۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
حجاب

حوزہ/ جس طرح گلاب یا اس جیسے پھولوں میں خوشبو اورشہد میں مٹھاس ضروری ہے اسی طرح پردہ کے ساتھ حیاء کا ہونا شرط اولی ہے اور یہی تقرب ِالہی کا ذریعہ بھی ہےاور خدا کے حکم کی اطاعت بھی ہے اس لئے کہ خداوندعالم ہم سےشرم وحیاءاورغیرت وحمیت کاتقاضاکرتاہے ۔

حوزہ نیوز ایجنسی

تحریر: مولانا سید تقی عباس رضوی

پردہ ہے عورتوں کے لئے رحمتِ خدا

بے پردگی پہ لعنت پروردگار ہے

ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں پردہ پر پابندی اور باپردہ خواتین کو لیکر صوبہ کرناٹک میں شدت پسندوں کی ہنگامہ آرائی انتہائی تشویش ناک ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے.

کرناٹک کی رہنے والی مسکان خان موجودہ دور کی ان خواتین کے لئےجو مسلمان ہو کر پردے سے دور بھاگتی ہیں فخر کا باعث اور قابلِ تقلید نمونہ عمل ہے جس نے اپنی شجاعت و بہادری سے ہندوستانی خواتین ہی کو نہیں بلکہ پوری دنیا کی عورتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہر حال میں ہر عورت کے لئے پردے کی حفاظت لازم ہے

............... ..............

العفاف زينت النساء

’’شرم وحیاء عورت کا زیورہے‘‘[1]

پرده یعنی شرم وحیاء،پردہ یعنی عفت و پاکیزگی،پردہ یعنی نجابت و طہارت،پردہ یعنی عورت کے سرپر بندگیٔ الہی کا تاج ، پردہ یعنی عفت و پاکدامنی کی زکات ،پردہ یعنی آبروئےحُسن پہ شرم وحیا کاپھول،پردہ دار عورت جیسے صدف میں گوہر نایاب....

’’پردہ‘‘ اورحیاء جیسے پھول میں خوشبو ،پردہ اور حیاء جیسے شہد میں مٹھاس؛ جس طرح گلاب یا اس جیسے پھولوں میں خوشبو اورشہد میں مٹھاس ضروری ہے اسی طرح پردہ کے ساتھ حیاء کا ہونا شرط اولی ہے اور یہی تقرب ِالہی کا ذریعہ بھی ہےاور خدا کے حکم کی اطاعت بھی ہے اس لئے کہ خداوندعالم ہم سےشرم وحیاءاورغیرت وحمیت کاتقاضاکرتاہے ۔جہاں قرآن مجید میں ’’پردہ ‘‘کو قلب و روح کی طہارت کا ذریعہ بتایا ہے ۔[2]

وہیں بے پردگی و بے حیائی کو قانونِ الہی سے بغاوت کا موجب سمجھا گیا ہے ۔

’’بے پردگی‘‘ یعنی خواتینِ اسلام کی عظمت وتقدس کی پامالی،بے پردگی،یعنی اخلاقی انارکی،بے پردگی یعنی قلب و نظر کی گندگی، بے پردگی یعنی بدنگاہی کی دعوت،بے پردگی یعنی بے حیائی،بے دینی اور بدکاری کافروغ،بے پردگی یعنی شرم و حیاءکا خاتمہ ،بے حیائی یعنی اخلاقی اقدارکی تباہی،بے پردگی یعنی مردوں کے لئے شرو فساد ،بے پردگی یعنی جاہلیت کا تبرّج و پسماندگی،بے پردگی یعنی بےباکی اوردِینی غیرت و حمیت سے بے نیازی وبے حِسی کا مظاہرہ ہے۔

یہ کہناحق بجانب ہوگا کہ شرم وحیاءکےمکمل احساس کانام ہے عورت۔یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال ،عورت کی بے پردگی کےخلاف ہیں ان کے خیال میں پردہ میں رہ کرہی عورت کواپنی ذات کے امکانات کوسمجھنے کاموقعہ ملتاہے۔

