۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
News ID: 367178
31 مارچ 2021 - 23:42
حجاب

حوزہ/ پردہ ایک مسلم عورت کا مخصوص لباس ہے۔ یہ عالمگیر مسلم خواتین کا مشترکہ یونیفارم ہے حقیقت یہ ہے کہ تمام مذہبوں اورتمام تہذیبوں میں اسلام ہی کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے اپنی بیٹیوں کے لئے ایسا یونیفارم پیش کیا جس کی نظیر آج تک نہ مل سکی اور نہ آیندہ مل سکے گی۔

تحریر: عباس افضل حجام، بسیجی کشمیر 

حوزہ نیوز ایجنسیپردہ عورت کے لئے آئینی قلعہ ہے۔ یہ اشارہ ہے بد معاشوں کو دور رکھنے کا یہ اشارہ ہے کہ اس چادر کے اندر صرف صورت ہی نہیں بلکہ سیرت بھی ہے۔ بے پردہ عورت ارادی یا غیر ارادی طور پر اپنانسوانی مال و متاع دکھا کر چوروں اور ڈاکووں کی توجہ کھینچتی ہے۔ وہ دکھاتی ہے کہ وہ کالی ہے یا گوری، جوان ہے یا بوڑھی، حسین ہے یا بد شکل، اسی طرح وہ کسی کے بھی جال میں پھنس سکتی ہے۔اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پردہ ایک مسلم عورت کا مخصوص لباس ہے۔ یہ عالمگیر مسلم خواتین کا مشترکہ یونیفارم ہے حقیقت یہ ہے کہ تمام مذہبوں اورتمام تہذیبوں میں اسلام ہی کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے اپنی بیٹیوں کے لئے ایسا یونیفارم پیش کیا جس کی نظیر آج تک نہ مل سکی اور نہ آیندہ مل سکے گی۔

یقیناً عورتوں کے لئے اسلامی حجاب، دین اسلام کے بنیادی اور واضح مسائل میں سے ہے اور قرآن کریم کی تین آیات عورتوں کے حجاب کے بارے میں ہیں۔ قرآن کریم نے جیسے دیگر مسائل کو بیان کیا ہے، اس اہم مسئلہ کو بھی بیان فرمایا ہے۔ مسلمان ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اسلام کے سب احکام اور تعلیمات کے سامنے تسلیم ہو، ایسا نہ ہو کہ بعض احکام پر عمل کرے اور بعض کو نظرانداز کردے۔ وہ ایسا نہیں ہوتا کہ قرآن کی جو بات اس کی خواہش کے مطابق ہو اس کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی آیات سے دلیل پیش کرے اور جو اس کی مرضی کے خلاف ہو اس کو نظرانداز کردے اور اس پر عمل نہ کرے، لہذا قرآن کریم کے سب احکام اور تمام تعلیمات کے سامنے تسلیم رہنا چاہیے۔ ان تعلیمات میں سے ایک اہم مسئلہ، حجاب کا مسئلہ ہے۔

