امکان، لنگر زمین و زمان، شریک و عدل قرآن، حضرت صاحب الزمان امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے تیسرے نائب خاص حضرت حسین بن روح نوبختی رضوان اللہ تعالی علیہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے صحابی اور دوسرے نائب خاص حضرت محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالی علیہ کے دس خاص وکیلوں میں سے تھے۔
شیخ الطائفہ جناب شیخ طوسی اپنی کتاب الغیبہ میں رقم طراز ہیں کہ جناب حسین بن روح نوبختیؒ اپنے زمانے کے سب سے عقل مند انسان تھے۔ غیر شیعوںسے تقیہ سے ملتے تھے۔ (الغیبہ، ص۱۱۲) حتی حاکم شام کو برا کہنے کے سبب ایک خادم کو ملازمت سے سبکدوش فرما دیا۔ (الغیبہ، ص۳۸۶) جناب محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالی علیہ کی بیٹی جناب ام کلثوم رضوان اللہ علیہا سے منقول ہے کہ جناب حسین بن روح نوبختی ان کے والد کے خاص دوست اور رازدار تھے۔ (الغیبہ، ص۳۷۲)
اگرچہ جناب حسین بن روح رضوان اللہ تعالی علیہ کا شمار جناب محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالی علیہ کے دس خاص وکیلوں میں ہوتا تھا لیکن ظاہرا آپ سے زیادہ دوسرے وکلاء ان سے نزدیک تھے لہذا کسی کو یہ گمان بھی نہیں تھا کہ آپ تیسرے نائب خاص بن سکتے ہیں لیکن جب جناب محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالی علیہ کا آخری وقت آیا تو آپ نے حکم امام سے جناب حسین بن روح رضوان اللہ تعالی علیہ کی نیابت خاص کا اعلان کیا تو وہاں موجود جناب ابو سہیل نوبختی رضوان اللہ تعالی علیہ جنکے بارے میں لوگوں کا یہی خیال تھا کہ یہ تیسرے نائب مقرر ہوں گے وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر جناب حسین بن روح رضوان اللہ تعالی علیہ کی خدمت میں آئے اور ایک اطاعت گذار کی طرح خود کو پیش کیا اور جب لوگوں نے ان سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو اعلی ظرفی کے ساتھ جواب دیا کہ شاید میرے لئے ان رازوں کی حفاظت ممکن نہ ہوتی لیکن اگر جناب حسین بن روح کے پاس امام علیہ السلام موجود ہوں اور انکو قینچی سے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیا جائے تب بھی وہ راز فاش نہیں کریں گے۔ (الغیبہ، ص۳۹۱)
جب جناب محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالی علیہ کی وفات ہوئی تو اس وقت جناب حسین بن روح رضوان اللہ تعالی علیہ آپ کے بیت الشرف میں تشریف فرما تھے ، خادم نے حسب وصیت امانتوں سے بھرا صندوق ان کے حوالے کیا۔ (بحارالانوار، ج۸۵، ص۲۱۱) بعض روایات کے مطابق جناب حسین بن روح رضوان اللہ تعالی علیہ کی شخصیت گذشتہ دو نائبین سے زیادہ شیعوں میں آشکار تھی لہذا لوگ اپنے علاقہ کے منتخب وکلاء کے بجائے خود آپ سے رابطہ کرتے تھے۔ (تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ۱۹۸)
حضرت حسین بن روح رضوان اللہ تعالی علیہ نے بغداد میں دس وکلاء اور دوسرے شہروں میں مختلف وکلاء کے ذریعہ اپنی نیابت کا آغاز کیا۔ اہواز میں جناب محمد بن نفیس، جعفر بن احمد بن متیل ، ابو عبدالله کاتب، احمد بن متیل ، احمد بن ابراہیم نوبختی، ابوسہل نوبختی، بلخ میں محمد بن حسن صیرفی، شہر رے میں محمد بن جعفر اسدی رازی ، نصیبین میں حسن بن علی وجناء نصیبی، محمد بن هہمام اسکافی، آذربایجان میں قاسم بن علاء آپ کے وکیل تھے۔ اسی طرح محمد بن علی شلمغانی بھی پہلے آپ کے وکیل تھے لیکن بعد میں وہ گمراہ ہو گئے، یہاں تک کہ نبوت کا دعویٰ کیا اور مرتد ہو گئے تو جناب حسین بن روح رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے شیعوں کو حکم دیا کہ ان سے دور رہیں اور خود امام زمانہؑ نے شلمغانی پر لعنت فرمائی۔ جس سے ظاہر ہوتا کہ مذہب میں انسان کی قدر وقیمت ، عظمت و فضیلت کا معیار وہی قرآنی معیار تقویٰ الہی ہے۔ جب تک انسان کے پاس تقویٰ ہے وہ با فضیلت ہے لیکن اگر وہ دین سے دور ہوا ، تقویٰ الہی کو خیرباد کیا اور دنیا کی خواہشات کا اسیر ہوا تو اس کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی اور انسان ماضی میں جتنا بھی نیک کیوں نہ ہو اور خاص کیوں نہ ہو لیکن اگر گمراہ ہوا تو پرانے تعلقات دین میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔
حضرت حسین بن روح رضوان اللہ تعالی علیہ ایک عظیم عالم ، فقیہ، محدث تھے، فقہ میں’’التادیب‘‘ نامی کتاب تالیف فرمائی جسے بغداد سے قم بھیجا تا کہ قم میں موجود علماء و فقہاء اپنی رائے پیش کریں ۔ (اعیان الشیعہ، ج۶، ص۲۲) اسکے علاوہ آپ کے علمی مناظرے اپنی مثال آپ ہیں، نیز زیارت رجبیہ آپ سے ہی مروی ہے۔ (مصباح المتہجدین، ص۸۲۱)
جناب محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالی علیہ کےدور نیابت نیز اپنی نیابت کے ابتدائی دور میں جناب حسین بن روح رضوان اللہ تعالی علیہ کا حکومت میں اچھا اثر و رسوخ تھا، لیکن بعد میں بعض وجوہات کے باعث یہ اثر و رسوخ ختم ہو گیا،جسکے نتیجہ میں آپ روپوش ہو گئےنیز پانچ برس قید خانہ میں قید بھی رہے۔
جناب حسین بن روح نوبختی رحمۃ اللہ علیہ کی نیابت کے کچھ ہی عرصہ بعد ۶ ؍ شوال ۳۰۵ ھ کو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی توقیع (خط) موصول ہوئی جسمیں تحریر تھا۔ ’’ہم انہیں(حسین بن روح کو) جانتے ہیں، میری دعا ہے کہ خدا انہیں تمام اچھائیوں سے آگاہ فرمائے اور انہیں اپنے لطف و کرم سے خوش و خرم رکھے۔ ان کی درخواست سے آگاہ ہوں اور ان کو دی گئی ذمہ داری کی ادائگی کی امید ہے۔ وہ ہمارے پاس ایسے مقام و منزلت کے حامل ہیں جو ان کی خوشنودی کا باعث بنے گا۔ خدا ان پر اپنے فضل و کرم کی فراوانی مرحمت فرمائے۔‘‘ (بحارالانوار جلد ۵۱، صفحہ ۳۵۶)
حضرت امام زمانہؑ کی مذکورہ تحریر سے جناب حسین بن روح نوبختیؒ کی عظمت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ امامؑ کے نزدیک نیک، با فضیلت تھے اور معصوم ؑ کی دعا آپ کے شامل حال تھی۔
اسی طرح منقول ہے کہ بغداد میں ایک خاتون گٹھری لے کر جناب حسین بن روح نوبختی کی خدمت میں آئی اور سوال کیا کہ اس میں کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ جاو اسے دریائے دجلہ میں پھینک دو پھر میں بتاتا ہوں ۔ جب وہ دجلہ میں گٹھری پھینک کر آئی تو آپ نے اپنے خادم کو حکم دیا کہ جاو اندر سے گٹھری لا کر اسے دے دو ، جب خادم گٹھری لایا تو اس خاتون نے دیکھا کہ یہ اسی کی گٹھری ہے اور اس میں سارا سامان بھی موجود ہے۔
جناب حسین بن روح احباب کے ہمراہ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے کہ اچانک آپ کی زبان پر کلمہ استرجاء جاری ہوا تو لوگوں نے اس کا سبب پوچھا توآپ نے فرمایا ’’احمد بن اسحاق قمیؒ‘‘ نے رحلت فرمائی۔ لوگوں نے تاریخ اور وقت لکھ لیا جب بعد میں پتہ کیا تو عین اسی وقت جناب احمد بن اسحاق قمیؒ نے رحلت فرمائی تھی۔ (کمال الدین، ج2، ص518و519)
جناب شیخ صدوقؒ کے والد جناب علی بن بابویہ قمی ؒ نے جناب حسین بن روح نوبختیؒ کے ذریعہ ہی امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی خدمت میں عریضہ لکھ کر بیٹے کی خواہش کی اور جناب شیخ صدوقؒ کی ولادت ہوئی۔ اسی طرح ایک بار جناب علی بن بابویہ قمیؒ نے آپ سے سفر حج کے لئے اجازت مانگی تو جناب حسین بن روح نے پہلے منع کیا لیکن جب انھوں نے عرض کیا کہ میں نے نذر کی ہے کہ حج کروں تو آپ نے فرمایا سب سے آخری قافلہ سے جانا۔ جناب علی بن بابویہ ؒ نائب امام کی اطاعت میں آخری قافلہ سے مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ جو قافلے پہلے گئے تھے قرامطہ نے ان پر حملہ کر دیا تھا۔ (بحارالانوار، ج51، ص293)
جناب حسین بن روح نوبختی رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۸ ؍ شعبان المعظم ۳۲۶ ھ کو بغداد میں رحلت فرمائی ۔ بغداد میں آپ کا روضہ مبارک محبان اہلبیتؑ کی زیارت گاہ ہے۔