گھرکےماحول میں وہ سماجی خرابیوں سےمحفوظ رہ کر خاندان کی تعمیرکافرض اداکرتی ہےجومعاشرہ کی بنیادی اکائی ہے۔ اورسب سے بڑی بات یہ کہ اپنے گھرمیں وہ یکسوئی کے ساتھ آئندہ نسل کی تربیت کااہم فریضہ انجام دیتی ہے اس کےبرخلاف جب پردے سے باہرآجاتی ہےتوزیب وزینت،نمائش،بےباکی،بے حیائی اور ذہنی پراگندگی کاشکارہوجاتی ہے۔[3]

پردہ،عورت کی صورت ونگاہ اور اس کی زبان و لباس سے مربوط ہے یعنی عورت مکمل مستور کا نام ہے یعنی ہر چیز اس کی پردے میں رہنا ضروری ہے چاہے اس کی آواز ہو یا اس کی نگاہ ہو ۔اب اگر کوئی ظاہری چادر اوڑھ لے لیکن اس کی نگاہ و زبان اور اس کا اخلاق و کردار بے پردہ ہو تو گویا وہ اسلام کے بھیس میں شیطان کی نمائندہ ہے کیونکہ اس کا ظاہر تو اسلام جیسا ہے لیکن باطن شیطان جیسا ! شایدیہی وجہ ہے عورت کوعورت کہا گیاہے کہ عورت کاوجودفطرتاً سراپا’’ستر‘‘ہے،اورپردہ اس کی فطرت کی آوازہےجیساکہ حدیث میں ہے:المرأة عورة،فاذا خرجت استشرفھا الشیطان ۔عورت سراپا’’ستر‘‘ہے،پس جب وہ نکلتی ہےتوشیطان اس کی تاک جھانک کرتاہے۔[4]

اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے ۔[5] اور’’جوشخص شیطان کے پیچھے چلے توشیطان توہمیشہ فحاشی اور ناجائزکاموں کی تلقین کرے گا“۔[6]

لیکن پاکدامن اور عفیف عورت ،پردہ کے ذریعہ ہی شیطانِ رجیم کی ہوس آلود نگاہوں سے محفوظ رہتی ہے اور اپنی عصمت و عفت کو تحفظ بھی فراہم کرتی ہے۔ لیکن اِدھر پردہ اُٹھااُدھر حیا گئی اور جس کی حیا گئی اس کی شرافت گئی اور جس کی شرافت گئی اس کی انسانیت گئی اور جس کی انسانیت گئی گویا اس پرحیوانیت چھائی اور جس پر حیوانیت چھائی وہ ’’ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ‘‘کی منز ل پر آگیا!

اگر انسان فارغ البال ہو کر غور خوض کرے تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اگر انسان سے حیا دور ہو جا ئے تو پھر اس کی فردی اور اجتماعی زندگی کے ساتھ ساتھ پورے سماج کا نظام بھی درھم برھم ہو جاتا ہے ۔طلاق کی شرحوں میں اضافہ اور جنسی بے راہ روی جیسی بیماریاں جڑ پکڑ لیتی ہیں ۔۔۔جس سے پورا معاشرہ افسردہ و پژمردہ ہو جا تا ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ؐ نے فرمایا : جس کے پاس حیاء نہیں ہے اس کے پاس دین نہیں ہے۔

حیا،ایمان کاحصہ ہے،اور ایمان جنت میں (لے جانے والا) ہے،اوربے حیائی،بےمروّتی ہے اوربے مروّتی جہنم سے ہے۔[7]

ہر دین کا ایک امتیازی خلق ہوتا ہے،اوراسلام کاخلق حیا ہے۔[8]

حیا اورایمان باہم جکڑے ہوئے ہیں، جب ایک کو اُٹھادیا جائے تو دُوسرا خودبخود اُٹھ جاتا ہے۔[9]

مسلم خواتین کا پردہ اس کی شرم و حیاءاورعفت و پاکیزگی کی ایک مستند دلیل ہے اوراس کی عصمت کا ایک اہم رکن ہے۔

پردہ ، عورت کے لئے سرچشمۂ کمال ہےاور اس کی عفت و پاکدامنی کا مظہرہے ۔جہاں یہ پردہ خاندان اورسماج کی برائیوں کو ختم کرتا ہے وہیں پر عورت اور اس کے گھر و خاندان نیز سماج کے اقدار کو بڑھاتا ہے۔

جہاں بے پردگی و بےحیائی معاشرہ کوبرباد کرتی ہے وہیں پر پردہ انفرادی اور اجتماعی اخلاقیات کی تعمیر میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے ۔

صاحبانِ علم ودانش کے لئے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام دشمن عناصرخاص طورپرصہیونیوں نے مسلمانوں کی تہذیبی روایتوں اوران کے دل و دماغ سے اسلامی تعلیمات کی وقعت و اہمیت کو ختم کرنے کے لئے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے۔خاص کر نوجوانوں اور صنف نسواں کو اپنا نشانہ بناتے ہو ئے تعلیم وترقی اورماڈرنیٹی کےنام پر’’فیشن شوز،‘‘کیٹ واک‘‘اور’’ولینٹائن ڈے‘‘ جیسی بے راہ روی ،بے لباسی ،بےحیائی ،فحاشی وعریانیت کا مایوس کن سوغات دے کر جو طوفان برپا کیا ہے جس سے نہ صرف گھریلو تشددوغیرہ جیسی بیماریوں میں اضافہ ہواہے بلکہ ہمارامعاشرتی نظام اوراس کاحسن بھی بالکل مجروح ہو تا جا رہا ہے ۔

یہودی لابیوں نےدنیا بھرکے یہود پرمشتمل ١٨٩٢ء میں سوئزر لینڈ میں ایک زبردست میٹنگ ہوئی ۔جس میں اسلام کی پر زور نشرو اشاعت پربنداوراس دین حنیف کی بڑھتی مقبولیت پرقابو پانے کے لئے دو قراداد منظورکی گئیں:ایک یہ کہ مسلم عورتوں کی گودوں سے اسلام کوخالی کردیا جائے اورانہیں گھروں سے باہرنکال دیاجائے ۔ دوسرے یہ کہ انہیں بے حجاب کردیاجائے ۔ چناچہ اس شیطانی منصوبہ کے نفاذکی انتھک کوششیں کی گئیں ۔ فحاشیت وعریا نیت کےمراکز قائم کئےگئے۔غداری وعیاری کی فیکٹریا ں نصب کی گئیں ۔ مختلف شہروں اور علاقو ں میں سینما ہالس اورمتفرق مقامات پرتھیٹروں کی تعمیرعمل میں لائی گئی ۔ بے حیائی،قمار بازی اور شراب خوری کے اڈے بنائے گئے ۔ بس پھرکیاتھا مسلم قوم کی ریڑھ کی ہڈیاں یعنی نوجوانان مسلم عورتوں کی ننگی تصویریں دیکھ کر اپنے مقصد حقیقی کو بھول گئے نوجوان تو نوجوان حکمران وسلا طین بھی دوشیزائوں کے عاشق اورنوجوان کلیوں کے دلدادہ ہوگئے ۔ ان کا مقدر ’’مکدر‘‘ ہو گیا اور ان کے گلے میں طوق غلامی پڑ گیا ۔ آخر کاربے پردگی،صنفی احساسات،جسمانی مطالبات،مشتعل جذبات اوربگڑی ہوئی عادات نے مسلمانوں سے فکری صلاحیت کوسلب اورتدبیری لیاقت کوچھین لیا ۔ آزادی نسواں کا پرفریب نعرہ بلند کیا گیا ۔ نتیجۃً عورتیں سڑکوں اورشاہراہوں پرلائی گئیں ۔ فیشن کے نام پر بے لباس بھی ہوئیں ۔ آج خوبصورت مانگ نکلے ہوئے سر،شانوں تک کھلی ہوئی باہیں،نیم عریاں سینے اوربے باک نگاہیں لئے دس سینٹی میٹرس کی بلائوزیں اورجاذب نظر ساڑیاں زیب تن کئےسڑکوں پرپھرتی لڑکیاں،پارکوں میں ٹہلتی دوشیزائیں اورہوٹلوں چکر لگاتی نوخیزبچیاں مذکورہ منصوبے کی تکمیل کے نمونے نہیں تو اورکیا ہیں !![10]

آج!اس پُرخاراورسلگتے ماحول میں غرب زدہ ماڈرن خواتین کی زینت و آرائش ، شکل و شمائل، لباس و پہناوائے،رہن سہن ، چال وڈھال اوران کےمعاشرتی اقدار ،قرآن وسنت کےمنشاء اوراسلامی رویے کے بالکل منافی ہیں۔

غورکیجیےکہ مخلوط تعلیم گاہوں میں جہاں لڑکے اورلڑکیاں دونوں ایک ساتھ تعلیم حاصل کررہے ہوں،پھر دونوں کی نشست گاہیں بھی ایک ساتھ ہوں اوران سب پر طرفہ یہ کہ عریاں ونیم عریاں بازو،لب ہائے گلگوں،چمکتے ہوئے عارض،چشم ہائے نیم باز،بکھری ہوئی زلفیں؛بلکہ ساراسراپا ”انا البرق“ کا منظر پیش کررہا ہو،تو کیا فریق مقابل اپنے ذوقِ دیداور شوقِ نظارہ کو صبروشکیبائی کا رہین رکھے گا یا بے تابانہ اپنی نگاہوں کی تشنگی دورکرنے کی سوچے گا؟پھر جب جمالِ جہاں آرا پوری تابانیوں کے ساتھ دعوتِ نظارہ دے رہا ہو،تو اس کی دیدکی پیاس بجھے گی کیوں؟وہ تواور تیز تر ہوجائے گی اور جام پر جام چڑھائے جانے کے باوصف اس کا شوقِ دیدار ”ہَلْ مِنْ مَزِید“ کی صدائے مسلسل لگائے گا۔

ساقی جو دیے جائے یہ کہہ کر کہ پیے جا تو میں بھی پیے جاؤں یہ کہہ کر کہ دیے جا[11]

دور حاضر کانظریہ بھی کتنا عجیب ہے! عورتوں کی بےپردگی و بے حسی،بے باکی وبے شرمی ، بے حیاءئی اوربے لگامی، جنسی اختلاط و آمیزش کو فیشن کا روپ دے رہا ہے اور اس زاویہ نظرسے با ایمان ،مہذب اورباپردہ خواتین کو بے وقار سمجھا جانے لگا ہے!!!

شاعر نے ایسےدقیانوسی افکاراورشکست خوردہ ذہنیت و نظریات کی کیا خوب عکاسی کی ہے :

مخفی ہوں حجابوں میں عفیفہ تو گنہگار اسلام کی بیٹی کرے پردہ تو گنہگار

اِترا کے چلے دل کو لبُہائے تو خوش اخلاق کندن سا بدن اپنا دکھائے تو خوش اخلاق

غیروں کے لئے خود کو سجائے تو خوش اخلاق اس راہ سے دولت جو کمائے تو خوش اخلاق

مخفی ہوں حجابوں میں عفیفہ تو گنہگار اسلام کی بیٹی کرے پردہ تو گنہگار

کردے جو نئی شے کو پرانا تو نیا دور عورت بنے شہوت کا نشانہ تو نیا دور

رقصاں ہو سرِ بزم شبانہ تو نیا دور ہو بے حس و بے باک زمانہ تو نیا دور

مخفی ہوں حجابوں میں عفیفہ تو گنہگار اسلام کی بیٹی کرے پردہ تو گنہگار

خداوند عالم نے پردہ جیسے اہم احکام کوصنف نسواں کےسکون و آررامش کی خاطر وضع کیا ہےنہ کہ انھیں سختی میں ڈالنے کے لئے ! عورتوں کا پردے میں رہنا اس کی اعلیٰ تربیت کی علامت ہے اور حق کے اعلان کے ساتھ باطل کے منھ پر زوردار طمانچہ ہے ۔

جیسا کہ حالیہ کرناٹک کا واقعہ اور مسکان خان نامی بچی کو لیکر پورے ملک میں اس کا چرچہ اور سراہانہ ہورہا ہے.. ہم ایسی بچیوں کو داد تحسین پیش کرتے ہیں.

آئیے ! پردہ کے رسم و رواج کو عام کریں اور اس کا عملی نمونہ پیش کر کے دنیا میں عورتوں کا استحصال کرنے والے افراد کے منھ پر طمانچہ رسید کریں،اور تعلیم و ترقی اور نوکری کے نام پرملک و شہر میں لٹتی ہو ئی عصمت، اجڑتے ہو ئے گھراوربرباد ہوتے ہو ئے معاشرے کو اس بربادی اور تباہی سے بچاکر اپنے انسان اور دیندار مسلمان ہونے کا ثبوت پیش کریں ۔آیئے!ہم سب ملکر اپنے گھر و خاندان سے اس کی پہل کریں اور اپنی خواتین کو یہ پیغام دیں کہ مغرب کی ثقافتی یلغار اور اس گندی تہذیب کے غلیظ سمندر میں غوطہ زن ہونے سے کنارہ کش ہوکرحجاب کو اپنا یئے اور اس کی حفاظت کیجئے کیونکہ آپ کا حجاب آپ کی عزت و وقار ہے ۔

آپ اپنے گھر سے اس طرح باہر نکلیں کہ آپ پر کسی نامحرم کی نگاہ بھی پڑے تو اس کی آنکھیں آپ کےاحترام میں جھک جائیں اورآپ کے لئے اس کے دل میں عزت و احترام پیدا ہو!خود نمائی اور دوسروں کی توجہ کا مرکز بننے سے بچیئے اور اس امر پر ذرا دیر غور و خوض کیجئے! آپ جس ملک و شہر میں زندگی گزار رہی ہیں وہاں نہ تو حجاب پر پابندی ہے اور نہ ہی کوئی حجاب پہننے پر ظلم وستم کرتا ہے لیکن آج جس ملک و معاشرے میں پردے کو معاشرتی تعلقات میں رکاوٹ قراردے کر پردہ دار خواتین کو ظلم و ستم کا ہدف بنایاجارہاہے،وہاں کی خواتین میں اسلام اورحجاب کی مقبولیت بڑھتی جارہی ہے۔

کچھ عرصہ پہلے امریکا ہی کی ایک ہسپانوی النسل نومسلمہ نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھا تھا ”جب میں مغربی لباس میں ہوتی تھی تو مجھے خود سے زیادہ دوسروں کا لحاظ رکھنا پڑتاتھا، گھرسے نکلنے سے پہلے اپنی نمائش کی تیاری،ایک کرب انگیز اورمشکل عمل تھا، پھر جب میں کسی اسٹور ،ریسٹورنٹ یا کسی ایسے مقام پر جہاں بہت سارے لوگ جمع ہوں، جاتی تھی توخود کو دوسروں کی نظروں میں جکڑی ہوئی محسوس کرتی تھی،میں بظاہرآزادوخودمختار ہوتی تھی لیکن فی الحقیقت دوسروں کی پسندو ناپسند کی قید میں ہوتی تھی پھریہ فکر بھی لاحق رہتی تھی کہ جب تک حسن اورعمر ہےلوگ میری طرف متوجہ ہیں۔عمر ڈھل جانے کے بعدخودکو قابل توجہ بنانے کے لیے مجھے اورزیادہ محنت کرنی پڑے گی۔لیکن اب اسلامی پردے نے ان الجھنوں سے مجھے یکسرے بے فکر و آزاد کردیا ہے۔[12] “

16سالہ عائشہ کاکہناہے کہ والدین یاکوئی مرد مجھے مجبورنہیں کرسکتاکہ میں حجاب نہ کروں۔میں حجاب پراعتراض کرنےوالوں کو بتاتی ہوں کہ”حجاب‘‘کوئی بوجھ یا ذمہ داری نہیں ہے۔بلکہ یہ میراحق ہے جومجھے میرے خالق نے دیاہےجوانسانوں کوسب سے بہترجانتا ہے جب یہ میرے لئے ایک مفیدچیزہےتومیں اسے استعمال کیوں نہ کروں ۔یہ حق تو یہ ہے کہ اور عورت حفظ و امان چاہتی ہے ۔[13]

عصر حاضرمیں بے پردگی و بے حیاءئی ،بے شرمی اور فحاشی کو فروغ دینے والے اسلام دشمن عناصر ہیں جو مختلف ذرائع ابلاغ (میڈیا ،موبائیل ،ڈیش ،انٹرنیٹ،جریدہ اور میگزین وغیرہ) کے ذریعہ اس وباکو پھیلاکر ہمارے سماج کو برباد کر رہے ہیں ۔

خداوند عالم اپنی بابرکت کتاب میں فرمایاہے: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا۔

اے پیغمبر!اپنی بیویوں اوربیٹیوں اورایمان والوں کی عورتوں سے کہہ دوکہ اپنے اوراپنی چادروں کے پلوٹکالیاکریں اس سے وہ جلدپہچان لی جائیں گی (کہ نیک بخت ہیں)اس لئے انہیں ستایا نہ جائے گااوراللہ غفوررحیم ہے ۔[14]

اگر اسی آیۂ کریمہ پر ہماری عورتیں عمل پیرا ہوجائیں تو ہمارا سماج بھی ایک مثالی سماج کے زمرہ میں آسکتا ہے جہاں پرہر عورت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جا ئے اور اس کا احترام کیا جا ئےاس لئے کہ جو اہمیت و فضیلت عالم ِنسواں کو اسلام نے دی ہے دنیا کے کسی مذہب و ملت نے اسے وہ اہمیت نہیں دی ہے ۔ظلم واستحصال،ذلت اورغلامی کی زنجیروں میں جکڑی صنف نازک کو بےشمارحقوق عطا کئے، اس کے ساتھ ہونے والی نا انصافی وحق تلفی کے خلاف آوازیں بلند کیں اورہر اس قبیح رسم ورواج کی زنجیروں اور سرحدوں کو توڑ ڈالا جو انسانی وقارکے منافی تھیں اوراسے نہ صرف احترام وعزت کامقام عطاکیابلکہ اسے وراثت کاحقدارٹھہراکر اس کے ساتھ حسنِ سلوک اوراچھی تعلیم وتربیت کی تلقین بھی فرمائی ہے تا کہ وہ معاشرے میں پرسکون زندگی گزارسکیں۔کیا کسی مذہب نے عورت کو یہ مرتبہ بخشا ہے!؟ کہ جب وہ بیٹی کی صورت میں ہے تو اپنے والدین کے لئے جنت کے دروازوں میں سے ایک در ہے ،جب وہ کسی کی بیوی ہے تو اس کے لئے نصف ِایمان کے تکمیل کا ذریعہ ہے اور جب وہ کسی کی ماں ہے تو اس کے پیروں تلے جنت ہے ۔

”ای بلائیڈن“رقمطرازہیں :سچا اورحقیق اسلام جونبی کریم حضرت محمدمصطفی(ص)لے کرآئے،اس نے طبقہ نسواں کووہ حقوق عطاکئے جواس سے پہلے اس طبقہ کوپوری انسانی تاریخ میں نصیب نہیں ہوئے تھے۔[15]

”ڈبلیولائٹرر“ لکھتے ہیں:عورت کوجوتکریم اورعزت حضرت محمدؐنے دی وہ مغربی معاشرے اوردوسرے مذاہب نہیں دے سکے اور نہ ہی دے سکیں گے۔“[16]ذرا ٹھریئے!معاشرےمیں بڑھتی ہو ئی بے پردگی و عریانیت کی غلاظت کو اس طرح نظر انداز مت کیجیے عورت کے مقام و منزلت پر روشنی ڈالئیے کہ خداوند عالم نے عورت کو ہیرے اورجواہرات کی طرح چھپا کررکھنے کاحکم دیتے ہوئے یہ ارشادفرمایا:وقرن فی بیو تکنّ و لا تبرّجن تبرجن الجاہلیة ا لا ولی ۔