قرآن کی روشنی میں حجاب کی قسمیں

1۔ دیداری حجاب:
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّواْ مِنْ أَبْصَارِهِم۔(نور/۳۰)  اور پیغمبرؐ آپ مومنین سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں۔  وَ قُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَرِهِن۔(نور/۳۱)  اورمومنات سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں۔ غضّ البصرِ، "غَضّ و غَمض" لفظِ "یَغُضّوا" "غضّ" سے لیا گیا ہے۔ "غّض و غمض" لغت میں دونوں آنکھ کے سلسلہ میں استعمال ہوتے ہیں اور بعض افرادان دونوں میں غلطی کا شکار ہوجاتے ہیں ہمیں ان دونوں الفاظ کے معنی معین کرنا چاہئے " غمض" کے معنی پلک جھپکنے کے ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ " آنکھیں بند کرو"جو اس جانب اشارہ ہے کہ صرف نظر کرو۔ جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ یہ لفظ ، لفظِ "عین" کے ساتھ استعمال ہوتا ہے نہ لفظِ "بصر" کے ساتھ۔ لیکن لفظِ "غض" کے بارے میں کہا جاتاہے"غضّ بصر"، غضّ نظر یا غضّ طرف۔ "غضّ" کے معنی کم کرنے کے ہیں اور "غضّ بصر" یعنی نظریں جھکانا۔اس طرح سے "غضّ البصر"عربی زبان کی اصطلاح ہے  اور لغت میں اس کے معنی نگاہیں جھکانے کے ہیں۔
ایک مشہور حدیث میں پیغمبرؐ سے منقول ہوا ہے:  النَّظرُ سَھم مَسمُوم مِن سِھام ابِلیس"  (بحار الانوار، ج۱۰۴، ص۳۸) (نامحرم پر)نگاہ شیطانی تیروں میں سے ایک زہر آلود تیر ہے۔اسی طرح آپؐ نے اس سلسلہ میں فرمایا ہے: کُلّ عَین باکیۃ یَوم القیامۃ  الّا ثَلاثۃُ اَعیُن: عَین بَکت مِن خَشیۃ اللہِ وَ عَین غَضت عَن محارمِ اللہِ وَعَین بَاتت سَاھرۃ فِی سبیل اللہِ۔(بحار الانوار، ج۱۰۱، ص۳۵)  صرف تین آنکھوں کو چھوڑ کر ہر آنکھ قیامت کے دن رو رہی ہوگی: ایک وہ آنکھ جو خدا کے ڈر سے روئے، دوسری وہ آنکھ جو نامحرم پر نظر پڑتے جھک جائے اور تیسری وہ آنکھ جو راہ خدا ( اور اسلامی اقدار کی پاسداری )میں راتوں جاگتی رہے۔   بابا طاہر ہمدانی نے بھی آنکھ اور اس کے اثرات کے بارے میں دو شعرکہے ہیں:

ز دست دیدہ و دل ھر دو فریاد      کہ ھرچہ دیدہ بیند دل کند یاد

بسازم خنجری نیشش ز فولاد        زنم بر دیدہ تا دل گردد آزاد

2۔  گفتاری حجاب:
 حجاب اور قرآنی پردے کی دوسری قسم نامحرم کے سامنے عورتوں کا گفتاری حجاب ہے۔ " فَلَا تخَضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِى فىِ قَلْبِهِ مَرَضٌ وَ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا۔( احزاب /۳۲)  لہٰذا کسی آدمی سے لگی لپٹی بات نہ کرنا کہ جس کے دل میں بیماری ہو اسے لالچ پیدا ہوجائے اور ہمیشہ نیک باتیں کیا کرو۔اس مقام پر خضوع کے معنی یہ ہیں کہ عورتیں مردوں کے سامنے بات کرتے وقت لگی لپٹی باتیں نہ کریں تا کہ اس طریقہ سے جن کے دلوں میں بیماری ہو وہ فساد و شیطانی خیالات کا شکار نہ بن جائیں  اور ان نفسانی خواہشات بھڑ ک اٹھیں، دل کی بیماری سے مراد ایمانی طاقت کا نہ پایا جانا ہےوہ طاقت جو انسان کو نفسانی خواہشات کی جانب مائل ہونے سے روکتی ہے  اور " قَوْلًا مَّعْرُوفًا" یعنی معمولی اور سیدھی باتیں کہیں جن میں ناز و نخرہ نہ پایا جاتا ہو اور شریعت و اسلامی عرف بھی اسے پسندیدہ قرار دے،  یہ آیت گفتگو کی کیفیت اور اس کے مضمون اور ناز و نخرہ سے گفتگو کرنے کی حرمت کی جانب اشارہ کررہی ہے  نیز نامحرم کے ساتھ گفتگو کرنے میں پاکدامنی کو مد نظر رکھا جائے اور اس میں لگی لپٹی باتوں سے پرہیز کیا جائے اسی طرح یہ آیت ہر قسم کی بے ہودہ و غیر ضروری اور نفسانی خواہشات پر مشتمل گفتگو سے دوری اختیار پر تاکید کرتی ہے  اور اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ اس امر کی رعائت نہ کرنے کی صورت میں ممکن ہے عورتوں کی خود نمائی و ہوس آلود باتوں کے نتیجہ میں وہ افراد جو دلی و نفسیاتی سلامتی نیز نفسیاتی اعتدال( کہ جو ایمانی کمزوری اور اس کے فقدان کے نتیجہ میں ہے) کے حامل نہیں ہیں گناہ و برائیوں کی فکر میں لگ جائیں اور معاشرہ کا امن و سکون خطرہ میں پڑ جائے۔