اسے حیاء و شرم کی چادرمر حمت فرمائی گئی ہے اوراسکی آبرو پردست درازی کر نے والوں کیلئے سزائے موت کا اعلان کیا گیا ۔اسکی جا نب غلط نظر اٹھا کر دیکھنے والوں کو ان الفاظ میں وارننگ دی گئی: قل للمئو منین ان یغضو ا من ابصارہم الخ ۔[17]

’’ہملٹن‘‘ کہتے ہیں:اسلام کے احکام عورتوں کےبارے میں نہایت واضح ہیں،اس نے عورتوں کوہراس چیز سے بچانے کی کوشش کی ہے جوعورتوں کوتکلیف پہنچائے اوران پردھبہ لگائے۔ اسلام میں پردہ کادائرہ اتنا تنگ نہیں ہےجتنابعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ وہ عین حیاءاورغیرت ووقارکاتقاضہ ہے۔[18]بس ! ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین اپنی وجہ تخلیق ،مقام ومنزلت ،عظمت و بزرگی،عز ت و شرف اور اپنےرتبہ کو سمجھیں اور اپنے کھوئے ہو ئے وقار کوحاصل کرنے کے لئے عفت و پاکدامنی،شرم و حیاءکو اپنے گلے کا مالا بنا لیں ۔اس لئے کہ :

جس سے سنبھلانہ گیا اپنے ہی سر کا آنچل اس سے کیا خاک ترے گھرکی حفاظت ہوگی

استاد آیت اللہ قرأتی کے جملات یاد آگئے جسے وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ جس طرح موسم سرما میں ہوا سرد ہوتی جاتی ہےاورلوگ اپنے لباس کو ضخیم تر کرتے جاتے ہیں تا کہ ٹھنڈ ک انھیں نقصان نہ پہنچا سکے ! بالکل اسی طرح جیسے جیسے تمہاراسماج مفسد ہوتا جائے تم اپنے لباسِ تقویٰ کوضخیم تر کرتے جاؤ تاکہ سماج کی برائی تمہیں آلودہ نہ کرسکےاور ہرگز یہ نہ کہو! ماحول آلودہ و خراب ہے جس کی وجہ سے میں بھی آلودہ ہو گئی۔۔۔۔۔۔

.................................

زکاتُ الجمالِ،العفاف

حُسن کی زکات، عفت و پاکدامنی ہے۔(مولا علی ؑ)

........

[1] ۔رسول اکرم ؐ

[2] ۔سورۂ احزاب ؍ 53

[3] ۔ اقبال کا تصور عورت

[4] ۔مشکوٰة ص:۲۶۹، بروایت ترمذی

[5] ۔ ”الشیطٰن یعدکم الفقر ویأمرکم بالفحشاء“ ۔ البقرہ:۲۶۸

[6] ۔ ومن یتبع خطوات الشیطان فانہ یأمر بالفحشاء والمنکر“۔النور:۲۱

[7] ۔ مسندِ احمد، ترمذی

[8] ۔ موٴطا مالک، ابنِ ماجہ، بیہقی

[9] ۔بیہقی

[10] ۔ عظمت نسواں پردئہ اسلامی میں ہے مستور

[11] ۔ اسلام میں تعلیمِ نسواں اور موجودہ مخلوط نظامِ تعلیم

[12] ۔حجاب پر پابندی مغرب کی اسلام دشمنی کا ایک اورثبوت

[13] ۔مسلم خواتین حجاب کیوں پہنتی ہیں؟

[14] ۔ سورۂ احزاب ٥٩

[15] ۔سنت نبوی اور جدید سائنس

[16] ۔ اسلام میں عورتوں کے حقوق“غیروں کی نظر میں

[17] ۔ پردہ میں عزت کی حفاظت کے ساتھ کئی ایک فوائد

[18] ۔اسلام میں عورتوں کے حقوق“غیروں کی نظر میں

تبصرہ ارسال

You are replying to: .