۳۔ رفتاری حجاب:
حجاب  اور قرآنی پردے کی ایک قسم نا محرموں کے سامنے عورتوں کا رفتاری حجاب ہے۔ عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس طرح ہرگز راستہ نہ چلیں کہ اپنی زینت کو نمایاں کرتے ہوئے نامحرموں کی توجہ کا سبب بن جائیں۔" وَ لَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يخُفِينَ مِن زِينَتِهِن۔(نور/۳۱)  اور خبردار اپنے پاؤں پٹک کر نہ چلیں کہ جس زینت کو چھپائے ہوئے ہیں اس کا اظہار ہوجائے۔ بعض افراد نے اس آیت کا مصداق اونچی ایڑی والے جوتے و چپل کو قرار دیا ہے) اس بنا پر عورت کا حجاب و پردہ نامحرموں کے سامنے ایک مانع و رکاوٹ کی طرح ہے جو دوسروں کی عزت میں ہاتھ ڈالناچاہتے ہیں ۔

قرآن میں حضرت موسی اور حضرت شعیب علیھما السلام کی بیٹیوں  کی داستان میں یوں ذکر ہوا ہے:  وَ لَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُونَ وَ وَجَدَ مِن دُونِهِمُ امْرَأَتَينْ‏ِ تَذُودَانِ  قَالَ مَا خَطْبُكُمَا  قَالَتَا لَا نَسْقِى حَتىَ‏ يُصْدِرَ الرِّعَاءُ  وَ أَبُونَا شَيْخٌ كَبِير"۔ (قصص/۲۳)  اور جب مدین کے چشمہ پروارد ہوئے تو لوگوں کی ایک جماعت کو دیکھا جو جانوروں کو پانی پلارہی تھی اور ان سے الگ دو عورتیں تھیں جو جانوروں کو روکے کھڑی تھیں .موسٰی نے پوچھا کہ تم لوگوں کا کیا مسئلہ ہے ان دونوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک پانی نہیں پلاتے ہیں جب تک ساری قوم ہٹ نہ جائے اور ہمارے بابا ایک ضعیف العمر آدمی ہیں۔

جناب شعیبؑ کی بیٹیوں کا الگ کھڑے ہونے کو شرم،حیا،عفت اور پاکدامنی کے علاوہ کچھ اور تصور نہیں کیا جا سکتا اور انہوں نے اپنے بابا کی ضعیف العمری کا تذکرہ کیا تو وہ اس بات کا جواب ہے کہ وہ  دونوں بیٹیاں بھیڑ ،بکریوں کو پانی پلانے کیوں آئی ہیں؟ جب کہ اس زمانے کی ثقافت و سنت کے مطابق بھیڑ ، بکریوں کو پانی پلانا مردوں کا کام تھا، جب جناب موسی علیہ السلا م کو (سورۂ قصص ۲۴ویں آیت کے مطابق ) داستان معلوم ہوئی تو انہوں نے مدین کے چشمہ سے ان کے لئے پانی بھرا اور اس کے بعد وہ ایک درخت کے زیرِ سایہ چلے گئے اور بارگاہ ِخداوندی میں دعا کے لئے ہاتھوں کو بلند کیا " رَبّ‏ِ إِنىّ‏ِ لِمَا أَنزَلْتَ إِلىَ‏َّ مِنْ خَيرٍْ فَقِير" پروردگار یقینا میں اس خیر کا محتاج ہوں جو تو میری طرف بھیج دے۔ ابھی وہ دعا میں مصروف تھے کہ " فجَاءَتْهُ إِحْدَئهُمَا تَمْشىِ عَلىَ اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبىِ يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا" ( قصص/۲۵) اتنے میں دونوں میں سے ایک لڑکی نہایت شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی آئی اور اس نے کہا کہ میرے بابا آپ کو بلارہے ہیں کہ آپ کے پانی پلانے کی اجرت دے دیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .